Abu Musa reported: We were in Yemen when we heard of the migration of Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ). We also set out as immigrants to him. And I was accompanied by two brothers of mine, I being the youngest of them; one of them was Abu Burda and the other one was Abu Ruhm, and there were some other persons with them. Some say they were fifty-three or fifty-two persons of my tribe. We embarked upon a boat, and the boat sailed away to the Negus of Abyssinia. There we met Ja'far b. Abu Talib and his companions. Ja'far said: Allall's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) has sent us here and has commanded us to stay here and you should also stay with us. So we stayed with him and we came back (to Medina) and met Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) when Khaibar had been conquered. He (the Holy Prophet) allocated a share to us and in the ordinary course he did not allocate the share to one who had been absent on the occasion of the conquest of Khaibar but conferred (a share) upon him only who had been present there with him. He, however, made an exception for the people of the boat, viz. for Ja'far and his companions. He allocated a share to them, and some persons from amongst the people said to us, viz. the people of the boat: We have preceded you in migration. Asma' bint 'Umais who had migrated to Abyssinia and had come back along with them (along with immigrants) visited Hafsa, the wife of Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ). (Accordingly), Umar had been sitting with her (Hafsa). As 'Umar saw Asma, he said: Who is she? She (Hafsa) said: She is Asma, daughter of 'Umais. He said: She is an Abyssinian and a sea-woman. Asma said: Yes, it is so. Thereupon 'Umar said: We preceded you in migration and so we have more right to Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) as compared with you. At this she felt annoyed and said: 'Umar, you are not stating the fact; by Allah, you had the privilege of being in the company of the Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) who fed the hungry among you and instructed the ignorant amongst you, whereas we had been far (from here) in the land of Abyssinia amongst the enemies and that was all for Allah and Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) and, by Allah, I would never take food nor take water unless I make a mention to Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) of what you have said. We remained in that country in constant trouble and dread and I shall talk about it to Allah's Messenger (way peace be upon him) and ask him (about it). By Allah, I shall not tell a lie and deviate (from the truth) and add anything to that. So, when Allah's Apostle ( صلی اللہ علیہ وسلم ) came, she said: Allah's Apostle, 'Umar says so and so. Upon this Allah's Messenger ( صلی اللہ علیہ وسلم ) said: His right is not more than yours, for him and his companions there is one migration, but for you, i. e. for the people of the boat, there are two migrations. She said: I saw Abu Musa and the people of the boat coming to me in groups and asking me about this hadith, because there was nothing more pleasing and more significant for them than this. Abu Burda reported that Asma said: I saw Abu Musa, asking me to repeat this hadith to him again and again.
بُرَید نے ابو بُردہ سے انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ، کہا : ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( مکہ سے ) نکلنے کی خبر ملی تو ہم یمن میں تھے ۔ ہم ( بھی ) آپ کی طرف ہجرت کرتے ہو ئے نکل پڑے ۔ میں میرے دو بھا ئی جن سے میں چھوٹا تھا ۔ ایک ابو بردہ اور دوسرا ابو رہم ۔ ۔ ۔ اور میری قوم میں سے پچاس سے کچھ اوپریا کہا : تریپن یا باون لوگ ( نکلے ) ۔ ۔ کہا : ہم کشتی میں سوار ہو ئے تو ہماری کشتی نے ہمیں حبشہ میں نجا شی کے ہاں جا پھینکا ۔ اس کے ہاں ہم حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ اکٹھے ہو گئے ۔ جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہاں بھیجا ہے اور ہمیں یہاں ٹھہرنے کا حکم دیا ہے تم لو گ بھی ہمارے ساتھ یہیں ٹھہرو ۔ کہا : ہم ان کے ساتھ ٹھہرگئے ۔ حتی کہ ہم سب اکٹھے ( واپس ) آئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( عین ) اس وقت آکر ملے جب آپ نے خیبر فتح کیا تو آپ نے ہمارا بھی حصہ نکا لا یا کہا : ہمیں بھی اس مال میں سے عطا فر ما یا : آپ نے کسی شخص کو بھی جو فتح خیبر میں مو جود نہیں تھا کو ئی حصہ نہیں دیا تھا ، سوائے ان لوگوں کے جو آپ کے ساتھ ( فتح میں ) شریک تھے مگر حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں کے ہمراہ ہماری کشتی والوں کو دیا ، ان کے لیے ان ( فتح میں شریک ہو نے والوں ) کے ساتھ ہی حصہ نکا لا ۔ کہا : تو ان میں سے کچھ لوگ ہمیں ۔ ۔ ۔ یعنی کشتی والوں کو ۔ ۔ ۔ کہتے تھے ، ہم نے ہجرت میں تم سے سبقت حاصل کی ۔
Same as Hadees 6410
کہا : ( تو ایسا ہوا کہ حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی ) اسماء بن عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ ان لوگوں میں سے تھیں جو ہمارے ساتھ آئے تھے ۔ ملنے کے لئے ام المومنین حضت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پا س گئیں ۔ ہی بھی نجاشی کی طرف ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ہجرت کرکے گئی تھیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اور سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا ان کے پاس موجود تھیں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسماء رضی اللہ عنہا کو دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ یہ اسماء بنت عمیس ہے ۔ تو انہوں نے کہا کہ جو حبش کے ملک میں گئی تھیں اور اب سمندر کا سفر کر کے آئی ہیں؟ اسماء رضی اللہ عنہا بولیں جی ہاں میں وہی ہوں ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ہجرت میں تم سے سبقت لے گئے ، لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تم سے زیادہ ہمارا حق ہے ۔ یہ سن کر انہیں غصہ آ گیا اور کہنے لگیں ”اے عمر! اللہ کی قسم ہرگز نہیں ، تم نے جھوٹ کہا ۔ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے ، تم میں سے بھوکے کو کھانا کھلاتے اور تمہارے جاہل کو نصیحت کرتے تھے اور ہم ایک دور دراز دشمنوں کی زمین حبشہ میں تھے ، اور ہماری یہ سب تکالیف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ میں تھیں ۔ اللہ کی قسم! مجھ پر اس وقت تک کھانا پینا حرام ہے جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہاری بات کا ذکر نہ کر لوں اور ہم کو ایذا دی جاتی تھی اور ہمیں ہر وقت خوف رہتا تھا ۔ عنقریب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کروں گی ، ان سے پوچھوں گی اور اللہ کی قسم نہ میں جھوٹ بولوں گی ، نہ میں کجروی کروں گی اور نہ میں اس سے زیادہ کہوں گی“ ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! عمر رضی اللہ عنہ نے اس اس طرح کہا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے زیادہ کسی کا حق نہیں ہے ۔ کیونکہ عمر ( رضی اللہ عنہ ) اور ان کے ساتھیوں کی ایک ہجرت ہے اور تم کشتی والوں کی تو دو ہجرتیں ہوئیں ( ایک مکہ سے حبش کو اور دوسری حبش سے مدینہ طیبہ کو ) ۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوموسیٰ اور کشتی والوں کو دیکھا کہ وہ گروہ در گروہ میرے پاس آتے اور اس حدیث کو سنتے تھے ۔ اور دنیا میں کوئی چیز ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے زیادہ خوشی کی نہ تھی نہ اتنی بڑی تھی ۔ سیدنا ابوبردہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ سیدہ اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا کہ میں نے ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا کہ وہ مجھ سے اس حدیث کو ( خوشی کے لئے ) باربار سننا چاہتے ۔