صحیح بخاری

Sahih Bukhari

کتاب غزوات کے بیان میں

The book of al- maghazi.

بدر کی لڑائی میں حاضر ہونے والوں کی فضیلت کا بیان

(9) CHAPTER. The superiority of those who fought the battle of Badr.

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، يَقُولُ : أُصِيبَ حَارِثَةُ يَوْمَ بَدْرٍ وَهُوَ غُلَامٌ , فَجَاءَتْ أُمُّهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ عَرَفْتَ مَنْزِلَةَ حَارِثَةَ مِنِّي فَإِنْ يَكُنْ فِي الْجَنَّةِ أَصْبِرْ وَأَحْتَسِبْ , وَإِنْ تَكُ الْأُخْرَى تَرَى مَا أَصْنَعُ ، فَقَالَ : وَيْحَكِ أَوَهَبِلْتِ أَوَجَنَّةٌ وَاحِدَةٌ هِيَ , إِنَّهَا جِنَانٌ كَثِيرَةٌ , وَإِنَّهُ فِي جَنَّةِ الْفِرْدَوْسِ .

Narrated Anas: Haritha was martyred on the day (of the battle) of Badr, and he was a young boy then. His mother came to the Prophet and said, O Allah's Apostle! You know how dear Haritha is to me. If he is in Paradise, I shall remain patient, and hope for reward from Allah, but if it is not so, then you shall see what I do? He said, May Allah be merciful to you! Have you lost your senses? Do you think there is only one Paradise? There are many Paradises and your son is in the (most superior) Paradise of Al- Firdaus.

مجھ سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا ‘ ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا ‘ ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا ‘ ان سے حمید نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ حارثہ بن سراقہ انصاری رضی اللہ عنہ جو ابھی نوعمر لڑکے تھے ‘ بدر کے دن شہید ہو گئے تھے ( پانی پینے کے لیے حوض پر آئے تھے کہ ایک تیر نے شہید کر دیا ) پھر ان کی والدہ ( ربیع بنت النصر ‘ انس رضی اللہ عنہ کی پھوپھی ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو معلوم ہے کہ مجھے حارثہ سے کتنا پیار تھا۔ اگر وہ اب جنت میں ہے تو میں اس پر صبر کروں گی اور اللہ تعالیٰ کی امید رکھوں گی اور اگر کہیں دوسری جگہ ہے تو آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں کس حال میں ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تم پر رحم کرے، کیا دیوانی ہو رہی ہو، کیا وہاں کوئی ایک جنت ہے؟ بہت سی جنتیں ہیں اور تمہارا بیٹا جنت الفردوس میں ہے۔“

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، قَالَ : سَمِعْتُ حُصَيْنَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ , وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ وَكُلُّنَا فَارِسٌ ، قَالَ : انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ خَاخٍ فَإِنَّ بِهَا امْرَأَةً مِنَ الْمُشْرِكِينَ مَعَهَا كِتَابٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ , فَأَدْرَكْنَاهَا تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا حَيْثُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْنَا : الْكِتَابُ ، فَقَالَتْ : مَا مَعَنَا كِتَابٌ , فَأَنَخْنَاهَا , فَالْتَمَسْنَا فَلَمْ نَرَ كِتَابًا ، فَقُلْنَا : مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ أَوْ لَنُجَرِّدَنَّكِ , فَلَمَّا رَأَتِ الْجِدَّ أَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ فَأَخْرَجَتْهُ , فَانْطَلَقْنَا بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ فَدَعْنِي فَلِأَضْرِبَ عُنُقَهُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَا حَمَلَكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ ، قَالَ حَاطِبٌ : وَاللَّهِ مَا بِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي , وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِكَ إِلَّا لَهُ هُنَاكَ مِنْ عَشِيرَتِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : صَدَقَ وَلَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا ، فَقَالَ عُمَرُ : إِنَّهُ قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ فَدَعْنِي فَلِأَضْرِبَ عُنُقَهُ ، فَقَالَ : أَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ ، فَقَالَ : لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ إِلَى أَهْلِ بَدْرٍ فَقَالَ : اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ وَجَبَتْ لَكُمُ الْجَنَّةُ , أَوْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَكُمْ , فَدَمَعَتْ عَيْنَا عُمَرَ ، وَقَالَ : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ .

Narrated `Ali: Allah's Apostle sent me, Abu Marthad and Az-Zubair, and all of us were riding horses, and said, Go till you reach Raudat-Khakh where there is a pagan woman carrying a letter from Hatib bin Abi Balta' a to the pagans of Mecca. So we found her riding her camel at the place which Allah's Apostle had mentioned. We said (to her), (Give us) the letter. She said, I have no letter. Then we made her camel kneel down and we searched her, but we found no letter. Then we said, Allah's Apostle had not told us a lie, certainly. Take out the letter, otherwise we will strip you naked. When she saw that we were determined, she put her hand below her waist belt, for she had tied her cloak round her waist, and she took out the letter, and we brought her to Allah's Apostle Then `Umar said, O Allah's Apostle! (This Hatib) has betrayed Allah, His Apostle and the believers! Let me cut off his neck! The Prophet asked Hatib, What made you do this? Hatib said, By Allah, I did not intend to give up my belief in Allah and His Apostle but I wanted to have some influence among the (Mecca) people so that through it, Allah might protect my family and property. There is none of your companions but has some of his relatives there through whom Allah protects his family and property. The Prophet said, He has spoken the truth; do no say to him but good. `Umar said, He as betrayed Allah, His Apostle and the faithful believers. Let me cut off his neck! The Prophet said, Is he not one of the Badr warriors? May be Allah looked at the Badr warriors and said, 'Do whatever you like, as I have granted Paradise to you, or said, 'I have forgiven you. ' On this, tears came out of `Umar's eyes, and he said, Allah and His Apostle know better.

