عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے دور میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے منادی کرنے والے کو بھیجا کہ وہ یوں اعلان کرے : نماز کے لیے جمع ہو جاؤ ، (جب لوگ جمع ہو گئے) آپ آگے بڑھے اور دو رکعتوں میں چار رکوع اور چار سجدے کیے ، عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، میں نے اس سے لمبا رکوع و سجود کبھی نہیں دیکھا ۔ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں ، نبی ﷺ نے نماز خسوف میں بلند آواز سے قراءت فرمائی ۔ متفق علیہ ۔
عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے دور میں سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ نے تقریباً سورۃ البقرۃ کی قراءت کے برابر طویل قیام فرمایا ، پھر طویل رکوع فرمایا ، پھر کھڑے ہوئے تو آپ نے طویل قیام فرمایا لیکن وہ پہلے قیام سے کم تھا ، پھر آپ نے طویل رکوع فرمایا ، لیکن یہ پہلے رکوع سے کم تھا ، پھر کھڑے ہوئے ، پھر سجدہ کیا ، پھر کھڑے ہوئے تو آپ نے طویل قیام فرمایا ، جبکہ وہ پہلے قیام سے کم تھا ، پھر طویل رکوع فرمایا ، لیکن وہ پہلے رکوع سے کم تھا ، پھر کھڑے ہوئے تو طویل قیام فرمایالیکن وہ پہلے قیام سے کم تھا ، پھر طویل رکوع فرمایا لیکن وہ پہلے رکوع سے کم تھا ، پھر سجدہ کیا ، پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو سورج گرہن ختم ہو چکا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ بے شک آفتاب و ماہتاب اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ، یہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں گہناتے ، جب تم ، دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! ہم نے آپ کو دیکھا کہ جیسے آپ اپنی اسی جگہ سے کوئی چیز پکڑنا چاہتے ہیں ۔ پھر ہم نے آپ کو الٹے پاؤں واپس آتے ہوئے دیکھا ، آپ نے فرمایا :’’ میں نے جنت دیکھی ، میں نے اس سے انگوروں کا گچھا لینا چاہا ، اگر میں اسے لے لیتا تو تم رہتی دنیا تک اسے کھاتے رہتے ، اور میں نے جہنم دیکھی ، میں نے آج کے دن کی طرح کا خوفناک منظر کبھی نہیں دیکھا ، اور میں نے وہاں اکثریت عورتوں کی دیکھی ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا ، اللہ کے رسول ! یہ کیوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا :’’ ان کی ناشکری کی وجہ سے ۔‘‘ عرض کیا گیا ، کیا وہ اللہ کی ناشکری کرتی ہیں ؟ فرمایا :’’ شوہر کی ناشکری کرتی ہیں ، وہ (خاوند کے) احسان کی ناشکری کرتی ہیں ، اگر تم نے ان میں سے کسی سے زندگی بھر حسن سلوک کیا ہو ، پھر اگر وہ تمہاری طرف سے کوئی ناگوار چیز دیکھ لے تو وہ کہے گی : میں نے تو تمہاری طرف سے کبھی کوئی خیر دیکھی ہی نہیں ۔‘‘ متفق علیہ ۔
عائشہ ؓ سے ، ابن عباس ؓ کی مثل حدیث مروی ہے ، انہوں نے فرمایا : پھر آپ ﷺ نے سجدہ کیا ، تو سجدوں کو لمبا کیا ، پھر آپ نماز سے فارغ ہوئے تو سورج گرہن ختم ہو چکا تھا ، آپ ﷺ نے خطبہ ارشاد فرمایا اللہ کی حمد و ثنا بیان کی ، فرمایا :’’ آفتاب و ماہتاب اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ۔‘‘ یہ کسی کی موت و حیات سے نہیں گہنائے ، پس جب تم یہ دیکھو تو اللہ سے دعائیں کرو ، اس کی کبریائی بیان کرو ، نماز پڑھو اور صدقہ کرو ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ امت محمد (ﷺ) ! اللہ کی قسم ! اللہ سے بڑھ کر کوئی غیرت مند نہیں ہے کہ اس کا بندہ یا اس کی لونڈی زنا کرے ۔ امت محمد ! اللہ کی قسم ! اگر تم اس بات کو جان لو جو میں جانتا ہوں ، تو تم بہت ہی کم ہنسو اور بہت زیادہ روؤ ۔‘‘ متفق علیہ ۔
ابوموسی ؓ بیان کرتے ہیں ، سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ گھبراہٹ کے عالم میں کھڑے ہوئے جیسے قیامت آ گئی ہو ، آپ ﷺ مسجد میں تشریف لائے اور اس قدر قیام و رکوع اور سجدوں کو طویل کر کے نماز پڑھی کہ میں نے آپ کو ایسے کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا ، اور آپ ﷺ نے فرمایا :’’ یہ نشانیاں جو اللہ بھیجتا ہے یہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں ہوتیں ، لیکن ان کے ذریعے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے ، جب تم اس طرح کی کوئی چیز دیکھو تو تم اس کے ذکر ، اس سے دعا کرنے اور اس سے مغفرت طلب کرنے کی طرف توجہ کرو (اور اس کی پناہ حاصل کرو) ۔‘‘ متفق علیہ ۔
