ابومسعود ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ لوگوں کی امامت وہ شخص کرائے جو ان میں سے کتاب اللہ کو زیادہ پڑھنے (جاننے ، سمجھنے) والا ہو ، پس اگر وہ قراءت میں سب برابر ہوں تو پھر ان میں سے جو سنت کو زیادہ جاننے والا ہو ، اگر وہ سنت میں برابر ہوں تو پھر ان میں سے جس نے ہجرت پہلے کی ہو ، اور اگر وہ ہجرت کرنے میں برابر ہوں تو پھر ان میں سے جو عمر میں بڑا ہو ، اور کوئی شخص کسی کی جگہ (بلا اجازت) امامت کرائے نہ بلا اجازت اس کے گھر میں اس کی عزت کی جگہ بیٹھے ۔‘‘ مسلم ۔ اور مسلم ہی کی روایت میں ہے :’’ کوئی آدمی کسی آدمی کی اس کے گھر میں امامت نہ کرائے ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوسعید ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تین افراد ہوں تو ان میں سے ایک ان کی امامت کرائے اور ان میں سے جو زیادہ قرآن پڑھنے والا ہے وہ امامت کا زیادہ حق دار ہے ۔‘‘ مسلم ، اور مالک بن حویرث ؓ سے مروی حدیث باب فضل الاذان کے بعد والے باب میں بیان ہو چکی ہے ۔ رواہ مسلم ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تم میں سے بہتر شخص اذان کہے اور تم میں سے بہتر قاری تمہیں نماز پڑھائے ۔‘‘ ضعیف ۔
ابوعطیہ عقیلی بیان کرتے ہیں ، مالک بن حویرث ؓ ہماری نماز کی جگہ پر ہمارے پاس تشریف لایا کرتے اور باتیں کیا کرتے تھے ، ایک روز نماز کا وقت ہو گیا ، ابوعطیہ نے کہا ، ہم نے ان سے درخواست کی کہ وہ آگے بڑھیں اور نماز پڑھائیں ، انہوں نے ہمیں فرمایا : اپنے کسی آدمی کو آگے کرو وہ تمہیں نماز پڑھائے گا :’’ میں عنقریب تمہیں بتاؤں گا کہ میں تمہیں نماز کیوں نہیں پڑھاتا ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ جو شخص کسی قوم کے پاس جائے تو وہ ان کی امامت نہ کرائے بلکہ انہی میں سے کوئی شخص ان کی امامت کرائے ۔‘‘ ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، البتہ انہوں نے نبی ﷺ کے الفاظ تک اکتفا کیا ہے ۔ حسن ۔
انس ؓ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ابن مکتوم ؓ کو خلیفہ مقرر فرمایا ، وہ لوگوں کی امامت کراتے تھے حالانکہ وہ نابینا تھے ۔ صحیح ، رواہ ابوداؤد ۔
ابوامامہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تین قسم کے لوگوں کی نماز ان کے کانوں سے آگے نہیں جاتی ، مفرور غلام حتیٰ کہ وہ واپس آ جائے ، وہ عورت جو اس حال میں رات بسر کرے کہ اس کا خاوند اس پر ناراض ہو ، اور لوگوں کا امام جبکہ وہ اسے نا پسند کرتے ہوں ۔‘‘ ترمذی اور انہوں نے فرمایا : یہ حدیث غریب ہے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تین قسم کے لوگوں کی نماز قبول نہیں ہوتی : وہ امام جسے مقتدی نا پسند کرتے ہوں ، ایک وہ شخص جو نماز کا وقت گزر جانے کے بعد نماز پڑھتا ہے ، اور ایک وہ آدمی جو کسی آزاد شخص کو غلام بنا لے ۔‘‘ ضعیف ۔
