صحیح مسلم

Sahih Muslim

کتاب: مسجدیں اور نماز کی جگہیں

The book of mosques and places of prayer

فوت شدہ نماز کی قضا اور اس میں جلدی کرنا مستحب ہے

Chapter: Making up a missed prayer. And it is recommended to hasten to make it up

حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَفَلَ مِنْ غَزْوَةِ خَيْبَرَ، سَارَ لَيْلَهُ حَتَّى إِذَا أَدْرَكَهُ الْكَرَى عَرَّسَ، وَقَالَ لِبِلَالٍ: «اكْلَأْ لَنَا اللَّيْلَ»، فَصَلَّى بِلَالٌ مَا قُدِّرَ لَهُ، وَنَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، فَلَمَّا تَقَارَبَ الْفَجْرُ اسْتَنَدَ بِلَالٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ مُوَاجِهَ الْفَجْرِ، فَغَلَبَتْ بِلَالًا عَيْنَاهُ وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى رَاحِلَتِهِ، فَلَمْ يَسْتَيْقِظْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا بِلَالٌ، وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِهِ حَتَّى ضَرَبَتْهُمُ الشَّمْسُ، فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّلَهُمُ اسْتِيقَاظًا، فَفَزِعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «أَيْ بِلَالُ» فَقَالَ بِلَالُ: أَخَذَ بِنَفْسِي الَّذِي أَخَذَ - بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللهِ - بِنَفْسِكَ، قَالَ: «اقْتَادُوا»، فَاقْتَادُوا رَوَاحِلَهُمْ شَيْئًا، ثُمَّ تَوَضَّأَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ بِلَالًا فَأَقَامَ الصَّلَاةَ، فَصَلَّى بِهِمُ الصُّبْحَ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ قَالَ: «مَنْ نَسِيَ الصَّلَاةَ فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا»، فَإِنَّ اللهَ قَالَ: {أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي} [طه: 14] قَالَ يُونُسُ: وَكَانَ ابْنُ شِهَابٍ: «يَقْرَؤُهَا لِلذِّكْرَى»

Abu Huraira reported that when the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) returned from the expedition to Khaibar, he travelled one night, and stopped for rest when he became sleepy. He told Bilal to remain on guard during the night and he (Bilal) prayed as much as he could, while the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) and his Companions slept. When the time for dawn approached Bilal leaned against his camel facing the direction from which the dawn would appear but he was overcome by sleep while he was leaning against his camel, and neither the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) nor Bilal, nor anyone else among his Companions got up, till the sun shone on them. Allah's Messenger ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) was the first of them to awake and, being startled, he called to Bilal who said: Messenger of Allah I may my father and mother be offered as ransom for thee, the same thing overpowered me which overpowered you. He (the Holy Prophet, then) said: Lead the beasts on: so they led their camels to some distance. The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) then performed ablution and gave orders to Bilal who pronounced the Iqama and then led them in the morning prayer. When he finished the prayer he said: When anyone forgets the prayer, he should observe it when he remembers it, for Allah has said: And observe the prayer for remembrance of Me (Qur'an. xx. 14). Yunus said: Ibn Shilab used to recite it like this: (And observe the prayer) for remembrance.

