صحیح بخاری

Sahih Bukhari

کتاب باغیوں اور مرتدوں سے توبہ کرانے کا بیان

The book of obliging the apostates and the repentance of those who refuse the truth obstinately, and to fight against such people

تاویل کرنے والوں کے بارے میں بیان

(9) CHAPTER. Who is said about Al-Mutaawwalun (those who from wrong opinions about their Muslim brothers).

قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ ، وَقَالَ اللَّيْثُ ، حَدَّثَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَبْدٍ الْقَارِيَّ ، أَخْبَرَاهُ أَنَّهُمَا سَمِعَا عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ : سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَكِيمٍ يَقْرَأُ سُورَةَ الْفُرْقَانِ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَاسْتَمَعْتُ لِقِرَاءَتِهِ ، فَإِذَا هُوَ يَقْرَؤُهَا عَلَى حُرُوفٍ كَثِيرَةٍ لَمْ يُقْرِئْنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَلِكَ ، فَكِدْتُ أُسَاوِرُهُ فِي الصَّلَاةِ ، فَانْتَظَرْتُهُ حَتَّى سَلَّمَ ، ثُمَّ لَبَّبْتُهُ بِرِدَائِهِ أَوْ بِرِدَائِي ، فَقُلْتُ : مَنْ أَقْرَأَكَ هَذِهِ السُّورَةَ ، قَالَ : أَقْرَأَنِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قُلْتُ لَهُ : كَذَبْتَ فَوَاللَّهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْرَأَنِي هَذِهِ السُّورَةَ الَّتِي سَمِعْتُكَ تَقْرَؤُهَا ، فَانْطَلَقْتُ أَقُودُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ : إِنِّي سَمِعْتُ هَذَا يَقْرَأُ بِسُورَةِ الْفُرْقَانِ عَلَى حُرُوفٍ لَمْ تُقْرِئْنِيهَا وَأَنْتَ أَقْرَأْتَنِي سُورَةَ الْفُرْقَانِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَرْسِلْهُ يَا عُمَرُ ، اقْرَأْ يَا هِشَامُ ، فَقَرَأَ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةَ الَّتِي سَمِعْتُهُ يَقْرَؤُهَا ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : هَكَذَا أُنْزِلَتْ ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اقْرَأْ يَا عُمَرُ ، فَقَرَأْتُ ، فَقَالَ : هَكَذَا أُنْزِلَتْ ، ثُمَّ قَالَ : إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ .

Umar bin Al-Khattab said: I heard Hisham bin Al-Hakim reciting Surat Al-Furqan during the lifetime of Allah's Messenger (saws). I listened to his recitation and noticed that he recited it in several different ways which Allah's Messenger (saws) had not taught me. So I was about to jump over him during his Salat (prayer) but I waited till he finished his Salat (prayer) whereupon I put, either his upper garment or my upper garment around his neck and seized him by it and asked him, Who has taught you this Surah? He replied: Allah's Messenger (saws) has taught it to me. I said (to him), You have told a lie! By Allah, Allah's Messenger (saws) has taught me this Surah which I have heard you reciting. So I dragged him to the Allah's Messenger (saws). I said: O Allah's Messenger I have heard this man reciting Surat Al-Furqan in a way in which you have not taught me, and you did teach me Surah Al-Furqan. On that Allah's Messenger (saws) said, O 'Umar, release him! Recite, O Hisham . So Hisham recited before him in the way as I heard him reciting. Allah's Messenger (saws) said, It has been revealed like this. Then Allah's Messenger (saws) said, Recite, O 'Umar So recited it. The Prophet (saws) said, It has been revealed like this. And then he added, This Qur'an has been revealed to be recited in seven different ways, so recite it whichever way is easier for you.