مجھ سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ ہم کو عبداللہ بن ادریس نے خبر دی ‘ کہا کہ میں نے حسین بن عبدالرحمٰن سے سنا ‘ انہوں نے سعد بن عبیدہ سے ‘ انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سلمی سے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے ‘ ابومرثد رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم پر بھیجا۔ ہم سب شہسوار تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ سیدھے چلے جاؤ۔ جب روضہ خاخ پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی ایک عورت ملے گی ‘ وہ ایک خط لیے ہوئے ہے جسے حاطب بن ابی بلتعہ نے مشرکین کے نام بھیجا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جگہ کا پتہ دیا تھا ہم نے وہیں اس عورت کو ایک اونٹ پر جاتے ہوئے پا لیا۔ ہم نے اس سے کہا کہ خط دے دو۔ وہ کہنے لگی کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بیٹھا کر اس کی تلاشی لی تو واقعی ہمیں بھی کوئی خط نہیں ملا۔ لیکن ہم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کبھی غلط نہیں ہو سکتی خط نکال ورنہ ہم تجھے ننگا کر دیں گے۔ جب اس نے ہمارا یہ سخت رویہ دیکھا تو ازار باندھنے کی جگہ کی طرف اپنا ہاتھ لے گئی وہ ایک چادر میں لپٹی ہوئی تھی اور اس نے خط نکال کر ہم کو دے دیا ہم اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس نے ( یعنی حاطب بن ابی بلتعہ نے ) اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے آپ مجھے اجازت دیں تاکہ میں اس کی گردن مار دوں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟ حاطب رضی اللہ عنہ بولے: اللہ کی قسم! یہ وجہ ہرگز نہیں تھی کہ اللہ اور اس کے رسول پر میرا ایمان باقی نہیں رہا تھا میرا مقصد تو صرف اتنا تھا کہ قریش پر اس طرح میرا ایک احسان ہو جائے اور اس کی وجہ سے وہ ( مکہ میں باقی رہ جانے والے ) میرے اہل و عیال کی حفاظت کریں۔ آپ کے اصحاب میں جتنے بھی حضرات ( مہاجرین ) ہیں ان سب کا قبیلہ وہاں موجود ہے اور اللہ ان کے ذریعے ان کے اہل و مال کی حفاظت کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے سچی بات بتا دی ہے اور تم لوگوں کو چاہئے کہ ان کے متعلق اچھی بات ہی کہو۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پھر عرض کیا کہ اس شخص نے اللہ، اس کے رسول اور مسلمانوں سے دغا کی ہے آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ کیا یہ بدر والوں میں سے نہیں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اہل بدر کے حالات کو پہلے ہی سے جانتا تھا اور وہ خود فرما چکا ہے کہ ”تم جو چاہو کرو، تمہیں جنت ضرور ملے گی۔“ ( یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ) میں نے تمہاری مغفرت کر دی ہے یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور عرض کیا، اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے۔

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْغَسِيلِ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ , وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْمُنْذِرِ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ ، عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَدْرٍ : إِذَا أَكْثَبُوكُمْ فَارْمُوهُمْ وَاسْتَبْقُوا نَبْلَكُمْ .

Narrated Usaid: On the day of Badr, Allah's Apostle said to us, When the enemy comes near to you, shoot at them but use your arrows sparingly (so that your arrows should not be wasted).

مجھ سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا ‘ ہم سے ابواحمد زبیری نے بیان کیا ‘ ہم سے عبدالرحمٰن بن غسیل نے بیان کیا ‘ ان سے حمزہ بن ابی اسید اور زبیر بن منذر بن ابی اسید نے اور ان سے ابواسید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے موقع پر ہمیں ہدایت فرمائی تھی کہ جب کفار تمہارے قریب آ جائیں تو ان پر تیر چلانا اور ( جب تک وہ دور رہیں ) اپنے تیروں کو بچائے رکھنا۔

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْغَسِيلِ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ , وَالْمُنْذِرِ بْنِ أَبِي أُسَيْدٍ ،عَنْ أَبِي أُسَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ بَدْرٍ : إِذَا أَكْثَبُوكُمْ , يَعْنِي كَثَرُوكُمْ , فَارْمُوهُمْ وَاسْتَبْقُوا نَبْلَكُمْ .

Narrated Abu Usaid: On the day of (the battle of) Badr, Allah's Apostle said to us, When your enemy comes near to you (i.e. overcome you by sheer number), shoot at them but use your arrows sparingly.

مجھ سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا ‘ ہم سے ابواحمد زبیری نے بیان کیا ‘ ہم سے عبدالرحمٰن بن غسیل نے ‘ ان سے حمزہ بن ابی اسید اور منذر بن ابی اسید نے اور ان سے ابواسید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کی تھی کہ جب کفار تمہارے قریب آ جائیں یعنی حملہ و ہجوم کریں ( اتنے کہ تمہارے نشانے کی زد میں آ جائیں ) تو پھر ان پر تیر برسانے شروع کرنا اور ( جب تک وہ تم سے قریب نہ ہوں ) اپنے تیر کو محفوظ رکھنا۔

حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، قَالَ : سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، قَالَ : جَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الرُّمَاةِ يَوْمَ أُحُدٍ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ جُبَيْرٍ , فَأَصَابُوا مِنَّا سَبْعِينَ , وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ أَصَابُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ بَدْرٍ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً سَبْعِينَ أَسِيرًا وَسَبْعِينَ قَتِيلًا ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ : يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ وَالْحَرْبُ سِجَالٌ .