) یونس نے ابن شہاب کے حوالے سے خبردی ، انھوں نے سعید بن مسیب سے اور انھوں نے حضرت ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ جب جنگ خیبر سے واپس ہوئے تو رات بھر چلتے رہے یہاں تک کہ جب آپ کو نیند نے آلیا ، آپ نے ( سواری سے ) اتر کر پڑاؤ کیا اور بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے کہا : ’’ہمارے لیے رات کا پہرہ دو ( نظر رکھو کہ کب صبح ہوتی ہے ؟ ) ‘ ‘ بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے مقدور بھر نماز پڑھی ، رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ سو گئے ۔ جب فجر قریب ہوئی تو بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے ( مطلع ) فجر کی طرف رخ کرتے ہوئے اپنی سواری کے ساتھ ٹیک لگائی ، جب وہ ٹیک لگائے ہوئے تھے تو ان پر نیند غالب آگئی ، چنانچہ رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے نہ بلال اور نہی ہی ان کے صحابہ میں سے کوئی بیدار ہوا یہاں تک کہ ان پر دھوپ پڑنے لگی ، سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے اور گھبرا گئے ۔ فرمانے لگے : ’’اے بلال! ‘ ‘ تو بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : میری جان کو بھی اسی نے قبضے میں لیا تھا جس نے ۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان اے اللہ کے رسول ! ---آپ کی جان کو قبضے میں لے لیا تھا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’سواریاں آگے بڑھاؤ ۔ ‘ ‘ وہ اپنی سواریوں کو لے کر کچھ آگے بڑھے ، پھر رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا اور بلال ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کو حکم دیا ، انھوں نے نماز کی اقامت کہی ، پھر آپ نے ان کو صبح کی نماز پڑھائی ، جب نماز ختم کی تو فرمایا : ’’ جو شخص نماز ( پڑھنا ) بھول جائے تو جب اسے یاد آئے اسے پڑھے ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ میری یاد کے وقت نماز قائم کرو ۔ ‘ ‘ یونس نے کہا : ابن شہاب سے ’’للذکرٰی ‘ ‘ ( یاد کرنے کےلیے ) پڑھتے تھے

وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، كِلاَهُمَا عَنْ يَحْيَى، - قَالَ ابْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، - حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ كَيْسَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ عَرَّسْنَا مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَلَمْ نَسْتَيْقِظْ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ لِيَأْخُذْ كُلُّ رَجُلٍ بِرَأْسِ رَاحِلَتِهِ فَإِنَّ هَذَا مَنْزِلٌ حَضَرَنَا فِيهِ الشَّيْطَانُ ‏ ‏ ‏.‏ قَالَ فَفَعَلْنَا ثُمَّ دَعَا بِالْمَاءِ فَتَوَضَّأَ ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ - وَقَالَ يَعْقُوبُ ثُمَّ صَلَّى سَجْدَتَيْنِ - ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ فَصَلَّى الْغَدَاةَ ‏.‏

Abu Huraira reported: We stopped for rest along with the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) and did not awake till the sun rose. The Apostle of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) then told us that everybody should take hold of his camel's nosestring (get out of this ground) for it was the place where devil had visited us. We did accordingly. He then called for water and performed ablution and then performed two prostrations. Ya'qub said: Then he prayed (performed) two prostrations. then takbir was pronounced for prayer and then he offered the morning prayer (in congregation).

ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ ایک شب ہم آخر رات میں نبی ﷺ کے ساتھ اترے اور نہ جاگے یہاں تک کہ سورج نکل آیا تب نبی ﷺ نے فرمایا کہ ہر شخص اونٹ کی نکیل پکڑے کہ یہ مکان ہے شیطان کا ۔ پھر ہم نے ایسا ہی کیا ( یعنی اس میدان سے باہر ہوگئے ) ۔ پھر پانی منگایا اور وضو کیا اور دو رکعت نماز پڑھی ۔ اور یعقوب نے سجدہ کی بجائے صلی کہا پھر نماز کی تکبیر ہوئی اور صبح کی فرض نماز ادا کی ۔

وَحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «إِنَّكُمْ تَسِيرُونَ عَشِيَّتَكُمْ وَلَيْلَتَكُمْ، وَتَأْتُونَ الْمَاءَ إِنْ شَاءَ اللهُ غَدًا»، فَانْطَلَقَ النَّاسُ لَا يَلْوِي أَحَدٌ عَلَى أَحَدٍ، قَالَ أَبُو قَتَادَةَ: فَبَيْنَمَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ، وَأَنَا إِلَى جَنْبِهِ، قَالَ: فَنَعَسَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَالَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَأَتَيْتُهُ فَدَعَمْتُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ أُوقِظَهُ حَتَّى اعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، قَالَ: ثُمَّ سَارَ حَتَّى تَهَوَّرَ اللَّيْلُ، مَالَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، قَالَ: فَدَعَمْتُهُ مِنْ غَيْرِ أَنْ أُوقِظَهُ حَتَّى اعْتَدَلَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، قَالَ: ثُمَّ سَارَ حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ السَّحَرِ، مَالَ مَيْلَةً هِيَ أَشَدُّ مِنَ الْمَيْلَتَيْنِ الْأُولَيَيْنِ، حَتَّى كَادَ يَنْجَفِلُ، فَأَتَيْتُهُ فَدَعَمْتُهُ، فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: «مَنْ هَذَا؟» قُلْتُ: أَبُو قَتَادَةَ، قَالَ: «مَتَى كَانَ هَذَا مَسِيرَكَ مِنِّي؟» قُلْتُ: مَا زَالَ هَذَا مَسِيرِي مُنْذُ اللَّيْلَةِ، قَالَ: «حَفِظَكَ اللهُ بِمَا حَفِظْتَ بِهِ نَبِيَّهُ»، ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَرَانَا نَخْفَى عَلَى النَّاسِ؟»، ثُمَّ قَالَ: «هَلْ تَرَى مِنْ أَحَدٍ؟» قُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ، ثُمَّ قُلْتُ: هَذَا رَاكِبٌ آخَرُ، حَتَّى اجْتَمَعْنَا فَكُنَّا سَبْعَةَ رَكْبٍ، قَالَ: فَمَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الطَّرِيقِ، فَوَضَعَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ: «احْفَظُوا عَلَيْنَا صَلَاتَنَا»، فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالشَّمْسُ فِي ظَهْرِهِ، قَالَ: فَقُمْنَا فَزِعِينَ، ثُمَّ قَالَ: «ارْكَبُوا»، فَرَكِبْنَا فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا ارْتَفَعَتِ الشَّمْسُ نَزَلَ، ثُمَّ دَعَا بِمِيضَأَةٍ كَانَتْ مَعِي فِيهَا شَيْءٌ [ص:473] مِنْ مَاءٍ، قَالَ: فَتَوَضَّأَ مِنْهَا وُضُوءًا دُونَ وُضُوءٍ، قَالَ: وَبَقِيَ فِيهَا شَيْءٌ مَنْ مَاءٍ، ثُمَّ قَالَ لِأَبِي قَتَادَةَ: «احْفَظْ عَلَيْنَا مِيضَأَتَكَ، فَسَيَكُونُ لَهَا نَبَأٌ»، ثُمَّ أَذَّنَ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى الْغَدَاةَ، فَصَنَعَ كَمَا كَانَ يَصْنَعُ كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ: وَرَكِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَكِبْنَا مَعَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ بَعْضُنَا يَهْمِسُ إِلَى بَعْضٍ مَا كَفَّارَةُ مَا صَنَعْنَا بِتَفْرِيطِنَا فِي صَلَاتِنَا؟ ثُمَّ قَالَ: «أَمَا لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ»، ثُمَّ قَالَ: «أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ فِيَّ النَّوْمِ تَفْرِيطٌ، إِنَّمَا التَّفْرِيطُ عَلَى مَنْ لَمْ يُصَلِّ الصَّلَاةَ حَتَّى يَجِيءَ وَقْتُ الصَّلَاةَ الْأُخْرَى، فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَلْيُصَلِّهَا حِينَ يَنْتَبِهُ لَهَا، فَإِذَا كَانَ الْغَدُ فَلْيُصَلِّهَا عِنْدَ وَقْتِهَا»، ثُمَّ قَالَ: «مَا تَرَوْنَ النَّاسَ صَنَعُوا؟» قَالَ: ثُمَّ قَالَ: «أَصْبَحَ النَّاسُ فَقَدُوا نَبِيَّهُمْ»، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ: رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَكُمْ، لَمْ يَكُنْ لِيُخَلِّفَكُمْ، وَقَالَ النَّاسُ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ، فَإِنْ يُطِيعُوا أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ يَرْشُدُوا، قَالَ: فَانْتَهَيْنَا إِلَى النَّاسِ حِينَ امْتَدَّ النَّهَارُ، وَحَمِيَ كُلُّ شَيْءٍ، وَهُمْ يَقُولُونَ: يَا رَسُولَ اللهِ هَلَكْنَا، عَطِشْنَا، فَقَالَ: «لَا هُلْكَ عَلَيْكُمْ»، ثُمَّ قَالَ: «أَطْلِقُوا لِي غُمَرِي» قَالَ: وَدَعَا بِالْمِيضَأَةِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُبُّ، وَأَبُو قَتَادَةَ يَسْقِيهِمْ، فَلَمْ يَعْدُ أَنْ رَأَى النَّاسُ مَاءً فِي الْمِيضَأَةِ تَكَابُّوا عَلَيْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحْسِنُوا الْمَلَأَ كُلُّكُمْ سَيَرْوَى» قَالَ: فَفَعَلُوا، فَجَعَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُبُّ وَأَسْقِيهِمْ حَتَّى مَا بَقِيَ غَيْرِي، وَغَيْرُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ صَبَّ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي: «اشْرَبْ»، فَقُلْتُ: لَا أَشْرَبُ حَتَّى تَشْرَبَ يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «إِنَّ سَاقِيَ الْقَوْمِ آخِرُهُمْ شُرْبًا»، قَالَ: فَشَرِبْتُ، وَشَرِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَى النَّاسُ الْمَاءَ جَامِّينَ رِوَاءً، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ رَبَاحٍ: إِنِّي لَأُحَدِّثُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، إِذْ قَالَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ انْظُرْ أَيُّهَا الْفَتَى كَيْفَ تُحَدِّثُ، فَإِنِّي أَحَدُ الرَّكْبِ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، قَالَ: قُلْتُ: فَأَنْتَ أَعْلَمُ بِالْحَدِيثِ، فَقَالَ: مِمَّنْ أَنْتَ؟ قُلْتُ: مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: حَدِّثْ، فَأَنْتُمْ أَعْلَمُ بِحَدِيثِكُمْ، قَالَ: فَحَدَّثْتُ الْقَوْمَ، فَقَالَ عِمْرَانُ: لَقَدْ شَهِدْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ، وَمَا شَعَرْتُ أَنْ أَحَدًا حَفِظَهُ كَمَا حَفِظْتُهُ

