مشکوۃ

Mishkat

آداب کا بیان

سلام کا بیان

بَاب السَّلَام

وَعَنْ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: يُجْزِئُ عَنِ الْجَمَاعَةِ إِذَا مَرُّوا أَنْ يُسَلِّمَ أَحَدُهُمْ وَيُجْزِئُ عَنِ الْجُلُوسِ أَنْ يَرُدَّ أَحَدُهُمْ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ» مَرْفُوعا. وروى أَبُو دَاوُد وَقَالَ: وَرَفعه الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ وَهُوَ شَيْخُ أَبِي دَاوُدَ

علی بن ابی طالب ؓ بیان کرتے ہیں ، جب لوگوں کی جماعت کا گزر ہو تو ان کی طرف سے ایک آدمی کا سلام کرنا کافی ہے اور جو بیٹھے ہوئے ہیں ان کی طرف سے ایک آدمی کا جواب دینا کافی ہے ۔‘‘ بیہقی نے شعب الایمان میں اسے مرفوع روایت کیا ہے ۔ اور ابوداؤد نے اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا : حسن بن علی نے اسے مرفوع روایت کیا ہے ، اور وہ ابوداؤد کے استاد ہیں ۔ حسن ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان و ابوداؤد ۔

وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَشَبَّهَ بِغَيْرِنَا لَا تَشَبَّهُوا بِالْيَهُودِ وَلَا بِالنَّصَارَى فَإِنَّ تَسْلِيمَ الْيَهُودِ الْإِشَارَةُ بِالْأَصَابِعِ وَتَسْلِيمَ النَّصَارَى الْإِشَارَةُ بِالْأَكُفِّ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: إِسْنَاده ضَعِيف

عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ہمارے علاوہ کسی اور سے مشابہت اختیار کی وہ ہم میں سے نہیں ، تم یہود و نصاریٰ سے مشابہت اختیار نہ کرو ، کیونکہ یہودیوں کا سلام انگلیوں کے ساتھ اشارہ کرنا ہے جبکہ عیسائیوں کا سلام ہتھیلیوں کے ساتھ اشارہ کرنا ہے ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے کہا : اس کی سند ضعیف ہے ۔ سندہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اتا: «إِذَا لَقِيَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ فَإِنْ حَالَتْ بَيْنَهُمَا شَجَرَةٌ أَوْ جِدَارٌ أَوْ حَجَرٌ ثُمَّ لَقِيَهُ فَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ

ابوہریرہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی اپنے (مسلمان) بھائی سے ملے تو اسے سلام کرے ، اگر ان دونوں کے درمیان کوئی درخت یا دیوار یا کوئی پتھر حائل ہو جائے پھر اس سے ملاقات ہو جائے تو چاہیے کہ اسے سلام کرے ۔‘‘ اسنادہ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔

وَعَن قَتَادَة قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَخَلْتُمْ بَيْتًا فَسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهِ وَإِذَا خَرَجْتُمْ فَأَوْدِعُوا أَهْلَهُ بِسَلَامٍ» رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ» مُرْسَلًا

قتادہ ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم کسی گھر میں جاؤ تو وہاں کے رہنے والوں کو سلام کرو اور جب تم (وہاں سے) نکلو تو اس گھر والوں کو الوداعی سلام کہو ۔‘‘ بیہقی نے اسے شعب الایمان میں مرسل روایت کیا ہے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔

وَعَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَا بُنَيِّ إِذَا دَخَلْتَ عَلَى أَهْلِكَ فَسَلِّمْ يَكُونُ بَرَكَةً عَلَيْكَ وَعَلَى أَهْلِ بَيْتك» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ

انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ بیٹا ! جب تم اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو سلام کرو ، (اس طرح) تم پر اور تیرے اہل خانہ پر برکت ہو گی ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ الترمذی ۔

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «السَّلَامُ قَبْلَ الْكَلَامِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيث مُنكر

جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ پہلے سلام پھر کلام ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث منکر ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی ۔

وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: كُنَّا فِي الْجَاهِلِيَّةِ نَقُولُ: أَنْعَمَ اللَّهُ بِكَ عَيْنًا وَأَنْعَمَ صَبَاحًا. فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ نُهِينَا عَنْ ذَلِكَ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد

عمران بن حصن ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم دور جاہلیت میں (بوقت ملاقات) کہا کرتے تھے : اللہ تیری آنکھ ٹھنڈی رکھے اور تم تروتازہ و خوش و خرم حالت میں صبح کرو ۔ جب اسلام آیا تو ہمیں اس سے روک دیا گیا ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔

وَعَن غَالب قَالَ: إِنَّا لَجُلُوسٌ بِبَابِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ جَدِّي قَالَ: بَعَثَنِي أَبِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ائتيه فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ. قَالَ: فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ: أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلَامَ. فَقَالَ: عَلَيْكَ وَعَلَى أَبِيكَ السَّلَامُ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد

غالب بیان کرتے ہیں ، ہم حسن بصری ؒ کے دروازے پر بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آیا اور اس نے کہا : میرے والد نے میرے دادا سے روایت کیا ، انہوں نے کہا ، میرے والد نے مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیجا فرمایا : آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر انہیں سلام عرض کرنا ، انہوں نے کہا : میں آپ کی خدمت میں پہنچا اور میں نے عرض کیا کہ میرے والد آپ کو سلام عرض کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم پر اور تمہارے والد پر سلام ہو ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔

وَعَن أبي الْعَلَاء بن الْحَضْرَمِيّ أَنَّ الْعَلَاءَ الْحَضْرَمِيَّ كَانَ عَامِلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ إِذَا كَتَبَ إِليه بدأَ بنفسِه. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد

ابوالعلاء بن حضرمی سے روایت ہے کہ علاء حضرمی ؓ ، رسول اللہ ﷺ کے (مقرر کردہ بحرین کے) حکمران تھے ، اور جب وہ آپ کی طرف خط لکھتے تو اپنے نام (از طرف علاء) سے شروع کیا کرتے تھے ۔ اسنادہ ضعیف ، رواہ ابوداؤد ۔

وَعَنْ جَابِرٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذا كتب أحدكُم كتابا فليتر بِهِ فَإِنَّهُ أَنْجَحُ لِلْحَاجَةِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيث مُنكر

جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی خط لکھے تو وہ اسے خاک آلود کر دے کیونکہ اس طرح کرنے سے کام جلد و آسان ہو جاتا ہے ۔‘‘ ترمذی ، اور فرمایا : یہ حدیث منکر ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی ۔

عَن زيدٍ بن ثابتٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ كَاتِبٌ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: ضَعِ الْقَلَمَ عَلَى أُذُنِكَ فَإِنَّهُ أَذْكَرُ لِلْمَآلِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَفِي إِسْنَادِهِ ضعفٌ

زید بن ثابت ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ﷺ کے سامنے کاتب تھا ، میں نے آپ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ قلم اپنی کان پر رکھو کیونکہ ایسا کرنا (کان پر قلم رکھنا) مقصد و انجام جلد یاد کرا دیتا ہے ۔‘‘ ترمذی ، اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں ضعف ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ الترمذی ۔

وَعَنْهُ قَالَ: أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَعَلَّمَ السُّرْيَانِيَّةَ. وَفِي رِوَايَةٍ: إِنَّهُ أَمَرَنِي أَنْ أَتَعَلَّمَ كِتَابَ يَهُودَ وَقَالَ: «إِنِّي مَا آمَنُ يَهُودَ عَلَى كِتَابٍ» . قَالَ: فَمَا مَرَّ بِيَ نِصْفُ شَهْرٍ حَتَّى تَعَلَّمْتُ فَكَانَ إِذَا كَتَبَ إِلَى يَهُودَ كَتَبْتُ وَإِذَا كَتَبُوا إِلَيْهِ قَرَأْتُ لَهُ كِتَابَهُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

زید بن ثابت ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں سریانی زبان سیکھوں ۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں یہودیوں کی کتابت سیکھوں اور فرمایا :’’ مجھے یہود کی کتابت کا اندیشہ ہے ۔‘‘ زید بن ثابت ؓ نے کہا : میں نے نصف ماہ سے پہلے ہی ان کی زبان سیکھ لی ، جب آپ ﷺ یہود کے نام خط لکھتے تو میں تحریر کرتا اور جب وہ آپ ﷺ کے نام خط لکھتے تو ان کے مکتوب میں آپ کو پڑھ کر سناتا تھا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا انْتَهَى أَحَدُكُمْ إِلَى مَجْلِسٍ فَلْيُسَلِّمْ فَإِنْ بَدَا لَهُ أَنْ يَجْلِسَ فَلْيَجْلِسْ ثُمَّ إِذَا قَامَ فَلْيُسَلِّمْ فَلَيْسَتِ الْأُولَى بِأَحَقَّ مِنَ الْآخِرَةِ» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد

ابوہریرہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی کسی مجلس میں آئے تو وہ سلام کرے ، پھر اگر وہ بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے ، اور جب وہ وہاں سے اٹھے تو وہ سلام کرے ، پہلا (سلام) دوسرے (سلام) سے زیادہ حق نہیں رکھتا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد ۔

وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا خَيْرَ فِي جُلُوسٍ فِي الطُّرَقَاتِ إِلَّا لِمَنْ هَدَى السَّبِيلَ وَرَدَّ التَّحِيَّةَ وَغَضَّ الْبَصَرَ وَأَعَانَ عَلَى الْحُمُولَةِ» رَوَاهُ فِي «شَرْحِ السُّنَّةِ» وَذَكَرَ حَدِيثَ أَبِي جُرَيٍّ فِي «بَاب فضل الصَّدَقَة»

ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ راستوں میں بیٹھنے میں کوئی خیر و بھلائی نہیں ، مگر اس شخص کے لیے (خیر) ہے جو راستہ بتائے ، سلام کا جواب دے ، نظر جھکائے اور جو سواری پر بوجھ رکھوانے میں مدد کرے ۔‘‘ اور ابو جریّ سے مروی حدیث ’’باب فضل الصدقۃ‘‘ میں ذکر کی گئی ہے ۔ اسنادہ ضعیف جذا ، رواہ فی شرح السنہ ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ وَنَفَخَ فِيهِ الرُّوحَ عَطَسَ فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ فَحَمِدَ اللَّهَ بِإِذْنِهِ فَقَالَ لَهُ رَبُّهُ: يَرْحَمُكَ اللَّهُ يَا آدَمَ اذْهَبْ إِلَى أُولَئِكَ الْمَلَائِكَةِ إِلَى مَلَأٍ مِنْهُمْ جُلُوسٍ فَقُلِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ. فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ. قَالُوا: عَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ. ثُمَّ رَجَعَ إِلَى رَبِّهِ فَقَالَ: إِنَّ هَذِهِ تَحِيَّتُكَ وَتَحِيَّةُ بَنِيكَ بَيْنَهُمْ. فَقَالَ لَهُ اللَّهُ وَيَدَاهُ مَقْبُوضَتَانِ: اخْتَرْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ؟ فَقَالَ: اخْتَرْتُ يَمِينَ رَبِّي وَكِلْتَا يَدَيْ رَبِّي يَمِينٌ مُبَارَكَةٌ ثُمَّ بَسَطَهَا فَإِذَا فِيهَا آدَمُ وَذُرِّيَّتُهُ فَقَالَ: أَيْ رَبِّ مَا هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ ذُرِّيَّتُكَ فَإِذَا كُلُّ إِنْسَانٍ مَكْتُوبٌ عُمْرُهُ بَين عَيْنَيْهِ فَإِذا فيهم رجلٌ أضوؤهُم - أَوْ مِنْ أَضْوَئِهِمْ - قَالَ: يَا رَبِّ مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا ابْنُكَ دَاوُدُ وَقَدْ كَتَبْتُ لَهُ عُمْرَهُ أَرْبَعِينَ سَنَةً. قَالَ: يَا رَبِّ زِدْ فِي عُمْرِهِ. قَالَ: ذَلِكَ الَّذِي كَتَبْتُ لَهُ. قَالَ: أَيْ رَبِّ فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُ لَهُ مِنْ عُمْرِي سِتِّينَ سَنَةً. قَالَ: أَنْتَ وَذَاكَ. قَالَ: ثُمَّ سَكَنَ الْجَنَّةَ مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ أُهْبِطَ مِنْهَا وَكَانَ آدَمُ يَعُدُّ لِنَفْسِهِ فَأَتَاهُ مَلَكُ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُ آدَمُ: قَدْ عَجَّلْتَ قَدْ كَتَبَ لِي أَلْفَ سَنَةٍ. قَالَ: بَلَى وَلَكِنَّكَ جَعَلْتَ لِابْنِكَ دَاوُدَ سِتِّينَ سَنَةً فَجَحَدَ فَجَحَدَتْ ذُرِّيَّتُهُ وَنَسِيَ فَنَسِيَتْ ذُرِّيَّتُهُ قَالَ: «فَمن يؤمئذ أَمر بِالْكتاب وَالشُّهُود» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب اللہ نے آدم ؑ کو پیدا فرمایا اور ان میں روح پھونکی تو انہوں نے چھینک ماری اور الحمد للہ کہا ، انہوں نے اللہ کی توفیق سے اس کی حمد بیان کی ، تو ان کے رب نے انہیں کہا : اللہ تجھ پر رحم کرے ، آدم ! فرشتوں کی اس جماعت کی طرف جاؤ جو بیٹھی ہوئی ہے ، (وہاں جا کر) کہو : السلام علیکم ! انہوں نے کہا : السلام علیکم ! انہوں نے کہا : علیک السلام و رحمۃ اللہ ! پھر وہ وہاں سے اپنے رب کے پاس واپس آئے تو اس نے فرمایا :’’ بے شک یہ تمہارا اور تیری اولاد کا باہمی سلام ہے ۔ اللہ نے انہیں حکم دیا جبکہ اس کے دونوں ہاتھ بند تھے ، تم دونوں میں سے جسے چاہو اختیار کر لو ، انہوں نے کہا : میں نے اپنے رب کا دایاں ہاتھ منتخب کر لیا جبکہ میرے رب کے دونوں ہاتھ دائیں بابرکت ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے دائیں ہاتھ کو پھیلایا تو اس میں آدم ؑ اور ان کی اولاد تھی ، انہوں نے عرض کیا ، رب جی ! یہ کون ہیں ؟ فرمایا : یہ تمہاری اولاد ہے ، ہر انسان کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھی ہوئی تھی ، اور ان میں ایک ایسا آدمی تھا جو ان سب سے زیادہ روشن (چہرے والا) تھا ، انہوں نے عرض کیا ، رب جی ! یہ کون ہے ؟ فرمایا : یہ آپ کے بیٹے داؤد ؑ ہیں ، اور میں نے ان کی عمر چالیس سال لکھی ہے ، انہوں نے عرض کیا : رب جی ! اس کی عمر میں اضافہ فرما ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بس یہی ہے جو میں نے اس کے لیے لکھ دی ہے ، انہوں نے عرض کیا ، رب جی ! میں نے اپنی عمر سے ساٹھ سال اسے عطا کر دیے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ تیرا معاملہ ہے ، فرمایا : پھر وہ جس قدر اللہ نے چاہا جنت میں رہے ، پھر وہاں سے اتار دیے گئے ، اور آدم ؑ اپنی عمر شمار کیا کرتے تھے ، جب موت کا فرشتہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا : تم جلدی آ گئے ہو کیونکہ میری عمر تو ہزار برس لکھی گئی تھی ، اس نے عرض کیا ، جی ہاں ، (درست ہے) لیکن آپؑ نے اپنے بیٹے داؤد ؑ کو ساٹھ سال دے دیے تھے ، انہوں نے انکار کیا اسی وجہ سے ان کی اولاد نے بھی انکار کیا ، اور وہ بھول گئے اسی وجہ سے ان کی اولاد بھی بھول جاتی ہے ۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اسی دن سے لکھنے اور گواہی دینے کا حکم فرمایا گیا ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔

وَعَن أسماءَ بنت يزيدَ قَالَتْ: مَرَّ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نِسْوَةٍ فَسَلَّمَ عَلَيْنَا. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه والدارمي

اسماء بنت یزید ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ ہماری خواتین کی جماعت کے پاس سے گزرے تو آپ نے ہمیں سلام کیا ۔ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ و الدارمی ۔