Narrated Al-Bara' bin `Azib: On the day of Uhud the Prophet appointed `Abdullah bin Jubair as chief of the archers, and seventy among us were injured and martyred. On the day (of the battle) of Badr, the Prophet and his companions had inflicted 140 casualties on the pagans, 70 were taken prisoners, and 70 were killed. Abu Sufyan said, This is a day of (revenge) for the day of Badr and the issue of war is undecided .

مجھ سے عمرو بن خالد نے بیان کیا ‘ ہم سے زہیر نے بیان کیا ‘ ہم سے ابواسحاق نے بیان کیا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ بیان کر رہے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کی لڑائی میں تیر اندازوں پر عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہ کو سردار مقرر کیا تھا اس لڑائی میں ہمارے ستر آدمی شہید ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابیوں سے بدر کی لڑائی میں ایک سو چالیس مشرکین کو نقصان پہنچا تھا۔ ستر ان میں سے قتل کر دئیے گئے اور ستر قیدی بنا کر لائے گئے اس پر ابوسفیان نے کہا کہ آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے اور لڑائی کی مثال ڈول کی سی ہے۔

حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى أُرَاهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : وَإِذَا الْخَيْرُ مَا جَاءَ اللَّهُ بِهِ مِنَ الْخَيْرِ بَعْدُ وَثَوَابُ الصِّدْقِ الَّذِي آتَانَا بَعْدَ يَوْمِ بَدْرٍ .

Narrated Abu Musa: That the Prophet said, The good is what Allah gave us later on (after Uhud), and the reward of truthfulness is what Allah gave us after the day (of the battle) of Badr.

مجھ سے محمد بن علاء نے بیان کیا ‘ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا ‘ ان سے برید نے ‘ ان سے ان کے دادا نے ‘ اس سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”خیر و بھلائی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں احد کی لڑائی کے بعد عطا فرمائی اور خلوص عمل کا ثواب وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں بدر کی لڑائی کے بعد عطا فرمایا۔

حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ : إِنِّي لَفِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ إِذْ الْتَفَتُّ , فَإِذَا عَنْ يَمِينِي وَعَنْ يَسَارِي فَتَيَانِ حَدِيثَا السِّنِّ , فَكَأَنِّي لَمْ آمَنْ بِمَكَانِهِمَا إِذْ ، قَالَ لِي : أَحَدُهُمَا سِرًّا مِنْ صَاحِبِهِ يَا عَمِّ أَرِنِي أَبَا جَهْلٍ ، فَقُلْتُ : يَا ابْنَ أَخِي وَمَا تَصْنَعُ بِهِ ، قَالَ : عَاهَدْتُ اللَّهَ إِنْ رَأَيْتُهُ أَنْ أَقْتُلَهُ أَوْ أَمُوتَ دُونَهُ ، فَقَالَ لِي : الْآخَرُ سِرًّا مِنْ صَاحِبِهِ مِثْلَهُ ، قَالَ : فَمَا سَرَّنِي أَنِّي بَيْنَ رَجُلَيْنِ مَكَانَهُمَا , فَأَشَرْتُ لَهُمَا إِلَيْهِ فَشَدَّا عَلَيْهِ مِثْلَ الصَّقْرَيْنِ حَتَّى ضَرَبَاهُ وَهُمَا ابْنَا عَفْرَاءَ .

Narrated `Abdur-Rahman bin `Auf: While I was fighting in the front file on the day (of the battle) of Badr, suddenly I looked behind and saw on my right and left two young boys and did not feel safe by standing between them. Then one of them asked me secretly so that his companion may not hear, O Uncle! Show me Abu Jahl. I said, O nephew! What will you do to him? He said, I have promised Allah that if I see him (i.e. Abu Jahl), I will either kill him or be killed before I kill him. Then the other said the same to me secretly so that his companion should not hear. I would not have been pleased to be in between two other men instead of them. Then I pointed him (i.e. Abu Jahl) out to them. Both of them attacked him like two hawks till they knocked him down. Those two boys were the sons of 'Afra' (i.e. an Ansari woman).

مجھ سے یعقوب نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان کے دادا سے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا بدر کی لڑائی کے موقع پر میں صف میں کھڑا ہوا تھا۔ میں نے مڑ کے دیکھا تو میری داہنی اور بائیں طرف دو نوجوان کھڑے تھے۔ ابھی میں ان کے متعلق کوئی فیصلہ بھی نہ کر پایا تھا کہ ایک نے مجھ سے چپکے سے پوچھا تاکہ اس کا ساتھی سننے نہ پائے۔ چچا! مجھے ابوجہل کو دکھا دو۔ میں نے کہا بھتیجے! تم اسے دیکھ کر کیا کرو گے؟ اس نے کہا، میں نے اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ عہد کیا ہے کہ اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو یا اسے قتل کر کے رہوں گا یا پھر خود اپنی جان دے دوں گا۔ دوسرے نوجوان نے بھی اپنے ساتھی سے چھپاتے ہوئے مجھ سے یہی بات پوچھی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ان دونوں نوجوانوں کے درمیان میں کھڑے ہو کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں نے اشارے سے انہیں ابوجہل دکھا دیا۔ جسے دیکھتے ہی وہ دونوں باز کی طرح اس پر جھپٹے اور فوراً ہی اسے مار گرایا۔ یہ دونوں عفراء کے بیٹے تھے۔

