مشکوۃ

Mishkat

نماز کا بیان

با جماعت نماز اور اس کی فضیلت کا بیان

بَاب الْجَمَاعَة وفضلها

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلَاةُ الْجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاة الْفَذ بِسبع وَعشْرين دَرَجَة»

ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ با جماعت نماز ، اکیلے شخص کی نماز سے ستائیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِحَطَبٍ فَيُحْطَبَ ثُمَّ آمُرَ بِالصَّلَاةِ فَيُؤَذَّنَ لَهَا ثُمَّ آمُرَ رَجُلًا فَيَؤُمَّ النَّاسَ ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى رِجَالٍ. وَفِي رِوَايَةٍ: لَا يَشْهَدُونَ الصَّلَاةَ فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ يَعْلَمُ أَحَدُهُمْ أَنَّهُ يَجِدُ عَرْقًا سَمِينًا أَوْ مِرْمَاتَيْنِ حَسَنَتَيْنِ لَشَهِدَ الْعِشَاءَ . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَلمُسلم نَحوه

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں نے ارادہ کر لیا تھا کہ لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں ، وہ اکٹھی ہو جائیں تو پھر میں نماز کے متعلق حکم دوں ، اس کے لیے اذان دی جائے ، پھر میں کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے ، پھر میں ان لوگوں کے پیچھے جاؤں ، اور ایک روایت میں ہے ، جو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے نہیں آتے تو میں ان کے گھروں سمیت انہیں جلا دوں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر ان میں سے کسی کو پتہ چل جائے کہ وہ (مسجد میں) گوشت والی ہڈی یا دو بہترین پائے پائے گا تو وہ نماز عشاء میں ضرور حاضر ہو ۔‘‘ بخاری ۔ مسلم میں بھی اسی طرح روایت ہے ۔ متفق علیہ ۔

وَعَنْهُ قَالَ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ أَعْمَى فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ يَقُودُنِي إِلَى الْمَسْجِدِ فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَخِّصَ لَهُ فَيُصَلِّيَ فِي بَيْتِهِ فَرَخَّصَ لَهُ فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ فَقَالَ: «هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ؟» قَالَ: نَعَمْ قَالَ: «فَأَجِبْ» . رَوَاهُ مُسلم

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک نابینا شخص نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! مجھے مسجد تک پہنچانے کے لیے میرے پاس کوئی آدمی نہیں ، اس شخص نے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ آپ اسے رخصت عنایت فرما دیں کہ وہ گھر میں نماز پڑھ لیا کرے ، آپ ﷺ نے اسے رخصت عنایت فرما دی ، جب وہ واپس مڑا تو آپ نے اسے بلا کر پوچھا :’’ کیا تم نماز کے لیے اذان سنتے ہو ؟‘‘ اس نے عرض کیا ، جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تو پھر اسے قبول کرو (مسجد میں آؤ) ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ أَذَّنَ بِالصَّلَاةِ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ ثُمَّ قَالَ أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ وَمَطَرٍ يَقُولُ: «أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ»

ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک رات جب سردی تھی اور ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی ، اذان کہی ، پھر فرمایا سن لو ! اپنے گھروں میں نماز پڑھو ، پھر فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ سرد اور برسات والی رات مؤذن کو حکم فرمایا کرتے تھے کہ وہ کہے :’’ اپنے گھروں میں نماز پڑھو ۔‘‘ متفق علیہ ۔

وَعَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا وُضِعَ عَشَاءُ أَحَدِكُمْ وَأُقِيمَتِ الصَّلَاة فابدؤوا بِالْعَشَاءِ وَلَا يَعْجَلْ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهُ» وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُوضَعُ لَهُ الطَّعَامُ وَتُقَامُ الصَّلَاةُ فَلَا يَأْتِيهَا حَتَّى يَفْرُغُ مِنْهُ وَإِنَّهُ لِيَسْمَعَ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ

ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب شام کا کھانا لگا دیا جائے اور نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو پہلے شام کا کھانا کھا لو ، اور کوئی شخص جلدی نہ کرے حتیٰ کہ اس سے فارغ ہو جائے ۔‘‘ ابن عمر ؓ کے لیے کھانا لگا دیا جاتا اور نماز کھڑی کر دی جاتی تو آپ اس سے فارغ ہو کر ہی نماز کے لیے آیا کرتے تھے ، حالانکہ وہ امام کی قراءت سن رہے ہوتے تھے ۔ متفق علیہ ۔

وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: «لَا صَلَاة بِحَضْرَة طَعَام وَلَا هُوَ يدافعه الأخبثان»

عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ کھانے کے (سامنے) ہوتے ہوئے نماز ہوتی ہے نہ اس وقت کہ جب دو خبیث چیزیں (بول و براز) اسے روک رہی ہوں ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَة» . رَوَاهُ مُسلم

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو پھر فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں ہوتی ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَة أحدكُم إِلَى الْمَسْجِد فَلَا يمْنَعهَا»

ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کسی شخص کی اہلیہ مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے منع نہ کرے ۔‘‘ متفق علیہ ۔

وَعَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَتْ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا شَهِدَتْ إِحْدَاكُنَّ الْمَسْجِدَ فَلَا تمس طيبا» . رَوَاهُ مُسلم

عبداللہ بن مسعود ؓ کی اہلیہ زینب ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو وہ خوشبو نہ لگائے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ أَصَابَتْ بَخُورًا فَلَا تَشْهَدْ مَعَنَا الْعشَاء الْآخِرَة» . رَوَاهُ مُسلم

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو عورت خوشبو لگائے (خوشبو کی دھونی لے) تو وہ ہمارے ساتھ نماز عشاء پڑھنے کے لیے نہ آئے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمُ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ

ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ اپنی خواتین کو مساجد میں آنے سے منع نہ کرو ، جب کہ ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔

وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «صَلَاةُ الْمَرْأَةِ فِي بَيْتِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي حُجْرَتِهَا وَصَلَاتُهَا فِي مَخْدَعِهَا أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِهَا فِي بَيْتِهَا» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد

ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ عورت کا اپنے گھر کے اندر نماز پڑھنا ، گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ، اور اس کا گھر کے اندر کسی کوٹھری میں نماز پڑھنا ، اس کے کھلے مکان میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔‘‘ ضعیف ۔

وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ حِبِّي أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «لَا تُقْبَلُ صَلَاةُ امْرَأَةٍ تَطَيَّبَتْ لِلْمَسْجِدِ حَتَّى تَغْتَسِلَ غُسْلَهَا مِنَ الْجَنَابَةِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وروى أَحْمد وَالنَّسَائِيّ نَحوه

ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے اپنے محبوب ابوالقاسم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ اس عورت کی نماز قبول نہیں ہوتی جو مسجد میں آنے کے لیے خوشبو لگائے حتیٰ کہ وہ اس طرح (خوب اچھی طرح) غسل کرے جیسے غسل جنابت کیا جاتا ہے ۔‘‘ ابوداؤد ، احمد اور نسائی نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے ۔ حسن ۔

وَعَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ عَيْنٍ زَانِيَةٌ وَإِنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ بِالْمَجْلِسِ فَهِيَ كَذَا وَكَذَا» . يَعْنِي زَانِيَةً. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَلِأَبِي دَاوُد وَالنَّسَائِيّ نَحوه

ابوموسیٰ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ (کسی اجنبی کو شہوت کے ساتھ دیکھنے والی) ہر آنکھ زانیہ ہے ، اور بے شک عورت جب عطر لگا کر کسی مجلس کے پاس سے گزرتی ہے تو وہ ایسی ویسی یعنی زانیہ ہے ۔‘‘ ترمذی ، ابوداؤد اور نسائی کی روایت بھی اسی طرح ہے ۔ اسنادہ حسن ۔

وَعَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا الصُّبْحَ فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ: «أَشَاهِدٌ فُلَانٌ؟» قَالُوا: لَا. قَالَ: «أَشَاهِدٌ فُلَانٌ؟» قَالُوا: لَا. قَالَ: «إِنَّ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ أَثْقَلُ الصَّلَوَاتِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ وَلَو تعلمُونَ مَا فيهمَا لأتيتموهما وَلَوْ حَبْوًا عَلَى الرُّكَبِ وَإِنَّ الصَّفَّ الْأَوَّلَ عَلَى مِثْلِ صَفِّ الْمَلَائِكَةِ وَلَوْ عَلِمْتُمْ مَا فضيلته لابتدرتموه وَإِن صَلَاة الرجل من الرَّجُلِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ وَحْدَهُ وَصَلَاتَهُ مَعَ الرَّجُلَيْنِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ مَعَ الرَّجُلِ وَمَا كَثُرَ فَهُوَ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ

ابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں ، ایک روز رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز فجر پڑھائی ، جب سلام پھیرا تو فرمایا :’’ کیا فلاں شخص موجود ہے ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا ، نہیں ، پھر پوچھا :’’ کیا فلاں شخص موجود ہے ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا : نہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ دونوں نمازیں منافقوں پر بہت بھاری ہیں ، اگر تم جان لو کہ ان میں کتنا اجر و ثواب ہے تو پھر خواہ تمہیں گھٹنوں کے بل آنا پڑتا تم ضرور آتے اور بے شک پہلی صف (اجر و فضیلت کے لحاظ سے) فرشتوں کی صف کی طرح ہے ، اور اگر تمہیں اس کی فضیلت کا علم ہو جائے تو تم اس کی طرف ضرور سبقت کرو ، بے شک آدمی کا دوسرے آدمی کے ساتھ نماز پڑھنا ، اس کے اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، اور اس کا دو آدمیوں کے ساتھ نماز پڑھنا ، اس کے ایک آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے سے بہتر ہے ، اور جس قدر زیادہ ہو تو وہ اللہ کو زیادہ محبوب ہیں ۔‘‘ صحیح ، رواہ ابوداؤد و النسائی ۔

وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا مِنْ ثَلَاثَةٍ فِي قَرْيَةٍ وَلَا بَدْوٍ لَا تُقَامُ فِيهِمُ الصَّلَاةُ إِلَّا قَدِ اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَعَلَيْكَ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّمَا يَأْكُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِيَةَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد وَالنَّسَائِيّ

ابودرداء ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس بستی اور جنگل میں تین آدمی ہوں اور وہاں با جماعت نماز کا اہتمام نہ ہو تو پھر (سمجھو کہ) ان پر شیطان غالب آ چکا ہے ، تم جماعت کے ساتھ لگے رہو ، بھیڑیا الگ اور دور رہنے والی بکری کو کھا جاتا ہے ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد و ابوداؤد و النسائی ۔

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «من سمع الْمُنَادِي فَلَمْ يَمْنَعْهُ مِنِ اتِّبَاعِهِ عُذْرٌ» قَالُوا وَمَا الْعُذْرُ؟ قَالَ: «خَوْفٌ أَوْ مَرَضٌ لَمْ تُقْبَلْ مِنْهُ الصَّلَاةُ الَّتِي صَلَّى» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالدَّارَقُطْنِيّ

ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جو شخص اذان سن کر بلا عذر با جماعت نماز پڑھنے نہ آئے تو وہ جو اکیلے نماز پڑھتا ہے وہ قبول نہیں ہوتی ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا ، عذر کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ خوف یا مرض ۔‘‘ ضعیف ۔

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم يَقُول: «إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ وَوَجَدَ أَحَدُكُمُ الْخَلَاءَ فَلْيَبْدَأْ بِالْخَلَاءِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَرَوَى مَالِكٌ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيّ نَحوه

عبداللہ بن ارقم ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جب نماز کے لیے اقامت کہی جائے اور تم میں سے کوئی قضائے حاجت محسوس کرے تو پہلے وہ قضائے حاجت سے فارغ ہو ۔‘‘ اسے ترمذی نے روایت کیا ہے جبکہ مالک ، ابوداؤد اور نسائی نے اسی کی مثل روایت کیا ہے ۔ صحیح ۔

وَعَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثٌ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَفْعَلَهُنَّ: لَا يَؤُمَّنَّ رَجُلٌ قَوْمًا فَيَخُصَّ نَفْسَهُ بِالدُّعَاءِ دُونَهُمْ فَإِنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ خَانَهُمْ. وَلَا يَنْظُرْ فِي قَعْرِ بَيْتٍ قَبْلَ أَنْ يَسْتَأْذِنَ فَإِنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ خَانَهُمْ وَلَا يُصَلِّ وَهُوَ حَقِنٌ حَتَّى يَتَخَفَّفَ . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وللترمذي نَحوه

ثوبان ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تین کام ایسے ہیں جن کا کرنا کسی کے لیے حلال نہیں ، کوئی شخص جو مقتدیوں کو چھوڑ کر صرف اپنی ذات کے لیے دعا کرتا ہو وہ ان کی امامت نہ کرائے ، اگر وہ ایسے کرے گا تو وہ ان سے خیانت کرے گا ، کوئی شخص اجازت طلب کرنے سے پہلے کسی گھر میں نہ جھانکے ، اگر اس نے ایسے کیا ، تو اس نے ان سے خیانت کی ، اور کوئی شخص بول و براز روک کر نماز نہ پڑھے حتیٰ کہ وہ (اس سے فارغ ہو کر) ہلکا ہو جائے ۔‘‘ ابوداؤد اور ترمذی کی روایت بھی اسی طرح ہے ۔ حسن ، رواہ ابوداؤد و الترمذی ۔

وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُؤَخِّرُوا الصَّلَاةَ لِطَعَامٍ وَلَا لغيره» . رَوَاهُ فِي شرح السّنة

جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ کھانے اور کسی اور کام کی خاطر نماز کو مؤخر نہ کرو ۔‘‘ ضعیف ۔