اور ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن عبدالقاری نے خبر دی، ان دونوں نے عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ہشام بن حکیم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سورۃ الفرقان پڑھتے سنا جب غور سے سنا تو وہ بہت سی ایسی قراتوں کے ساتھ پڑھ رہے تھے جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھایا تھا۔ قریب تھا کہ نماز ہی میں، میں ان پر حملہ کر دیتا لیکن میں نے انتظار کیا اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو ان کی چادر سے یا ( انہوں نے یہ کہا کہ ) اپنی چادر سے میں نے ان کی گردن میں پھندا ڈال دیا اور ان سے پوچھا کہ اس طرح تمہیں کس نے پڑھایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ جھوٹ بولتے ہو، واللہ یہ سورت مجھے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی ہے جو میں نے تمہیں ابھی پڑھتے سنا ہے۔ چنانچہ میں انہیں کھینچتا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے اسے سورۃ الفرقان اور طرح پر پڑھتے سنا ہے جس طرح آپ نے مجھے نہیں پڑھائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی سورۃ الفرقان پڑھائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر! انہیں چھوڑ دو۔ ہشام سورت پڑھو۔ انہوں نے اسی طرح پڑھ کر سنایا جس طرح میں نے انہیں پڑھتے سنا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمر! اب تم پڑھو۔ میں نے پڑھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی پھر فرمایا یہ قرآن سات قراتوں میں نازل ہوا ہے پس تمہیں جس طرح آسانی ہو پڑھو۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ : الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82 ، شَقَّ ذَلِكَ عَلَى أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَقَالُوا : أَيُّنَا لَمْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَيْسَ كَمَا تَظُنُّونَ ، إِنَّمَا هُوَ كَمَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ : يَا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13 .

Narrated `Abdullah: When the Verse:--'Those who believe and did not confuse their belief with wrong (worshipping others besides Allah).' (6.82) was revealed, it was hard on the companions of the Prophet and they said, Who among us has not wronged (oppressed) himself? Allah's Apostle said, The meaning of the Verse is not as you think, but it is as Luqman said to his son, 'O my son! Join not in worship others with Allah, Verily! Joining others in worship with Allah is a great wrong indeed.' (31.13)

ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر دی (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا، ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی «الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم‏» ”وہ لوگ جو ایمان لے آئے اور اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کو نہیں ملایا“ تو صحابہ کو یہ معاملہ بہت مشکل نظر آیا اور انہوں نے کہا ہم میں کون ہو گا جو ظلم نہ کرتا ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو تم سمجھتے ہو بلکہ اس کا مطلب لقمان علیہ السلام کے اس ارشاد میں ہے جو انہوں نے اپنے لڑکے سے کہا تھا «يا بنى لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم‏» کہ ”اے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، بلاشبہ شرک کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔“

حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ ، قَالَ : سَمِعْتُ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ : غَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ رَجُلٌ : أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ ، فَقَالَ رَجُلٌ : مِنَّا ذَلِكَ مُنَافِقٌ لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَلَا تَقُولُوهُ يَقُولُ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ ، قَالَ : بَلَى ، قَالَ : فَإِنَّهُ لَا يُوَافَى عَبْدٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِهِ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ النَّارَ .

Narrated `Itban bin Malik: Once Allah's Apostle came to me in the morning, and a man among us said, Where is Malik bin Ad- Dukhshun? Another man from us replied, He is a hypocrite who does not love Allah and His Apostle. The Prophet said, Don't you think that he says: None has the right to be worshipped but Allah, only for Allah's sake? They replied, Yes The Prophet said, Nobody will meet Allah with that saying on the Day of Resurrection, but Allah will save him from the Fire.

ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں محمود بن الربیع نے خبر دی، کہا کہ میں نے عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے پھر ایک صاحب نے پوچھا کہ مالک بن الدخشن کہاں ہیں؟ ہمارے قبیلہ کے ایک شخص نے جواب دیا کہ وہ منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول سے اسے محبت نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ کیا تم ایسا نہیں سمجھتے کہ وہ کلمہ لا الہٰ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے اور اس کا مقصد اس سے اللہ کی رضا ہے۔ اس صحابی نے کہا کہ ہاں یہ تو ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جو بندہ بھی قیامت کے دن اس کلمہ کو لے کر آئے گا، اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا۔