وَعَن الطفيلِ بن أُبي بن كعبٍ: أَنَّهُ كَانَ يَأْتِي ابْنَ عُمَرَ فَيَغْدُو مَعَهُ إِلَى السُّوقِ. قَالَ فَإِذَا غَدَوْنَا إِلَى السُّوقِ لَمْ يَمُرَّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ عَلَى سَقَّاطٍ وَلَا عَلَى صَاحِبِ بَيْعَةٍ وَلَا مِسْكِينٍ وَلَا أَحَدٍ إِلَّا سَلَّمَ عَلَيْهِ. قَالَ الطُّفَيْلُ: فَجِئْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَوْمًا فَاسْتَتْبَعَنِي إِلَى السُّوقِ فَقُلْتُ لَهُ: وَمَا تَصْنَعُ فِي السُّوقِ وَأَنْتَ لَا تَقِفُ عَلَى الْبَيْعِ وَلَا تَسْأَلُ عَن السّلع وتسوم بِهَا وَلَا تَجْلِسُ فِي مَجَالِسِ السُّوقِ فَاجْلِسْ بِنَا هَهُنَا نتحدث. قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: يَا أَبَا بَطْنٍ - قَالَ وَكَانَ الطُّفَيْلُ ذَا بَطْنٍ - إِنَّمَا نَغْدُو مِنْ أَجْلِ السَّلَامِ نُسَلِّمُ عَلَى مَنْ لَقِينَاهُ. رَوَاهُ مَالك وَالْبَيْهَقِيّ فِي «شعب الْإِيمَان»

طفیل بن ابی بن کعب سے روایت ہے کہ وہ ابن عمر ؓ کے پاس آیا کرتے تھے اور وہ ان کے ساتھ صبح کے وقت بازار جاتے ، راوی بیان کرتے ہیں ، جب ہم بازار جاتے تو عبداللہ بن عمر ؓ وہاں معمولی کاروبار کرنے والے ، بڑے سرمایہ دار ، مسکین اور جس کسی شخص کے پاس سے بھی گزرتے تو اسے سلام کرتے ، طفیل بیان کرتے ہیں ، میں ایک روز عبداللہ بن عمر ؓ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھے بازار جانے کے لیے کہا ، میں نے انہیں کہا : آپ بازار میں کیا کریں گے ؟ جبکہ آپ کسی بیع پر رکتے نہیں ، نہ سودے کے متعلق دریافت کرتے ہیں ، نہ اس کی قیمت پوچھتے ہیں اور نہ آپ بازار کی مجالس میں بیٹھتے ہیں ، لہذا آپ یہاں ہی تشریف رکھیں اور ہم بات چیت کرتے ہیں ، راوی بیان کرتے ہیں ، عبداللہ بن عمر ؓ نے مجھے فرمایا : پیٹ والے ! راوی بیان کرتے ہیں ، طفیل کا پیٹ بڑا تھا ، ہم سلام کی غرض سے جاتے ہیں ، ہم ہر ملنے والے کو سلام کرتے ہیں ۔ اسنادہ صحیح ، رواہ مالک و البیھقی فی شعب الایمان ۔

وَعَن جَابر قَالَ: أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: لِفُلَانٍ فِي حَائِطِي عَذْقٌ وَأَنَّهُ آذَانِي مَكَانُ عَذْقِهِ فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنْ بِعْنِي عَذْقَكَ» قَالَ: لَا. قَالَ: «فَهَبْ لِي» . قَالَ: لَا. قَالَ: «فَبِعْنِيهِ بِعَذْقٍ فِي الْجَنَّةِ» ؟ فَقَالَ: لَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا رَأَيْتُ الَّذِي هُوَ أَبْخَلُ مِنْكَ إِلَّا الَّذِي يَبْخَلُ بِالسَّلَامِ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»

جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا ، فلاں شخص کا میرے باغ میں کھجور کا ایک درخت ہے ، وہ اس کھجور کے درخت کی وجہ سے مجھے ایذا پہنچاتا ہے ، رسول اللہ ﷺ نے پیغام بھیجا کہ اپنا کھجور کا درخت مجھے فروخت کر دو ، اس نے کہا : نہیں : آپ ﷺ نے فرمایا :’’ چلو مجھے ہبہ کر دو ۔‘‘ اس نے کہا : نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جنت میں کھجور کے درخت کے بدلے میں مجھے فروخت کر دو ۔‘‘ اس نے کہا : نہیں ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے سلام کہنے میں بخل کرنے والے کے علاوہ تجھ سے زیادہ بخیل کوئی اور نہیں دیکھا ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ احمد و البیھقی فی شعب الایمان ۔

وَعَن عَبْدِ اللَّهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْبَادِئُ بِالسَّلَامِ بَرِيءٌ مِنَ الْكِبْرِ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ فِي «شعب الْإِيمَان»

عبداللہ ؓ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے بری ہوتا ہے ۔‘‘ اسنادہ ضعیف ، رواہ البیھقی فی شعب الایمان ۔