زید بن ثابت ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مسجد میں چٹائی کا ایک حجرہ بنا لیا ، اور آپ نے چند راتیں اس میں نماز پڑھی ، حتیٰ کہ لوگ زیادہ تعداد میں جمع ہو گئے ، پھر ایک رات انہوں نے آپ کی آواز محسوس نہ کی اور انہوں نے گمان کیا کہ آپ سو چکے ہیں ، کچھ لوگ کھانسنے لگے تاکہ آپ باہر تشریف لے آئیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جو کچھ تم کرتے رہے میں نے اسے دیکھا یہاں تک کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ اسے تم پر فرض نہ کر دیا جائے ، اور اگر تم پر فرض کر دی جاتی تو تم اس کا اہتمام نہ کر سکتے ، لوگو ! اپنے گھروں میں نماز پڑھو ، کیونکہ فرض نماز کے علاوہ آدمی کا گھر نماز پڑھنا افضل ہے ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کوئی قطعی حکم دیے بغیر قیام رمضان کی ترغیب دیا کرتے تھے ، آپ ﷺ فرماتے تھے :’’ جو شخص ایمان اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کرے تو اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں ۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ نے وفات پائی تو معاملہ اسی طرح تھا ، پھر ابوبکر ؓ اور عمر ؓ کی خلافت کے شروع میں معاملہ اسی طرح تھا ۔ رواہ مسلم ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم میں سے کوئی مسجد میں نماز ادا کرے تو وہ اس کا کچھ حصہ نفل وغیرہ اپنے گھر میں بھی ادا کرے ، کیونکہ اللہ اس کی نماز کی وجہ سے اس کے گھر میں خیر و برکت فرمائے گا ۔‘‘ رواہ مسلم ۔
ابوذر ؓ بیان کرتے ہیں ہم نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ روزے رکھے ، آپ نے اس ماہ میں ہمیں تراویح نہ پڑھائی حتیٰ کہ سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمیں تراویح پڑھائی حتیٰ کہ تہائی رات بیت گئی ، جب چھٹی رات ہوئی تو آپ نے ہمیں تراویح نہ پڑھائی ، جب پانچویں رات ہوئی تو آپ نے ہمیں تراویح پڑھائی حتیٰ کہ نصف شب بیت گئی ۔ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! کاش کہ آپ اس رات کے قیام کو بڑھا دیتے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ جب آدمی امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے حتیٰ کہ وہ فارغ ہوتا ہے تو اس کے لیے پوری رات کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے ۔‘‘ جب چوتھی رات آئی تو آپ نے ہمیں نماز تراویح نہ پڑھائی حتیٰ کہ تہائی رات باقی رہ گئی ۔ جب تیسری رات آئی تو آپ نے اپنے اہل و عیال اور لوگوں کو اکٹھا کیا اور ہمیں نماز تراویح پڑھائی ، (اور اتنا لمبا قیام فرمایا) حتیٰ کہ ہمیں اپنی سحری فوت ہو جانے کا اندیشہ ہوا (راوی کہتے ہیں) میں نے کہا :’’ فلاح ‘‘ سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا : سحری ، پھر آپ ﷺ نے مہینے کے باقی ایام میں ہمیں تراویح نہ پڑھائی ۔ ابوداؤد ، ترمذی ، نسائی ، اور ابن ماجہ نے بھی اسی طرح روایت کیا ، البتہ امام ترمذی نے ’’ آپ نے مہینے کے باقی ایام میں ہمیں تراویح نہیں پڑھائی ‘‘ کا ذکر نہیں کیا ۔ صحیح ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں میں نے ایک رات رسول اللہ ﷺ کو (بستر پر) نہ پایا ، آپ اچانک بقیع (قبرستان) تشریف لے گئے ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ کیا تمہیں اندیشہ تھا کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے ۔‘‘ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! میں نے سمجھا کہ آپ اپنی کسی زوجہ محترمہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات آسمان دنیا پر نازل ہوتا ہے اور وہ (اس رات) کلب قبیلے کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔‘‘ ضعیف ۔ ترمذی ، ابن ماجہ ، اور رزین نے یہ اضافہ نقل کیا ہے :’’ اللہ ایسے لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے جو جہنم کے مستحق تھے ۔‘‘ اور امام ترمذی ؒ نے فرمایا : میں نے محمد یعنی امام بخاری ؒ کو اس حدیث کو ضعیف قرار دیتے ہوئے سنا ۔