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ فُلَانٍ ، قَالَ : تَنَازَعَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَحِبَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ ، فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، لِحِبَّانَ : لَقَدْ عَلِمْتُ مَا الَّذِي جَرَّأَ صَاحِبَكَ عَلَى الدِّمَاءِ ، يَعْنِي عَلِيًّا ، قَالَ : مَا هُوَ لَا أَبَا لَكَ ، قَالَ : شَيْءٌ سَمِعْتُهُ يَقُولُهُ ، قَالَ : مَا هُوَ ؟ ، قَالَ : بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَالزُّبَيْرَ ، وَأَبَا مَرْثَدٍ ، وَكُلُّنَا فَارِسٌ ، قَالَ : انْطَلِقُوا حَتَّى تَأْتُوا رَوْضَةَ حَاجٍ ، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ : هَكَذَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ ، حَاجٍ : فَإِنَّ فِيهَا امْرَأَةً مَعَهَا صَحِيفَةٌ مِنْ حَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَأْتُونِي بِهَا ، فَانْطَلَقْنَا عَلَى أَفْرَاسِنَا حَتَّى أَدْرَكْنَاهَا حَيْثُ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسِيرُ عَلَى بَعِيرٍ لَهَا ، وَقَدْ كَانَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ بِمَسِيرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ ، فَقُلْنَا : أَيْنَ الْكِتَابُ الَّذِي مَعَكِ ؟ ، قَالَتْ : مَا مَعِي كِتَابٌ ، فَأَنَخْنَا بِهَا بَعِيرَهَا ، فَابْتَغَيْنَا فِي رَحْلِهَا ، فَمَا وَجَدْنَا شَيْئًا ، فَقَالَ صَاحِبَايَ : مَا نَرَى مَعَهَا كِتَابًا ، قَالَ : فَقُلْتُ : لَقَدْ عَلِمْنَا مَا كَذَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ حَلَفَ عَلِيٌّ : وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لَتُخْرِجِنَّ الْكِتَابَ ، أَوْ لَأُجَرِّدَنَّكِ ، فَأَهْوَتْ إِلَى حُجْزَتِهَا وَهِيَ مُحْتَجِزَةٌ بِكِسَاءٍ ، فَأَخْرَجَتِ الصَّحِيفَةَ ، فَأَتَوْا بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ عُمَرُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ ، دَعْنِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا حَاطِبُ مَا حَمَلكَ عَلَى مَا صَنَعْتَ ؟ ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، مَا لِي أَنْ لَا أَكُونَ مُؤْمِنًا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ، وَلَكِنِّي أَرَدْتُ أَنْ يَكُونَ لِي عِنْدَ الْقَوْمِ يَدٌ يُدْفَعُ بِهَا عَنْ أَهْلِي وَمَالِي ، وَلَيْسَ مِنْ أَصْحَابِكَ أَحَدٌ إِلَّا لَهُ هُنَالِكَ مِنْ قَوْمِهِ مَنْ يَدْفَعُ اللَّهُ بِهِ عَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ ، قَالَ : صَدَقَ ، لَا تَقُولُوا لَهُ إِلَّا خَيْرًا ، قَالَ : فَعَادَ عُمَرُ فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، قَدْ خَانَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ ، دَعْنِي فَلِأَضْرِبْ عُنُقَهُ ، قَالَ : أَوَلَيْسَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ ، وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ اللَّهَ اطَّلَعَ عَلَيْهِمْ ، فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ ، فَقَدْ أَوْجَبْتُ لَكُمُ الْجَنَّةَ ، فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَاهُ ، فَقَالَ : اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ : خَاخٍ أَصَحُّ ، وَلَكِنْ كَذَا ، قَالَ أَبُو عَوَانَةَ : حَاجٍ وَحَاجٍ تَصْحِيفٌ ، وَهُوَ مَوْضِعٌ ، وَهُشَيْمٌ ، يَقُولُ خَاخٍ .

Narrated: Abu `Abdur-Rahman and Hibban bin 'Atiyya had a dispute. Abu `Abdur-Rahman said to Hibban, You know what made your companions (i.e. `Ali) dare to shed blood. Hibban said, Come on! What is that? `Abdur-Rahman said, Something I heard him saying. The other said, What was it? `AbdurRahman said, `Ali said, Allah's Apostle sent for me, Az-Zubair and Abu Marthad, and all of us were cavalry men, and said, 'Proceed to Raudat-Hajj (Abu Salama said that Abu 'Awana called it like this, i.e., Hajj where there is a woman carrying a letter from Hatib bin Abi Balta'a to the pagans (of Mecca). So bring that letter to me.' So we proceeded riding on our horses till we overtook her at the same place of which Allah's Apostle had told us. She was traveling on her camel. In that letter Hatib had written to the Meccans about the proposed attached of Allah's Apostle against them. We asked her, Where is the letter which is with you?' She replied, 'I haven't got any letter.' So we made her camel kneel down and searched her luggage, but we did not find anything. My two companions said, 'We do not think that she has got a letter.' I said, 'We know that Allah's Apostle has not told a lie.' Then `Ali took an oath saying, By Him by Whom one should swear! You shall either bring out the letter or we shall strip off your clothes. She then stretched out her hand for her girdle (round her waist) and brought out the paper (letter). They took the letter to Allah's Apostle. `Umar said, O Allah's Apostle! (Hatib) has betrayed Allah, His Apostle and the believers; let me chop off his neck! Allah's Apostle said, O Hatib! What obliged you to do what you have done? Hatib replied, O Allah's Apostle! Why (for what reason) should I not believe in Allah and His Apostle? But I intended to do the (Mecca) people a favor by virtue of which my family and property may be protected as there is none of your companions but has some of his people (relatives) whom Allah urges to protect his family and property. The Prophet said, He has said the truth; therefore, do not say anything to him except good. `Umar again said, O Allah's Apostle! He has betrayed Allah, His Apostle and the believers; let me chop his neck off! The Prophet said, Isn't he from those who fought the battle of Badr? And what do you know, Allah might have looked at them (Badr warriors) and said (to them), 'Do what you like, for I have granted you Paradise?' On that, `Umar's eyes became flooded with tears and he said, Allah and His Apostle know best.