Abu Qatida reported: The Messenger of Allah (way peace be upon him) addressed us and said: You would travel In the evening and the might till (God willing) you would come in the morning to a place of water. So the people travelled (self absorbed) without paying any heed to one another, and the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) also travelled till It was midnight. I was by his side. The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) began to doze and leaned (to one side) of his camel. I came to him and I lent him support without awaking him till he sat poised on his ride. He went on travelling till a major part of the night was over and (he again) leaned (to one side) of his camel. I supported him without awaking him till he sat bed on his ride. and then travelled till it was near dawn. He (again) leaned which was far more inclined than the two earlier leanings and he was about to fall down. So I came to him and supported him and he lifted his head and said; Who is this? I said: it is Abu Qatida. He (the Prophet again) said: Since how long have you been travelling along with me like this? I said: I have been travelling in this very state since the night. He said: May Allah protect you, as you have protected His Apostle (from falling down), and again said: Do you see that we are hidden from the people? - and again said: Do you see anyone? I said: Here is a rider. I again said: Here Is another rider till we gathered together and we were seven riders. The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) stepped aside of the highway and placed his head (for sleep and said): Guard for us our prayers. The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) was the first to wake up and the rays of the sun were falling on his back. We got up startled He (the Holy Prophet) said: Ride on So we rode on till the sun had (sufficiently) risen. He then came down from his camel and called for a jug of water which I had with me. There was a little water in that. He performed ablution with that which was less thorough as compared with his usual ablutions and some water of that had been left. He (the Holy Prophet) said to Abu Qatida: Keep a watch over your jug of water; it would have (a miraculous) condition about it. Then Bilal summoned (people) to prayer and then the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) observed two rak'ahs and then said the morning prayer as he said every day. The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) (then) rode on and we rode along with him and some of us whispered to the others saying: How would there be compensation for omission in our prayers? Upon this he (the Messenger of Allah) said: Is there not in me (my life) a model for you? There is no omission in sleeping. The (cognizable) emission is that one should not say prayer (intentionally) till the time of the other prayer comes. So he who did like it (omitted prayer in sleep or due to other unavoidable circumstances) should say prayer when he becomes aware of it and on the next day he should observe it at its prescribed time. He (the Holy Prophet) said: What do you think the people would have done (at this hour)? They would have in the morning found their Apostle missing from amongst them and then Abu Bakr and 'Umar would have told them that the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) must be behind you, he cannot leave you behind (him), but the people said: The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) is ahead of you. So if you had obeyed Abu Bakr and Umar, you would have gone on the right path. So we proceeded on till we came up to the people (from whom we had lagged behind) and the day had considerably risen and everything became hot, and they (the Companions of the Holy Prophet) said: Messenger of Allah, we are dying of thirst. Upon this he (the Holy Prophet) remarked: There is no destruction for you. And again said: Bring that small cup of mine and he then asked for the jug of water to be brought to him. The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) began to pour water (in that small cup) and Abu Qatida gave them to drink. And when the people saw that there was (a little) water in the jug, they fell upon it. Upon this the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: Behave well; the water (is enough) to satiate all of you. Then they (the Companions) began to receive (their share of) water with calmness (without showing any anxiety) and the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) began to fill (the cap), and I began to serve them till no one was left except me and the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ). He then filled (the cup) with water and said to me: Drink it. I said: Messenger of Allah, I would not drink till you drink. Upon this he said: The server of the people Is the last among them to drink. So I drank and the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) also drank and the people came to the place of water quite happy and satiated. 'Abdullah b. Rabah said: I am going to narrate this hadith in the great mosque, when 'Imran b. Husain said: See, O young man, how will you narrate for I was also one of the riders on that night? I said: So you must be knowing this hadith well. He said: Who are you? I said: I am one of the Ansar. Upon this he said: You narrate, for you know your hadith better. I, therefore, narrated it to the people. 'Imran said: I was also present that night, but I know not anyone else who learnt it so well as you have learnt.