جابر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے دور میں رسول اللہ ﷺ کے بیٹے ابراہیم کی وفات کے روز ، سورج گرہن ہوا تو آپ ﷺ نے صحابہ کو چھ رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ (دو رکعت) نماز پڑھائی ۔ رواہ مسلم ۔
ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں ، جب سورج گرہن ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے آٹھ رکوع اور چار سجدوں کے ساتھ نماز پڑھائی ۔ رواہ مسلم ۔
وَعَن عَليّ مثل ذَلِك. رَوَاهُ مُسلم
علی ؓ سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ رواہ مسلم ۔
عبدالرحمن بن سمرہ ؓ بیان کرتے ہیں ، میں رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں مدینہ میں تیر اندازی کر رہا تھا کہ اچانک سورج گرہن ہوا ، میں نے وہ تیر (ادھر ہی) پھینکے اور کہا : اللہ کی قسم میں دیکھوں گا کہ سورج گرہن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کیا نئی تعلیم ارشاد فرماتے ہیں ، وہ بیان کرتے ہیں ، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ ہاتھ اٹھائے کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں ، آپ تسبیح و تہلیل ، تکبیر و تحمید اور دعا کرنے لگے ، حتیٰ کہ سورج گرہن ختم ہو گیا تو آپ نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکعتیں ادا فرمائیں ۔ صحیح مسلم اور شرح السنہ میں عبدالرحمن بن سمرہ ؓ سے مروی ہے جبکہ مصابیح کے نسخوں میں جابر بن سمرہ ؓ سے مروی ہے ۔ رواہ مسلم والبغوی فی شرح السنہ ۔
اسماء بنت ابی بکر ؓ بیان کرتی ہیں ، نبی ﷺ نے سورج گرہن کے موقع پر غلام آزاد کرنے کا حکم فرمایا ۔ رواہ البخاری ۔
سمرہ بن جندب ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے سورج گرہن کے موقع پر ہمیں نماز پڑھائی تو ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔ اسنادہ حسن ، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی و ابن ماجہ ۔
عکرمہ ؓ بیان کرتے ہیں، ابن عباس ؓ کو بتایا گیا کہ نبی ﷺ کی فلاں زوجہ محترمہ وفات پا گئی ہیں ۔ تو وہ (یہ سن کر) فوراً سجدہ ریز ہو گئے ، ان سے عرض کیا گیا ، آپ اس وقت سجدہ کرتے ہیں ؟ انہوں نے بیان کیا ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جب تم کوئی نشانی دیکھو تو سجدہ کرو ۔‘‘ اور نبی ﷺ کی ازواج مطہرات کے فوت ہو جانے سے بڑی نشانی کون سی ہو سکتی ہے ؟ اسنادہ حسن ، رواہ ابوداؤد و الترمذی ۔
ابی بن کعب ؓ فرماتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے دور میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے صحابہ کو نماز پڑھائی پس آپ نے (پہلی رکعت میں) لمبی سورت تلاوت فرمائی ، پانچ رکوع اور دو سجدے کیے ، پھر دوسری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے تو اس میں بھی لمبی سورت تلاوت فرمائی ، پانچ رکوع اور دو سجدے کیے ، پھر آپ ﷺ قبلہ رخ بیٹھ کر دعا کرتے رہے حتیٰ کہ سورج گرہن ختم ہو گیا ۔ ضعیف ۔
نعمان بن بشیر ؓ بیان کرتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ کے دور میں سورج گرہن ہوا تو آپ ﷺ دو دو رکعتیں پڑھتے اور (دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد) سورج گرہن کے متعلق پوچھتے حتیٰ کہ سورج گرہن ختم ہو گیا ۔ ابوداؤد اور نسائی کی روایت میں ہے کہ جب سورج گرہن ہوا تو نبی ﷺ نے ہماری نماز کی طرح ہمیں نماز پڑھائی ، آپ رکوع و سجود فرماتے تھے اور نسائی کی دوسری روایت میں ہے : سورج گرہن لگ چکا تو نبی ﷺ جلدی کے ساتھ مسجد میں تشریف لائے ، نماز پڑھائی حتیٰ کہ سورج گرہن ختم ہو گیا ، پھر فرمایا :’’ اہل جاہلیت کہا کرتے تھے : سورج اور چاند اہل زمین کی کسی عظیم شخصیت کی وفات پر ہی گہناتے ہیں ، جبکہ سورج اور چاند کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں گہناتے ، بلکہ وہ تو اللہ کی مخلوق ہیں ، اللہ اپنی مخلوق میں جو چاہے سو کرتا ہے ۔ ان دونوں میں سے جو بھی گہنا جائے تو نماز پڑھو حتیٰ کہ وہ (گرہن) ختم ہو جائے یا اللہ کوئی نیا معاملہ ظاہر فرما دے ۔‘‘ ضعیف ۔