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ أَسِيدِ بْنِ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ حَلِيفُ بَنِي زُهْرَةَ , وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةً عَيْنًا , وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَتَّى إِذَا كَانُوا بِالْهَدَةِ بَيْنَ عَسْفَانَ وَمَكَّةَ ذُكِرُوا لِحَيٍّ مِنْ هُذَيْلٍ ، يُقَالُ لَهُمْ : بَنُو لِحْيَانَ فَنَفَرُوا لَهُمْ بِقَرِيبٍ مِنْ مِائَةِ رَجُلٍ رَامٍ , فَاقْتَصُّوا آثَارَهُمْ حَتَّى وَجَدُوا مَأْكَلَهُمُ التَّمْرَ فِي مَنْزِلٍ نَزَلُوهُ ، فَقَالُوا : تَمْرُ يَثْرِبَ فَاتَّبَعُوا آثَارَهُمْ , فَلَمَّا حَسَّ بِهِمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُهُ لَجَئُوا إِلَى مَوْضِعٍ فَأَحَاطَ بِهِمُ الْقَوْمُ ، فَقَالُوا لَهُمْ : انْزِلُوا فَأَعْطُوا بِأَيْدِيكُمْ وَلَكُمُ الْعَهْدُ وَالْمِيثَاقُ أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْكُمْ أَحَدًا ، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ : أَيُّهَا الْقَوْمُ أَمَّا أَنَا فَلَا أَنْزِلُ فِي ذِمَّةِ كَافِرٍ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِيَّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَرَمَوْهُمْ بِالنَّبْلِ , فَقَتَلُوا عَاصِمًا وَنَزَلَ إِلَيْهِمْ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ عَلَى الْعَهْدِ وَالْمِيثَاقِ مِنْهُمْ خُبَيْبٌ , وَزَيْدُ بْنُ الدَّثِنَةِ وَرَجُلٌ آخَرُ , فَلَمَّا اسْتَمْكَنُوا مِنْهُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِيِّهِمْ فَرَبَطُوهُمْ بِهَا ، قَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ : هَذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ , وَاللَّهِ لَا أَصْحَبُكُمْ إِنَّ لِي بِهَؤُلَاءِ أُسْوَةً يُرِيدُ الْقَتْلَى فَجَرَّرُوهُ وَعَالَجُوهُ , فَأَبَى أَنْ يَصْحَبَهُمْ فَانْطُلِقَ بِخُبَيْبٍ , وَزَيْدِ بْنِ الدَّثِنَةِ حَتَّى بَاعُوهُمَا بَعْدَ وَقْعَةِ بَدْرٍ فَابْتَاعَ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ خُبَيْبًا وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا حَتَّى أَجْمَعُوا قَتْلَهُ , فَاسْتَعَارَ مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ مُوسًى يَسْتَحِدُّ بِهَا , فَأَعَارَتْهُ فَدَرَجَ بُنَيٌّ لَهَا وَهِيَ غَافِلَةٌ حَتَّى أَتَاهُ , فَوَجَدَتْهُ مُجْلِسَهُ عَلَى فَخِذِهِ وَالْمُوسَى بِيَدِهِ ، قَالَتْ : فَفَزِعْتُ فَزْعَةً عَرَفَهَا خُبَيْبٌ ، فَقَالَ : أَتَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ ، قَالَتْ : وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ أَسِيرًا قَطُّ خَيْرًا مِنْ خُبَيْبٍ , وَاللَّهِ لَقَدْ وَجَدْتُهُ يَوْمًا يَأْكُلُ قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ فِي يَدِهِ وَإِنَّهُ لَمُوثَقٌ بِالْحَدِيدِ , وَمَا بِمَكَّةَ مِنْ ثَمَرَةٍ , وَكَانَتْ تَقُولُ إِنَّهُ لَرِزْقٌ رَزَقَهُ اللَّهُ خُبَيْبًا , فَلَمَّا خَرَجُوا بِهِ مِنَ الْحَرَمِ لِيَقْتُلُوهُ فِي الْحِلِّ ، قَالَ لَهُمْ خُبَيْبٌ : دَعُونِي أُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ , فَتَرَكُوهُ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ ، فَقَالَ : وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ تَحْسِبُوا أَنَّ مَا بِي جَزَعٌ لَزِدْتُ ، ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ أَحْصِهِمْ عَدَدًا , وَاقْتُلْهُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْهُمْ أَحَدًا , ثُمَّ أَنْشَأَ يَقُولُ : فَلَسْتُ أُبَالِي حِينَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ جَنْبٍ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ ثُمَّ قَامَ إِلَيْهِ أَبُو سِرْوَعَةَ عُقْبَةُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَهُ ، وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ سَنَّ لِكُلِّ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا الصَّلَاةَ , وَأَخْبَرَ أَصْحَابَهُ يَوْمَ أُصِيبُوا خَبَرَهُمْ , وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ إِلَى عَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ حِينَ حُدِّثُوا أَنَّهُ قُتِلَ أَنْ يُؤْتَوْا بِشَيْءٍ مِنْهُ يُعْرَفُ , وَكَانَ قَتَلَ رَجُلًا عَظِيمًا مِنْ عُظَمَائِهِمْ , فَبَعَثَ اللَّهُ لِعَاصِمٍ مِثْلَ الظُّلَّةِ مِنَ الدَّبْرِ فَحَمَتْهُ مِنْ رُسُلِهِمْ ، فَلَمْ يَقْدِرُوا أَنْ يَقْطَعُوا مِنْهُ شَيْئًا ، وَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ : ذَكَرُوا مَرَارَةَ بْنَ الرَّبِيعِ الْعَمْرِيَّ وَهِلَالَ بْنَ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيَّ رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا .

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle sent out ten spies under the command of `Asim bin Thabit Al-Ansari, the grand-father of `Asim bin `Umar Al-Khattab. When they reached (a place called) Al-Hadah between 'Usfan and Mecca, their presence was made known to a sub-tribe of Hudhail called Banu Lihyan. So they sent about one hundred archers after them. The archers traced the footsteps (of the Muslims) till they found the traces of dates which they had eaten at one of their camping places. The archers said, These dates are of Yathrib (i.e. Medina), and went on tracing the Muslims' footsteps. When `Asim and his companions became aware of them, they took refuge in a (high) place. But the enemy encircled them and said, Come down and surrender. We give you a solemn promise and covenant that we will not kill anyone of you. `Asim bin Thabit said, O people! As for myself, I will never get down to be under the protection of an infidel. O Allah! Inform your Prophet about us. So the archers threw their arrows at them and martyred `Asim. Three of them came down and surrendered to them, accepting their promise and covenant and they were Khubaib, Zaid bin Ad-Dathina and another man. When the archers got hold of them, they untied the strings of the arrow bows and tied their captives with them. The third man said, This is the first proof of treachery! By Allah, I will not go with you for I follow the example of these. He meant the martyred companions. The archers dragged him and struggled with him (till they martyred him). Then Khubaib and Zaid bin Ad-Dathina were taken away by them and later on they sold them as slaves in Mecca after the event of the Badr battle. The sons of Al-Harit bin `Amr bin Naufal bought Khubaib for he was a person who had killed (their father) Al-Hari bin `Amr on the day (of the battle) of Badr. Khubaib remained imprisoned by them till they decided unanimously to kill him. One day Khubaib borrowed from a daughter of Al-Harith, a razor for shaving his public hair, and she lent it to him. By chance, while she was inattentive, a little son of hers went to him (i.e. Khubaib) and she saw that Khubaib had seated him on his thigh while the razor was in his hand. She was so much terrified that Khubaib noticed her fear and said, Are you afraid that I will kill him? Never would I do such a thing. Later on (while narrating the story) she said, By Allah, I had never seen a better captive than Khubaib. By Allah, one day I saw him eating from a bunch of grapes in his hand while he was fettered with iron chains and (at that time) there was no fruit in Mecca. She used to say, It was food Allah had provided Khubaib with. When they took him to Al-Hil out of Mecca sanctuary to martyr him, Khubaib requested them. Allow me to offer a two-rak`at prayer. They allowed him and he prayed two rak`at and then said, By Allah! Had I not been afraid that you would think I was worried, I would have prayed more. Then he (invoked evil upon them) saying, O Allah! Count them and kill them one by one, and do not leave anyone of them ' Then he recited: As I am martyred as a Muslim, I do not care in what way I receive my death for Allah's Sake, for this is for the Cause of Allah. If He wishes, He will bless the cut limbs of my body. Then Abu Sarva, 'Ubqa bin Al-Harith went up to him and killed him. It was Khubaib who set the tradition of praying for any Muslim to be martyred in captivity (before he is executed). The Prophet told his companions of what had happened (to those ten spies) on the same day they were martyred. Some Quraish people, being informed of `Asim bin Thabit's death, sent some messengers to bring a part of his body so that his death might be known for certain, for he had previously killed one of their leaders (in the battle of Badr). But Allah sent a swarm of wasps to protect the dead body of `Asim, and they shielded him from the messengers who could not cut anything from his body.

