عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے (نماز میں) سورۂ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں ۔‘‘ بخاری ، مسلم ۔ متفق علیہ ۔ اور مسلم کی روایت میں ہے :’’ (اس کی نماز نہیں ہوتی) جو سورۂ فاتحہ اور کچھ زائد نہ پڑھے ۔‘‘
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس شخص نے نماز پڑھی لیکن اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ (نماز) ناقص ہے ۔‘‘ آپ ﷺ نے یہ تین مرتبہ فرمایا :’’ مکمل نہیں ۔‘‘ ابوہریرہ ؓ سے کہا گیا : ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں ، انہوں نے فرمایا : اسے اپنے دل میں پڑھو ، کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے نماز (یعنی سورۂ فاتحہ) کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کر دیا ، اور میرے بندے نے جو سوال کیا وہ اسے مل گیا ، چنانچہ جب بندہ کہتا ہے :’’ ہر قسم کی حمد اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری حمد بیان کی ، اور جب بندہ کہتا ہے :’’ جو بہت مہربان ، نہایت رحم والا ہے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ثنا بیان کی ، جب کہتا ہے :’’ یوم جزا کا مالک ہے ۔‘‘ اللہ فرماتا ہے : میرے بندے نے میری شان و شوکت بیان کی ، جب بندہ کہتا ہے :’’ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ۔‘‘ اللہ فرماتا ہے : یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے ، اور میرے بندے کے لیے وہ کچھ ہے جو اس نے سوال کیا ، اور جب بندہ کہتا ہے :’’ ہمیں سیدھی راہ دکھا ، ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ، ان کی نہیں جن پر تیرا غضب ہوا اور نہ ان لوگوں کی راہ جو گمراہ ہوئے ۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جس کا اس نے سوال کیا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اور ابوبکر و عمر ؓ (الحمدللہ رب العلمین) سے نماز شروع کیا کرتے تھے ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب امام آمین کہے تو تم آمین کہو ، کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق (ساتھ) ہو گئی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔‘‘ بخاری ، مسلم ۔ اور ایک روایت میں ہے :’’ جب امام (غیر المغضوب علیھم ولا الضالین) کہے تو تم آمین کہو ، کیونکہ جس کا قول فرشتوں کے قول کے موافق ہو گیا ، اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔‘‘ یہ الفاظ بخاری کے ہیں اور مسلم کی روایت بھی اسی طرح ہے ۔ متفق علیہ ۔ اور بخاری کی دوسری روایت میں ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب قاری (امام) آمین کہے تو تم آمین کہو ، کیونکہ فرشتے بھی آمین کہتے ہیں ، جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہو گئی اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔‘‘
ابوموسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو صفیں درست کرو ، پھر تم میں سے تمہیں کوئی نماز پڑھائے ، پس جب وہ اللہ اکبر کہے تو تم اللہ اکبر کہو ، اور جب وہ (غیر المغضوب علیھم ولا الضالین) کہے تو تم آمین کہو ، اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا ، جب وہ اللہ اکبر کہے اور رکوع کرے تو تم اللہ اکبر کہو اور رکوع کرو ، کیونکہ امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے اور تم سے پہلے (رکوع سے) اٹھتا ہے ۔‘‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ (پہلے سر اٹھانا) اس کے (پہلے رکوع جانے) کا بدلہ ہے ، اور جب وہ کہے : ((سمع اللہ لمن حمدہ))’’ اللہ نے سن لیا جس نے اس کی تعریف کی ‘‘، تو تم کہو : اے اللہ ! ہر قسم کی حمد تیرے ہی لیے ہے ، اللہ تمہاری دعا سنتا اور قبول فرماتا ہے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
وَفِي رِوَايَةٍ لَهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَقَتَادَةَ: «وَإِذا قَرَأَ فأنصتوا»
اور مسلم کی ابوہریرہ ؓ اور ابوقتادہ ؓ سے مروی حدیث میں ہے :’’ اور جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوقتادہ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اور دو سورتیں جبکہ دوسری دو رکعتوں میں سورۂ فاتحہ پڑھا کرتے تھے اور کبھی کبھار آپ ہمیں کوئی آیت سنا دیا کرتے تھے ، آپ جس قدر پہلی رکعت میں قراءت لمبی کیا کرتے تھے اس قدر دوسری میں لمبی نہیں کیا کرتے تھے ، اور آپ اسی طرح عصر میں اور اسی طرح فجر میں کیا کرتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
ابوسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نماز ظہر و عصر میں رسول اللہ ﷺ کے قیام کا اندازہ لگایا کرتے تھے ، پس ہم نے ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں آپ ﷺ کے قیام کا اندازہ سورۂ سجدہ کی قراءت کے برابر لگایا ، اور ایک دوسری روایت میں ہے ہر رکعت میں تیس آیات کے برابر تھا ، اور ہم نے آخری دو رکعتوں میں آپ ﷺ کے قیام کا اندازہ لگایا تو وہ اس سے نصف تھا ، ہم نے عصر کی پہلی دو رکعتوں کا اندازہ لگایا تو وہ ظہر کی آخری دو رکعتوں کے قیام کے برابر تھا جبکہ عصر کی آخری دو رکعتیں اس کی (پہلی دو رکعتوں) سے نصف تھیں ۔ رواہ مسلم ۔
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نماز ظہر میں (واللیل اذا یغشیٰ ،،،،) اور ایک دوسری روایت میں ہے ، (سبح اسم ربک الاعلٰی ،،،،) اور عصر میں اسی طرح ، جبکہ نماز فجر میں اس سے زیادہ لمبی قراءت کیا کرتے تھے ۔ رواہ مسلم ۔
جبیر بن مطعم ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز مغرب میں سورۂ طور پڑھتے ہوئے سنا ۔ متفق علیہ ۔
ام فضل بن حارث ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز مغرب میں (والمرسلات عرفاً ،،،،) پڑھتے ہوئے سنا ۔ متفق علیہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، معاذ بن جبل ؓ نبی ﷺ کے ساتھ نماز (عشاء) پڑھا کرتے تھے ، پھر جا کر اپنی قوم کی امامت کراتے تھے ، ایک رات انہوں نے نبی ﷺ کے ساتھ نماز عشاء پڑھی ، پھر اپنی قوم کے پاس گئے اور انہیں نماز پڑھائی تو انہوں نے سورۂ بقرہ شروع کر دی ، ایک آدمی نے الگ ہو کر سلام پھیر دیا ، پھر اکیلے ہی نماز پڑھ کر چلا گیا تو صحابہ نے اسے کہا : اے فلاں ! کیا تو منافق ہو گیا ہے ؟ اس نے کہا : نہیں ، اللہ کی قسم ! میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے شکایت کروں گا ، چنانچہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم اونٹوں پر پانی لا کر کھیتوں اور باغات کو سیراب کرنے والے لوگ ہیں ، دن بھر کام کاج کرتے ہیں ، اور یہ معاذ ہیں کہ انہوں نے آپ کے ساتھ نماز عشاء ادا کی ، پھر اپنی قوم کے پاس آئے تو انہوں نے سورۂ بقرہ شروع کر دی ، پس (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ معاذ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :’’ معاذ ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو ؟ تم (والشمس وضحھا ،،،،) ، (واللیل اذا یغشیٰ ،،،،) اور (سبح اسم ربک الاعلیٰ ،،،،) پڑھا کرو ۔‘‘ متفق علیہ ۔
براء ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ کو نماز عشاء میں (والتین والزیتون ) پڑھتے ہوئے سنا ، اور میں نے آپ ﷺ سے زیادہ خوش الحان کوئی اور نہیں سنا ۔ متفق علیہ ۔
جابر بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ نماز فجر میں (ق والقرآن المجید ،،،،،) اور اس طرح کی سورتیں پڑھا کرتے تھے ، اور اس (یعنی نماز فجر) کے بعد آپ ﷺ کی باقی نمازیں مختصر ہوتی تھیں ۔ رواہ مسلم ۔
عمرو بن حریث ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کو نماز فجر میں (واللیل اذا عسعس ،،،،) پڑھتے ہوئے سنا ۔ رواہ مسلم ۔
عبداللہ بن سائب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں مکہ میں نماز فجر پڑھائی تو آپ نے سورۂ مومنون شروع کی حتیٰ کہ موسیٰ و ہارون علیہم السلام کا ذکر آیا تو نبی ﷺ کو رونے کی وجہ سے کھانسی آنے لگی جس پر آپ نے رکوع کر دیا ۔ رواہ مسلم ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، نبی ﷺ جمعہ کے روز نماز فجر کی پہلی رکعت میں سورۂ سجدہ اور دوسری رکعت میں سورۂ دہر پڑھا کرتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
عبیداللہ بن ابی رافع بیان کرتے ہیں ، مروان ابوہریرہ ؓ کو مدینہ کا خلیفہ مقرر کر کے خود مکہ تشریف لے گئے ، چنانچہ انہوں نے ہمیں نماز جمعہ پڑھائی تو انہوں نے پہلی رکعت میں سورۃ الجمعہ اور دوسری رکعت میں سورۃ المنافقون پڑھی تو پھر انہوں نے فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو جمعہ کے روز یہ سورتیں پڑھتے ہوئے سنا ۔ رواہ مسلم ۔
نعمان بن بشیر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نماز عیدین اور نماز جمعہ میں سورۃ الاعلی اور سورۃ الغاشیہ پڑھا کرتے تھے ، اور انہوں نے فرمایا : اگر عید جمعہ کے روز آ جاتی تو پھر آپ ﷺ دونوں نمازوں میں یہی دونوں سورتیں تلاوت فرماتے ۔ رواہ مسلم ۔
عبیداللہ ؒ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب ؓ نے ابوواقدلیشی ؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ عید الاضحی اور عید الفطر میں کون سی سورتیں تلاوت کیا کرتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا : آپ ﷺ ان دونوں میں سورۂ ق اور سورۃ القمر تلاوت کیا کرتے تھے ۔ رواہ مسلم ۔