زید بن ثابت ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ فرض نماز کے علاوہ آدمی کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا میری اس مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے ۔‘‘ متفق علیہ ، رواہ ابوداؤد و الترمذی ۔
عبدالرحمن بن عبدالقاری ؓ بیان کرتے ہیں ، میں ایک رات عمر بن خطاب ؓ کے ساتھ مسجد (نبوی) میں گیا تو وہاں لوگ متفرق طور پر ایک ایک ، دو دو اور کہیں چند افراد کی جماعت کی صورت میں نماز تراویح پڑھ رہے تھے ، یہ صورت دیکھ کر عمر ؓ نے فرمایا : اگر میں انہیں ایک امام کی اقتدا پر اکٹھا کر دوں تو وہ بہتر ہو گا ، پھر انہوں نے پختہ عزم کیا اور انہیں ابی بن کعب ؓ کی اقتدا پر جمع کر دیا ، راوی بیان کرتے ہیں : میں کسی اور رات پھر ان کے ساتھ آیا تو لوگ اپنے قاری کی امامت میں نماز پڑھ رہے تھے ، (یہ دیکھ کر) عمر ؓ نے فرمایا : یہ نئی بات (با جماعت تراویح ) بہت اچھی ہے ۔ اور وہ نماز جس سے تم سو جاتے ہو وہ اس نماز کے پڑھنے سے افضل ہے ، (راوی کہتا ہے) اس سے عمر ؓ کی مراد رات کا آخری حصہ ہے ، جبکہ لوگ اول رات میں نماز پڑھتے تھے ۔ رواہ البخاری ۔
سائب بن یزید ؒ بیان کرتے ہیں ، عمر ؓ نے ابی ّ بن کعب ؓ اور تمیم داری ؓ کو فرمایا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں گیارہ رکعت نماز تراویح پڑھائیں ، قاری (ایک رکعت) میں دو سو آیت تلاوت کرتا تھا حتیٰ کہ ہم لمبے قیام کی وجہ سے لاٹھیوں کا سہارا لیا کرتے تھے ، اور ہم طلوع فجر سے تھوڑا سا پہلے فارغ ہوتے تھے ۔ صحیح ، رواہ مالک ۔
اعرج ؒ بیان کرتے ہیں ہم نے رمضان میں ہر شخص کو کافروں پر لعنت کرتے ہوئے پایا ، اور قاری آٹھ رکعتوں میں سورۂ بقرہ پڑھتے تھے ، اور جب اسے بارہ رکعتوں میں پڑھتے تو پھر لوگ اسے تخفیف سمجھتے تھے ۔ اسنادہ حسن ، رواہ مالک ۔
عبداللہ بن ابی بکر بیان کرتے ہیں ، میں نے أبی ؓ کو بیان کرتے ہوئے سنا : ہم رمضان میں تراویح سے اس وقت فارغ ہوا کرتے تھے کہ ہم سحری کے فوت ہو جانے اور فجر کے طلوع ہو جانے کے خوف کے پیش نظر خادموں کو کھانے کے متعلق جلدی کرنے کا حکم دیتے تھے ۔ صحیح ، رواہ مالک ۔
عائشہ ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتی ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ آپ جانتی ہیں کہ نصف شعبان کی رات کیا واقع ہوتا ہے ؟‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! اس میں کیا واقع ہوتا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اس سال پیدا ہونے والے اور اس سال فوت ہونے والے ہر شخص کا نام اس رات لکھ دیا جاتا ہے ، اسی رات ان کے اعمال اوپر چڑھتے ہیں اور اسی رات ان کا رزق نازل کیا جاتا ہے ۔‘‘ انہوں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! اللہ کی رحمت کے بغیر کوئی بھی شخص جنت میں نہیں جائے گا ؟ آپ ﷺ نے تین بار فرمایا :’’ اللہ کی رحمت کے بغیر کوئی بھی شخص جنت میں نہیں جائے گا ۔‘‘ میں نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! آپ بھی نہیں ؟ آپ ﷺ نے اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا :’’ میں بھی نہیں ، جب تک اللہ اپنی طرف سے مجھے ڈھانپ نہ لے ۔‘‘ ضعیف ۔
ابوموسیٰ اشعری ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات اپنے بندوں پر خصوصی طور پر متوجہ ہوتا ہے اور وہ مشرک یا کینہ پرور کے سوا اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے ۔‘‘ ضعیف ۔
امام احمد نے عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے روایت کیا ہے ، ان کی روایت میں ہے ،’’ دو : کینہ پرور اور خود کشی کرنے والے کے سوا (سب کو بخش دیتا ہے) ۔‘‘ ضعیف ۔
علی ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب نصف شعبان کی رات ہو تو تم اس رات قیام کرو ، اور اس دن کا روزہ رکھو ، کیونکہ اس رات آفتاب کے غروب ہوتے ہی اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرما کر پوچھتا ہے :’’ سن لو ! کوئی مغفرت کا طلبگار ہے تاکہ میں اسے بخش دوں ، سن لو ! کوئی رزق کا طالب ہے تاکہ میں اسے رزق عطا فرماؤں ، سن لو ! کوئی عافیت چاہتا ہے تاکہ میں اسے عافیت عطا فرماؤں ، سن لو ! ان ان چیزوں کا کوئی طالب ہے ؟ یہ سلسلہ طلوع فجر تک جاری رہتا ہے ۔‘‘ اسنادہ موضوع ۔