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ وضاح شکری نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن سلمی نے، ان سے فلاں شخص (سعید بن عبیدہ) نے کہ ابوعبدالرحمٰن اور حبان بن عطیہ کا آپس میں اختلاف ہوا۔ ابوعبدالرحمٰن نے حبان سے کہا کہ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے ساتھی خون بہانے میں کس قدر جری ہو گئے ہیں۔ ان کا اشارہ علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھا اس پر حبان نے کہا انہوں نے کیا کیا ہے، تیرا باپ نہیں۔ ابوعبدالرحمٰن نے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ مجھے، زبیر اور ابومرثد رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا اور ہم سب گھوڑوں پر سوار تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ اور جب روضہ خاخ پر پہنچو ( جو مدینہ سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک جگہ ہے ) ابوسلمہ نے بیان کیا کہ ابوعوانہ نے خاخ کے بدلے حاج کہا ہے۔ تو وہاں تمہیں ایک عورت ( سارہ نامی ) ملے گی اور اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہ کا ایک خط ہے جو مشرکین مکہ کو لکھا گیا ہے تم وہ خط میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ ہم اپنے گھوڑوں پر دوڑے اور ہم نے اسے وہیں پکڑا جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا۔ وہ عورت اپنے اونٹ پر سوار جا رہی تھی حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ نے اہل مکہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ کو آنے کی خبر دی تھی۔ ہم نے اس عورت سے کہا کہ تمہارے پاس وہ خط کہاں ہے اس نے کہا کہ میرے پاس تو کوئی خط نہیں ہے ہم نے اس کا اونٹ بٹھا دیا اور اس کے کجاوہ کی تلاشی لی لیکن اس میں کوئی خط نہیں ملا۔ میرے ساتھی نے کہا کہ اس کے پاس کوئی خط نہیں معلوم ہوتا۔ راوی نے بیان کیا کہ ہمیں یقین ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غلط بات نہیں فرمائی پھر علی رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اس ذات کی قسم جس کی قسم کھائی جاتی ہے خط نکال دے ورنہ میں تجھے ننگی کروں گا اب وہ عورت اپنے نیفے کی طرف جھکی اس نے ایک چادر کمر پر باندھ رکھی تھی اور خط نکالا۔ اس کے بعد یہ لوگ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے، مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، حاطب! تم نے ایسا کیوں کیا؟ حاطب رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! بھلا کیا مجھ سے یہ ممکن ہے کہ میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ رکھوں میرا مطلب اس خط کے لکھنے سے صرف یہ تھا کہ میرا ایک احسان مکہ والوں پر ہو جائے جس کی وجہ سے میں اپنی جائیداد اور بال بچوں کو ( ان کے ہاتھ سے ) بچا لوں۔ بات یہ ہے کہ آپ کے اصحاب میں کوئی ایسا نہیں جس کے مکہ میں ان کی قوم میں کے ایسے لوگ نہ ہوں جس کی وجہ سے اللہ ان کے بچوں اور جائیداد پر کوئی آفت نہیں آنے دیتا۔ مگر میرا وہاں کوئی نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حاطب نے سچ کہا ہے۔ بھلائی کے سوا ان کے بارے میں اور کچھ نہ کہو۔ بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ جنگ بدر میں شریک ہونے والوں میں سے نہیں ہیں؟ تمہیں کیا معلوم اللہ تعالیٰ ان کے اعمال سے واقف تھا اور پھر فرمایا کہ جو چاہو کرو میں نے جنت تمہارے لیے لکھ دی ہے اس پر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں ( خوشی سے ) آنسو بھر آئے اور عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی کو حقیقت کا زیادہ علم ہے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ ) نے کہا کہ «خاخ» زیادہ صحیح ہے لیکن ابوعوانہ نے «حاج» ہی بیان کیا ہے اور لفظ «حاج» بدلا ہوا ہے یہ ایک جگہ کا نام ہے اور ہشیم نے «خاخ» بیان کیا ہے۔