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، انہیں ابن شہاب نے خبر دی، کہا کہ مجھے عمر بن اسید بن جاریہ ثقفی نے خبر دی جو بنی زہرہ کے حلیف تھے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں شامل تھے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس جاسوس بھیجے اور ان کا امیر عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو بنایا جو عاصم بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے نانا ہوتے ہیں۔ جب یہ لوگ عسفان اور مکہ کے درمیان مقام ہدہ پر پہنچے تو بنی ہذیل کے ایک قبیلہ کو ان کے آنے کی اطلاع مل گئی۔ اس قبیلہ کا نام بنی لحیان تھا۔ اس کے سو تیرانداز ان صحابہ رضی اللہ عنہم کی تلاش میں نکلے اور ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے۔ آخر اس جگہ پہنچ گئے جہاں بیٹھ کر ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے کھجور کھائی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ یثرب ( مدینہ ) کی کھجور ( کی گٹھلیاں ) ہیں۔ اب پھر وہ ان کے نشان قدم کے اندازے پر چلنے لگے۔ جب عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے ان کے آنے کو معلوم کر لیا تو ایک ( محفوظ ) جگہ پناہ لی۔ قبیلہ والوں نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہا کہ نیچے اتر آؤ اور ہماری پناہ خود قبول کر لو تو تم سے ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہارے کسی آدمی کو بھی ہم قتل نہیں کریں گے۔ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا۔ مسلمانو! میں کسی کافر کی پناہ میں نہیں اتر سکتا۔ پھر انہوں نے دعا کی، اے اللہ! ہمارے حالات کی خبر اپنے نبی کو کر دے آخر قبیلہ والوں نے مسلمانوں پر تیر اندازی کی اور عاصم رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔ بعد میں ان کے وعدہ پر تین صحابہ اتر آئے۔ یہ حضرات خبیب، زید بن دثنہ اور ایک تیسرے صحابی تھے۔ قبیلہ والوں نے جب ان تینوں صحابیوں پر قابو پا لیا تو ان کی کمان سے تانت نکال کر اسی سے انہیں باندھ دیا۔ تیسرے صحابی نے کہا، یہ تمہاری پہلی دغا بازی ہے میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں جا سکتا۔ میرے لیے تو انہیں کی زندگی نمونہ ہے۔ آپ کا اشارہ ان صحابہ کی طرف تھا جو ابھی شہید کئے جا چکے تھے۔ کفار نے انہیں گھسیٹنا شروع کیا اور زبردستی کی لیکن وہ کسی طرح ان کے ساتھ جانے پر تیار نہ ہوئے۔ ( تو انہوں نے ان کو بھی شہید کر دیا ) اور خبیب رضی اللہ عنہ اور زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے گئے اور ( مکہ میں لے جا کر ) انہیں بیچ دیا۔ یہ بدر کی لڑائی کے بعد کا واقعہ ہے۔ حارث بن عامر بن نوفل کے لڑکوں نے خبیب رضی اللہ کو خرید لیا۔ انہوں ہی نے بدر کی لڑائی میں حارث بن عامر کو قتل کیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو وہ ان کے یہاں قید رہے آخر انہوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا۔ انہیں دنوں حارث کی کسی لڑکی سے انہوں نے زیر ناف بال صاف کرنے کے لیے استرہ مانگا۔ اس نے دے دیا۔ اس وقت اس کا ایک چھوٹا سا بچہ ان کے پاس ( کھیلتا ہوا ) اس عورت کی بےخبری میں چلا گیا۔ پھر جب وہ ان کی طرف آئی تو دیکھا کہ بچہ ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے۔ اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے انہوں نے بیان کیا کہ یہ دیکھتے ہی وہ اس درجہ گھبرا گئی کہ خبیب رضی اللہ عنہ نے اس کی گھبراہٹ کو دیکھ لیا اور بولے، کیا تمہیں اس کا خوف ہے کہ میں اس بچے کو قتل کر دوں گا؟ یقین رکھو کہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔ ان خاتون نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی قیدی خبیب رضی اللہ عنہ سے بہتر نہیں دیکھا۔ اللہ کی قسم! میں نے ایک دن انگور کے ایک خوشہ سے انہیں انگور کھاتے دیکھا جو ان کے ہاتھ میں تھا حالانکہ وہ لوہے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے اور مکہ میں اس وقت کوئی پھل بھی نہیں تھا۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ وہ تو اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی روزی تھی جو اس نے خبیب رضی اللہ عنہ کے لیے بھیجی تھی۔ پھر بنو حارثہ انہیں قتل کرنے کے لیے حرم سے باہر لے جانے لگے تو خبیب رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دے دو۔ انہوں نے اس کی اجازت دی تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تمہیں یہ خیال نہ ہونے لگتا کہ مجھے گھبراہٹ ہے ( موت سے ) تو اور زیادہ دیر تک پڑھتا۔ پھر انہوں نے دعا کی کہ اے اللہ! ان میں سے ہر ایک کو الگ الگ ہلاک کر اور ایک کو بھی باقی نہ چھوڑ اور یہ اشعار پڑھے ”جب میں اسلام پر قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ اللہ کی راہ میں مجھے کس پہلو پر پچھاڑا جائے گا اور یہ تو صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے ہے۔ اگر وہ چاہے گا تو میرے جسم کے ایک ایک جوڑ پر ثواب عطا فرمائے گا۔“ اس کے بعد ابوسروعہ عقبہ بن حارث ان کی طرف بڑھا اور اس نے انہیں شہید کر دیا۔ خبیب رضی اللہ عنہ نے اپنے عمل حسن سے ہر اس مسلمان کے لیے جسے قید کر کے قتل کیا جائے ( قتل سے پہلے دو رکعت ) نماز کی سنت قائم کی ہے۔ ادھر جس دن ان صحابہ رضی اللہ عنہم پر مصیبت آئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسی دن اس کی خبر دے دی تھی۔ قریش کے کچھ لوگوں کو جب معلوم ہوا کہ عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے ہیں تو ان کے پاس اپنے آدمی بھیجے تاکہ ان کے جسم کا کوئی ایسا حصہ لائیں جس سے انہیں پہچانا جا سکے۔ کیونکہ انہوں نے بھی ( بدر میں ) ان کے ایک سردار ( عقبہ بن ابی معیط ) کو قتل کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی لاش پر بادل کی طرح بھڑوں کی ایک فوج بھیج دی اور انہوں نے آپ کی لاش کو کفار قریش کے ان آدمیوں سے بچا لیا اور وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ بھی نہ کاٹ سکے اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے سامنے لوگوں نے مرارہ بن ربیع عمری رضی اللہ عنہ اور ہلال بن امیہ واقفی رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا۔ ( جو غزوہ تبوک میں نہیں جا سکے تھے ) کہ وہ صالح صحابیوں میں سے ہیں اور بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے۔

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ذُكِرَ لَهُ , أَنَّ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ ، وَكَانَ بَدْرِيًّا مَرِضَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ , فَرَكِبَ إِلَيْهِ بَعْدَ أَنْ تَعَالَى النَّهَارُ وَاقْتَرَبَتِ الْجُمُعَةُ وَتَرَكَ الْجُمُعَةَ .