سلامہ بنت حر ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ قیامت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ مسجد والے نماز پڑھانے سے جان چھڑائیں گے وہ نماز پڑھانے کے لیے کوئی امام نہیں پائیں گے ۔‘‘ ضعیف ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ ہر امیر کی معیت میں جہاد کرنا تم پر فرض ہے ، خواہ وہ نیک ہو یا فاجر ، اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو ، اور ہر مسلمان کے پیچھے نماز پڑھنا تم پر واجب ہے خواہ وہ نیک ہو یا فاجر ، اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو اور ہر مسلمان پر نماز پڑھنا واجب ہے خواہ وہ نیک ہو یا فاجر ، اگرچہ وہ کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو ۔‘‘ ضعیف ۔
عمرو بن سلمہ ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم ایک چشمہ پر رہائش پذیر تھے جو لوگوں کے لیے عام گزر گاہ تھا ، قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تو ہم ان سے پوچھتے رہتے کہ اب لوگوں کا کیا حال ہے ؟ اور اس شخص کی کیا کیفیت ہے ؟ تو وہ کہتے : اس شخص کا خیال ہے کہ اللہ نے اسے رسول بنا کر بھیجا ہے ، اس کی طرف یہ یہ وحی کی گئی ہے ، میں ان سے یہ باتیں یاد کر لیتا ، گویا وہ میرے دل میں گھر کر گئی ہیں ، اور عرب اسلام قبول کرنے کے بارے میں فتح مکہ کے منتظر تھے ، وہ کہتے تھے : اسے اور اس کی قوم کو (اس کے حال پر) چھوڑ دو ، اگر وہ ان پر غالب آ گیا تو وہ سچا نبی ہے ، جب مکہ فتح ہوا تو ہر قوم نے اسلام قبول کرنے میں جلدی کی ، اور میرے والد نے بھی اسلام قبول کرنے میں اپنی قوم سے جلدی کی ، جب وہ واپس پہنچے تو انہوں نے فرمایا : اللہ کی قسم ! میں سچے نبی کے پاس سے تمہارے پاس آیا ہوں ، انہوں نے فرمایا :’’ یہ نماز اس وقت پڑھو اور یہ نماز اس وقت پڑھو ، تم میں سے کوئی ایک شخص اذان کہہ دے اور تم میں سے زیادہ قرآن پڑھنے والا تمہاری امامت کرائے ۔‘‘ انہوں نے جائزہ لیا تو مجھ سے زیادہ قرآن جاننے والا کوئی نہیں تھا ، کیونکہ میں قافلوں سے سن کر قرآن کا علم حاصل کر چکا تھا ، انہوں نے مجھے اپنا امام بنا لیا ، میں اس وقت چھ یا سات برس کا تھا ، میرے اوپر ایک چادر ہی تھی ، جب میں سجدہ کرتا تو وہ سکڑ جاتی ، (اور میرا ستر کھل جاتا ، یہ دیکھ کر) قبیلے کی ایک عورت نے کہا : تم اپنے امام کا سرین ہم سے کیوں نہیں چھپاتے ہو ؟ انہوں نے (کپڑا) خریدا اور میرے لیے قمیض بنائی ، میں جتنا اس قمیض سے خوش ہوا اتنا کسی اور چیز سے خوش نہیں ہوا ۔ رواہ البخاری ۔
ابن عمر ؓ بیان کرتے ہیں ، جب اول مہاجرین مدینہ تشریف لائے تو ابوحذیفہ ؓ کے آزاد کردہ غلام سالم ان کی امامت کرایا کرتے تھے جبکہ عمر ؓ اور ابوسلمہ بن عبدالاسد ؓ ان میں موجود تھے ۔ رواہ البخاری ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تین قسم کے لوگ ہیں ، جن کی نمازیں ان کے سر سے ایک بالشت بھی اوپر نہیں جاتیں : وہ امام جس کے مقتدی اس سے ناراض ہوں ، وہ عورت جو اس حال میں رات بسر کرے کہ اس کا خاوند اس سے ناراض ہو اور باہم قطع تعلق کر لینے والے دو بھائی ۔‘‘ ضعیف ۔