جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، معاذ بن جبل ؓ نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے ، پھر وہ اپنی قوم کے پاس جاتے اور انہیں نماز پڑھاتے تھے ۔ متفق علیہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، معاذ نبی ﷺ کے ساتھ نماز عشاء ادا کرتے پھر اپنی قوم کے پاس جاتے اور انہیں نماز عشاء پڑھاتے ، اور یہ (بعد والی نماز) ان کے لیے نفل ہوتی تھی ۔ صحیح ، رواہ الدارقطنی ۔
یزید بن اسود ؓ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی ﷺ کے ساتھ حج کیا ، میں نے نماز فجر آپ کے ساتھ مسجد خیف میں ادا کی ، جب آپ نماز پڑھ چکے اور پیچھے مڑے تو وہاں آخر پر دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ انہیں میرے پاس لاؤ ۔‘‘ انہیں لایا گیا تو وہ گھبراہٹ سے کانپ رہے تھے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم دونوں نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم اپنے گھروںمیں نماز پڑھ چکے تھے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ایسے نہ کیا کرو ، جب تم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکو اور پھر تمہیں مسجد میں جماعت مل جائے تو ان کے ساتھ بھی نماز پڑھ لیا کرو ، کیونکہ وہ تمہارے لیے نفل ہو گی ۔‘‘ صحیح ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی ۔
بسر بن محجن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کسی مجلس میں موجود تھے ، اتنے میں نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوئے اور نماز پڑھ کر واپس تشریف لے آئے جبکہ محجن اپنی جگہ پر ہی تھے ، رسول اللہ ﷺ نے ا سے پوچھا :’’ تم نے لوگوں کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی ، کیا تم مسلمان نہیں ہو ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کیوں نہیں ، ضرور مسلمان ہیں ، لیکن میں اپنے گھر نماز پڑھ چکا تھا ، اس پر رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا :’’ جب تم نماز پڑھنے کے بعد مسجد میں آؤ ، اور نماز ہو رہی ہو تو تم جماعت کے ساتھ نماز پڑھو خواہ تم نماز پڑھ ہی چکے ہو ۔‘‘ اسنادہ حسن ، رواہ مالک و النسائی ۔
اسد بن خزیمہ کے قبیلے کے ایک شخص سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوایوب انصاری ؓ سے مسئلہ دریافت کیا ، ہم میں سے کوئی شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ کر مسجد میں آتا ہے اور نماز ہو رہی ہو تو کیا میں ان کے ساتھ نماز پڑھوں ؟ اس پر میرا دل مطمئن نہیں ہوتا ، ابوایوب انصاری ؓ بیان کرتے ہیں ، ہم نے اس بارے میں دریافت کیا تھا تو آپ ﷺ نے فرمایا : اس کے لیے جماعت کا ثواب ہے ۔‘‘ ضعیف ۔
یزید بن عامر ؓ بیان کرتے ہیں ، میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے ، میں بیٹھ گیا اور ان کے ساتھ نماز میں شریک نہ ہوا ، جب رسول اللہ ﷺ فارغ ہوئے تو آپ نے مجھے بیٹھے ہوئے دیکھ کر فرمایا :’’ یزید ! کیا تم مسلمان نہیں ؟‘‘ میں نے عرض کیا ، کیوں نہیں ، اللہ کے رسول ! میں تو مسلمان ہوں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تم نے جماعت کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ، میں سمجھا کہ آپ نماز پڑھ چکے ہوں گے لہذا میں نے گھر میں پڑھ لی تھی ، آپ ﷺ نے فرمایا ﷺ :’’ جب تم نماز کے لیے آؤ اور لوگوں کو پاؤ تو پھر تم ان کے ساتھ نماز پڑھو اور اگر تم پڑھ چکے ہو تو پھر وہ تمہارے لیے نفل ہو گی اور یہ فرض ۔‘‘ ضعیف ۔
ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ کسی آدمی نے ان سے دریافت کیا اس نے کہا : میں گھر میں نماز پڑھ لوں اور پھر مسجد میں با جماعت نماز پا لوں تو پھر کیا میں جماعت کے ساتھ شریک ہو جاؤں ؟ انہوں نے اسے بتایا ، ہاں ، اس آدمی نے کہا : میں ان میں سے کس کو اپنی (فرض) نماز قرار دوں ؟ ابن عمر ؓ نے فرمایا : کیا تجھے اس کا اختیار ہے ؟ اس کا اختیار تو اللہ عزوجل کو حاصل ہے کہ وہ ان میں سے جسے چاہے (فرض) بنائے ۔ صحیح ، رواہ مالک ۔
میمونہ ؓ کے آزاد کردہ غلام سلیمان بیان کرتے ہیں ، ہم مقام بلاط پر ابن عمر ؓ کے پاس آئے تو وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے ، میں نے ابن عمر ؓ سے پوچھا : کیا آپ ان کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے ؟ انہوں نے فرمایا : میں پڑھ چکا ہوں ، اور میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :’’ ایک نماز کو ایک ہی دن میں دو مرتبہ نہ پڑھو ۔‘‘ صحیح ، رواہ احمد و ابوداؤد و النسائی ۔
نافع ؒ بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے : جو شخص نماز مغرب یا نماز فجر پڑھ لے ، پھر وہ انہیں امام کے ساتھ پا لے تو وہ انہیں دوبارہ نہ پڑھے ۔ صحیح ، رواہ مالک ۔