Narrated Nafi: Ibn 'Umar was once told that Said bin Zaid bin 'Amr bin Nufail, one of the Badr warriors, had fallen ill on a Friday. Ibn 'Umar rode to him late in the forenoon. The time of the Friday prayer approached and Ibn 'Umar did not take part in the Friday prayer.

ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جمعہ کے دن ذکر کیا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہما جو بدری صحابی تھے، بیمار ہیں۔ دن چڑھ چکا تھا، ابن عمر رضی اللہ عنہما سوار ہو کر ان کے پاس تشریف لے گئے۔ اتنے میں جمعہ کا وقت قریب ہو گیا اور وہ جمعہ کی نماز ( مجبوراً ) نہ پڑھ سکے۔

وَقَالَ اللَّيْثُ : حَدَّثَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ :حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، أَنَّ أَبَاهُ كَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ الزُّهْرِيِّ ، يَأْمُرُهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَى سُبَيْعَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ الْأَسْلَمِيَّةِ فَيَسْأَلَهَا عَنْ حَدِيثِهَا وَعَنْ مَا قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ اسْتَفْتَتْهُ , فَكَتَبَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَرْقَمِ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ يُخْبِرُهُ أَنَّ سُبَيْعَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا كَانَتْ تَحْتَ سَعْدِ بْنِ خَوْلَةَ وَهُوَ مِنْ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ وَكَانَ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا , فَتُوُفِّيَ عَنْهَا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهِيَ حَامِلٌ , فَلَمْ تَنْشَبْ أَنْ وَضَعَتْ حَمْلَهَا بَعْدَ وَفَاتِهِ , فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا تَجَمَّلَتْ لِلْخُطَّابِ , فَدَخَلَ عَلَيْهَا أَبُو السَّنَابِلِ بْنُ بَعْكَكٍ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الدَّارِ ، فَقَالَ لَهَا : مَا لِي أَرَاكِ تَجَمَّلْتِ لِلْخُطَّابِ تُرَجِّينَ النِّكَاحَ , فَإِنَّكِ وَاللَّهِ مَا أَنْتِ بِنَاكِحٍ حَتَّى تَمُرَّ عَلَيْكِ أَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ وَعَشْرٌ ، قَالَتْ سُبَيْعَةُ : فَلَمَّا ، قَالَ لِي : ذَلِكَ جَمَعْتُ عَلَيَّ ثِيَابِي حِينَ أَمْسَيْتُ , وَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ فَأَفْتَانِي بِأَنِّي قَدْ حَلَلْتُ حِينَ وَضَعْتُ حَمْلِي وَأَمَرَنِي بِالتَّزَوُّجِ إِنْ بَدَا لِي . تَابَعَهُ أَصْبَغُ ، عَنْ ابْنِ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ ، وَقَالَ اللَّيْثُ : حَدَّثَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ وَسَأَلْنَاهُ ، فَقَالَ : أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ مَوْلَى بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ ، وَكَانَ أَبُوهُ شَهِدَ بَدْرًا أَخْبَرَهُ .

Narrated Subaia bint Al-Harith: That she was married to Sad bin Khaula who was from the tribe of Bani 'Amr bin Luai, and was one of those who fought the Badr battle. He died while she wa pregnant during Hajjat-ul-Wada.' Soon after his death, she gave birth to a child. When she completed the term of deliver (i.e. became clean), she prepared herself for suitors. Abu As-Sanabil bin Bu'kak, a man from the tribe of Bani Abd-ud-Dal called on her and said to her, What! I see you dressed up for the people to ask you in marriage. Do you want to marry By Allah, you are not allowed to marry unless four months and ten days have elapsed (after your husband's death). Subai'a in her narration said, When he (i.e. Abu As-Sanabil) said this to me. I put on my dress in the evening and went to Allah's Apostle and asked him about this problem. He gave the verdict that I was free to marry as I had already given birth to my child and ordered me to marry if I wished.

اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا کہ ان کے والد نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری کو لکھا کہ تم سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے ان کے واقعہ کے متعلق پوچھو کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا تھا تو آپ نے ان کو کیا جواب دیا تھا؟ چنانچہ انہوں نے میرے والد کو اس کے جواب میں لکھا کہ سبیعہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہما کے نکاح میں تھیں۔ ان کا تعلق بنی عامر بن لوئی سے تھا اور وہ بدر کی جنگ میں شرکت کرنے والوں میں سے تھے۔ پھر حجۃ الوداع کے موقع پر ان کی وفات ہو گئی تھی اور اس وقت وہ حمل سے تھیں۔ سعد بن خولہ رضی اللہ عنہما کی وفات کے کچھ ہی دن بعد ان کے یہاں بچہ پیدا ہوا۔ نفاس کے دن جب وہ گزار چکیں تو نکاح کا پیغام بھیجنے والوں کے لیے انہوں نے اچھے کپڑے پہنے۔ اس وقت بنو عبدالدار کے ایک صحابی ابوالسنابل بن بعکک رضی اللہ عنہ ان کے یہاں گئے اور ان سے کہا، میرا خیال ہے کہ تم نے نکاح کا پیغام بھیجنے والوں کے لیے یہ زینت کی ہے۔ کیا نکاح کرنے کا خیال ہے؟ لیکن اللہ کی قسم! جب تک ( سعد رضی اللہ عنہ کی وفات پر ) چار مہینے اور دس دن نہ گزر جائیں تم نکاح کے قابل نہیں ہو سکتیں۔ سبیعہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب ابوالسنابل نے مجھ سے یہ بات کہی تو میں نے شام ہوتے ہی کپڑے پہنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے بارے میں، میں نے آپ سے مسئلہ معلوم کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں بچہ پیدا ہونے کے بعد عدت سے نکل چکی ہوں اور اگر میں چاہوں تو نکاح کر سکتی ہوں۔ اس روایت کی متابعت اصبغ نے ابن وہب سے کی ہے، ان سے یونس نے بیان کیا اور لیث نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ( انہوں نے بیان کیا کہ ) ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ مجھے بنو عامر بن لوئی کے غلام محمد بن عبدالرحمٰن بن ثوبان نے خبر دی کہ محمد بن ایاس بن بکیر نے انہیں خبر دی اور ان کے والد ایاس بدر کی لڑائی میں شریک تھے۔

حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ الزُّرَقِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ وَكَانَ أَبُوهُ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ ، قَالَ : جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : مَا تَعُدُّونَ أَهْلَ بَدْرٍ فِيكُمْ ؟ قَالَ : مِنْ أَفْضَلِ الْمُسْلِمِينَ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا ، قَالَ : وَكَذَلِكَ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا مِنَ الْمَلَائِكَةِ .

Narrated Rifaa: (who was one of the Badr warriors) Gabriel came to the Prophet and said, How do you look upon the warriors of Badr among yourselves? The Prophet said, As the best of the Muslims. or said a similar statement. On that, Gabriel said, And so are the Angels who participated in the Badr (battle).

مجھ سے اسحاق بن ابرہیم نے بیان کیا، ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں یحییٰ بن سعید انصاری نے، انہیں معاذ بن رفاعہ بن رافع زرقی نے اپنے والد (رفاعہ بن رافع) سے، جو بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں میں سے تھے، انہوں نے بیان کیا کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ سے انہوں نے پوچھا کہ بدر کی لڑائی میں شریک ہونے والوں کا آپ کے یہاں درجہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں میں سب سے افضل یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کا کوئی کلمہ ارشاد فرمایا۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ جو فرشتے بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے ان کا بھی درجہ یہی ہے۔

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ رِفَاعَةَ بْنِ رَافِعٍ , وَكَانَ رِفَاعَةُ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ وَكَانَ رَافِعٌ مِنْ أَهْلِ الْعَقَبَةِ , فَكَانَ يَقُولُ لِابْنِهِ : مَا يَسُرُّنِي أَنِّي شَهِدْتُ بَدْرًا بِالْعَقَبَةِ ، قَالَ : سَأَلَ جِبْرِيلُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا .

Narrated Mu`adh bin Rifa`a bin Rafi`: Rifa`a was one of the warriors of Badr while (his father) Rafi` was one of the people of Al-`Aqaba (i.e. those who gave the pledge of allegiance at Al-`Aqaba). Rafi` used to say to his son, I would not have been happier if I had taken part in the Badr battle instead of taking part in the 'Aqaba pledge.

ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے معاذ بن رفاعہ بن رافع نے کہ رفاعہ رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شریک ہوئے تھے اور ( ان کے والد ) رافع رضی اللہ عنہ بیعت عقبہ میں شریک ہوئے تھے تو آپ اپنے بیٹے ( رفاعہ ) سے کہا کرتے تھے کہ بیعت عقبہ کے برابر بدر کی شرکت سے مجھے زیادہ خوشی نہیں ہے۔ بیان کیا کہ جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا تھا۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ ،أَخْبَرَنَا يَحْيَى ، سَمِعَ مُعَاذَ بْنَ رِفَاعَةَ ، أَنَّ مَلَكًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ , وَعَنْ يَحْيَى ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ الْهَادِ أَخْبَرَهُ ، أَنَّهُ كَانَ مَعَهُ يَوْمَ حَدَّثَهُ مُعَاذٌ هَذَا الْحَدِيثَ ، فَقَالَ يَزِيدُ : فَقَالَ مُعَاذٌ : إِنَّ السَّائِلَ هُوَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام .

Narrated Mu`adh: The one who asked (the Prophet) was Gabriel (refer to Hadith 5.327).

ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، ہم کو یزید بن ہارون نے خبر دی، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید انصاری نے خبر دی اور انہوں نے معاذ بن رفاعہ سے سنا کہ ایک فرشتے نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور یحییٰ بن سعید انصاری سے روایت ہے کہ یزید بن ہاد نے انہیں خبر دی کہ جس دن معاذ بن رفاعہ نے ان سے یہ حدیث بیان کی تھی تو وہ بھی ان کے ساتھ تھے۔ یزید نے بیان کیا کہ معاذ نے کہا تھا کہ پوچھنے والے جبرائیل علیہ السلام تھے۔

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : يَوْمَ بَدْرٍ هَذَا جِبْرِيلُ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِهِ عَلَيْهِ أَدَاةُ الْحَرْبِ .

Narrated Ibn `Abbas: The Prophet said on the day (of the battle) of Badr, This is Gabriel holding the head of his horse and equipped with arms for the battle.

مجھ سے ابراہیم نے بیان کیا، ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی لڑائی میں فرمایا تھا کہ یہ ہیں جبرائیل علیہ السلام اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے اور ہتھیار لگائے ہوئے۔