ثابت نے عبداللہ بن رباح سے اور انھوں نے حضرت ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےر وایت کی ، کہا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں خطاب فرمایا اور کہا : ’’تم اپنی ( پوری ) شام اور ( پوری ) رات چلتے رہو گے تو ان شاء اللہ کل تک پانی پر پہنچ جاؤ گے ۔ ‘ ‘ لوگ چل پڑے ، کوئی مڑ کر دوسرے کی طرف دیکھتا بھی نہ تھا ۔ ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : اسی عالم میں رسول اللہ ﷺچلتے رہے یہاں تک کہ رات آدھی گزر گئی ، میں آپ کے پہلو میں چل رہا تھا ، کہا : تو رسول اللہ ﷺ کو اونگھ آگئی اور آپ سواری سے ایک طرف جھک گئے ، میں آپ کے پاس آیا اور آپ کو جگائے بغیر آپ کو سہارا دیا حتی کہ آپ اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے ، پھر آپ چلتے رہے یہا ں تک کہ رات کا بیشتر حصہ گزر گیا ، آپ ( پھر ) سواری پر ( ایک طرف ) جھکے ، کہا : میں نے آپ کو جگائے بغیر آپ کو سہارا دیا یہاں تک کہ آپ اپنی سواری پر سیدھے ہو گئے ، کہا : پھر چلتے رہے حتی کہ سحری کا آخری وقت تھا تو آپ ( پھر ) جھکے ، یہ جھکنا پہلے دونزں بار کے جھکنے سے زیادہ تھا ، قریب تھا کہ آپ اونٹ سے گر پڑتے ، میں آپ کے پاس آیا اور آپ کو سہارا دیاتو آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا : ’’یہ کون ہے ؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : ابو قتادہ ہوں ۔ فرمایا : ’’تم کب سے میرے ساتھ اس طرح چل رہے ہو؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : میں رات ہی سے اس طرح سفر کر رہا ہوں ۔ فرمایا : ’’ اللہ اسی طرح تمھاری حفاظت کرے جس طر ح تم نے اس کے نبی کی حفاظت کی ۔ ‘ ‘ پھر فرمایا : ’’ کیا تم دیکھ رہے ہو ( کہ ) ہم لوگوں سے اوجھل ہیں ؟ ‘ ‘ پھر پوچھا : ’’تمھیں کوئی ( اور ) نظر آر ہا ہے ؟ ‘ ‘ میں نے عرض کی : یہ ایک سوار ہے ۔ پھر عرض کی : یہ ایک اور سوار ہے حتی کہ ہم اکٹھے ہوئے تو سات سوار تھے ، کہا : رسول اللہ ﷺ راستے سے ایک طرف ہٹے ، پھر سر ( نیچے ) رکھ دیا ( اور لیٹ گئے ) پھر فرمایا : ’’ ہمارے لیے ہماری نماز کا خیال رکھنا ۔ ‘ ‘ پھر جو سب سے پہلے جاگے وہ رسول اللہ ﷺ ہی تھے ، سورج آپ کی پشت پر ( چمک رہا ) تھا ، کہا : ہم سخت تشویش کے عالم میں کھڑے ہوئے ، پھر آپ نے فرمایا : ’’سوار ہوجاؤ ۔ ‘ ‘ ہم سوار ہوئے اور ( آگے ) چل پڑے حتی کہ جب سورج بلند ہو گیا تو آپ اترے ، پھر آپ نے وضو کا برتن مانگا جو میرے ساتھ تھا ، اسی میں کچھ پانی تھا ، کہا : پھر آپ نے اس سے ( مکمل ) وضو کے مقابلے میں کچھ ہلکا وضو کیا ، اور ا س میں کچھ پانی بچ بھی گیا ، پھر آپ نے ( مجھے ) ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے فرمایا : ’’ ہمارے لیے اپنے وضو کا برتن محفوظ رکھنا ، اس کی ایک خبر ہو گی ۔ ‘ ‘ پھر بلال ر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے نماز کے لیے اذان کہی ، رسول اللہ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں ، پھر آپ نے اسی طرح جس طرح روز کرتے تھے صبح کی نماز پڑھائی ، کہا : اور رسول اللہ ﷺ سوار ہو گئے ہم بھی آپ کی معیت میں سوار ہو گئے ، کہا : ہم میں سے کچھ لوگ ایک دوسرے سے کھسر پھر کرنے لگے کہ ہم نے نماز میں جو کوتاہی کی ہے اس کا کفارہ کیا ہے ؟ اس پر آپ نے فرمایا : ’’ کیا تمھارے لیے میر ے عمل میں نمونہ نہیں ؟ ‘ ‘ پھر آپ نے فرمایا : ’’ سمجھ لو ! نیند ( آجانے ) میں ( کسی کی ) کوئی کوتاہی نہیں ۔ ‘ ‘ کوتاہی اس کی ہے جس نے ( جاگنے کے بعد ) دوسری نماز کا وقت آجانے تک نماز نہیں پڑھی ، جو اس طرح ( نیند ) کرے تو جب اس کے لیے جاگے تو یہ نماز پڑھ لے ، پھر جب دوسرا دن آئے تو اسے وقت پر ادا کرے ۔ ‘ ‘ پھر فرمایا : ’’تم کیا دیکھتے ہو ( دوسرے ) لوگوں نےکیا کیا ؟ ‘ ‘ کہا : پھر آپ نے فرمایا : ’’لوگوں نے صبح کی تو اپنے نبی کو گم پایا ۔ ابو بکر اور عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : اللہ کے رسول ﷺ تمھارے پیچھے ہیں ، وہ ایسے نہیں کہ تمھیں پیچھے چھوڑ دیں ۔ ( دوسرے ) لوگوں نے کہا : بے شک رسول اللہ ﷺ تم سے آگے ہیں ۔ اگر وہ ابو بکر اور عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کی ا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ اعت کریں تو صحیح راستے پر چلیں گے ۔ ‘ ‘ کیا : تو ہم لوگوں تک ( اس وقت ) پہنچ پائے جب دن چڑھ آیا تھا اور ہر شے تپ گئی تھی اور وہ کہہ رہے تھے : اے اللہ کے رسول ! ہم پیا سے مر گئے ۔ تو آپ نے فرمایا : ’’ تم پر کوئی ہلاکت نہیں آئی ۔ ‘ ‘ پھر فرمایا : ’’میرا چھوٹا پیالہ میرے پاس آنے دو ۔ ‘ ‘ کہا : پھر وضو کے پانی والا برتن منگوایا ، رسول اللہ ﷺ ( اس سے پیالے میں ) انڈیلتے گئے اور ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ لوگوں کو پلاتے گئے ، زیاد دیر نہ گزری تھ کہ لوگوں نے وضو کے برتن کیں جو ( تھوڑا سا پانی ) تھا ، دیکھ لیا ، اس بر جھرمٹ بناکر اکٹھے ہو گے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اچھا طریقہ اختیار کرو ، تم میں سے ہر ایک اچھی طرح پیاس بجھا لے گا ۔ ‘ ‘ کہا : لوگوں نے ایسا ہی کیا ، رسول اللہ ﷺ پانی ( پیالے میں ) انڈیلتے گئے اور میں لوگوں کو پلاتا گیا یہاں تک کہ میرے اور رسول اللہ ﷺ کے سوا اور کوئی نہ بچا ، کہا : رسول اللہ ﷺ نے پھر پانی ڈالا اور مجھ سے فرمایا : ’’ پیو ۔ ‘ ‘ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! جب تک آپ نہیں پی لیں گے میں نہیں پیوں گا ۔ فرمایا : ’’ قوم کو پانی پلانے والا ان سب سے آخر میں پیتا ہے ۔ ‘ ‘ کہا : تب میں نے پی لیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی نوش فرمایا ، کہا : اس کے بعد لوگ اس حالت میں ( اگلے ) پانی پر پہنچے کہ سب ( نے اپنے ) برتن پانی سے بھرے ہوئے تھے اور ( خوب ) سیراب تھے ۔ ( ثابت نے ) کہا ، عبداللہ بن رباح نے کہا : میں یہ حدیث جامع مسجد میں سب لوگوں کو سناؤں گا ۔ تب عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے فرمایا : اے جوان ! خیال رکھنا کہ تم کس طرح حدیث بیان کرتے ہو ، اس رات میں بھی قافلے کے سواروں میں سے ایک تھا ۔ کہا : میں نے عرض کی : آپ اس حدیث کو زیادہ جاننے والے ہیں ۔ تو انھوں نے پوچھا : تم کس قبیلے سے ہو ؟ میں میں نے کہا انصار سے ۔ فرمایا : حدیث بیان کرو تم اپنی احادیث سے زیادہ آگاہ ہو ( انصار میں سے ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے اس سارے واقعے کا سب سے زیادہ اور باریکی سے مشاہدہ کیا تھا بلکہ و ہ اس سارے واقعے میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ساتھ تھے ، آگے ان سے سننے والے عبداللہ بن رباح بھی انصار میں سے تھے ۔ ) کہا : میں نے لوگوں کو حدیث سنائی تو عمران ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ نے کہا : اس رات میں میں بھی موجود تھا اور مین نہیں سمجھتاکہ اسے کسی نے اس طرح یا در کھا جس طرح تم نے اسے یا درکھا ہے ۔

وَحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ صَخْرٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، حَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ زَرِيرٍ الْعُطَارِدِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيَّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسِيرٍ لَهُ، فَأَدْلَجْنَا لَيْلَتَنَا، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي وَجْهِ الصُّبْحِ عَرَّسْنَا، فَغَلَبَتْنَا أَعْيُنُنَا حَتَّى بَزَغَتِ الشَّمْسُ، قَالَ: فَكَانَ أَوَّلَ مَنِ اسْتَيْقَظَ مِنَّا أَبُو بَكْرٍ، وَكُنَّا لَا نُوقِظُ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ مَنَامِهِ إِذَا نَامَ [ص:475] حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، ثُمَّ اسْتَيْقَظَ عُمَرُ، فَقَامَ عِنْدَ نَبِيِّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يُكَبِّرُ، وَيَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَفَعَ رَأْسَهُ، وَرَأَى الشَّمْسَ قَدْ بَزَغَتْ، قَالَ: «ارْتَحِلُوا»، فَسَارَ بِنَا حَتَّى إِذَا ابْيَضَّتِ الشَّمْسُ نَزَلَ فَصَلَّى بِنَا الْغَدَاةَ، فَاعْتَزَلَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لَمْ يُصَلِّ مَعَنَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا فُلَانُ ‍‍ مَا مَنَعَكَ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَنَا؟» قَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ أَصَابَتْنِي جَنَابَةٌ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَيَمَّمَ بِالصَّعِيدِ، فَصَلَّى، ثُمَّ عَجَّلَنِي فِي رَكْبٍ بَيْنَ يَدَيْهِ نَطْلُبُ الْمَاءَ، وَقَدْ عَطِشْنَا عَطَشًا شَدِيدًا، فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ إِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ سَادِلَةٍ رِجْلَيْهَا بَيْنَ مَزَادَتَيْنِ، فَقُلْنَا لَهَا: أَيْنَ الْمَاءُ؟ قَالَتْ: أَيْهَاهْ أَيْهَاهْ، لَا مَاءَ لَكُمْ، قُلْنَا: فَكَمْ بَيْنَ أَهْلِكِ وَبَيْنَ الْمَاءِ؟ قَالَتْ: مَسِيرَةُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، قُلْنَا: انْطَلِقِي إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: وَمَا رَسُولُ اللهِ؟ فَلَمْ نُمَلِّكْهَا مِنْ أَمْرِهَا شَيْئًا حَتَّى انْطَلَقْنَا بِهَا، فَاسْتَقْبَلْنَا بِهَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهَا، فَأَخْبَرَتْهُ مِثْلَ الَّذِي أَخْبَرَتْنَا، وَأَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا مُوتِمَةٌ لَهَا صِبْيَانٌ أَيْتَامٌ، فَأَمَرَ بِرَاوِيَتِهَا فَأُنِيخَتْ فَمَجَّ فِي الْعَزْلَاوَيْنِ الْعُلْيَاوَيْنِ، ثُمَّ بَعَثَ بِرَاوِيَتِهَا، فَشَرِبْنَا وَنَحْنُ أَرْبَعُونَ رَجُلًا عِطَاشٌ حَتَّى رَوِينَا، وَمَلَأْنَا كُلَّ قِرْبَةٍ مَعَنَا وَإِدَاوَةٍ، وَغَسَّلْنَا صَاحِبَنَا، غَيْرَ أَنَّا لَمْ نَسْقِ بَعِيرًا، وَهِيَ تَكَادُ تَنْضَرِجُ مِنَ الْمَاءِ - يَعْنِي الْمَزَادَتَيْنِ - ثُمَّ قَالَ: «هَاتُوا مَا كَانَ عِنْدَكُمْ»، فَجَمَعْنَا لَهَا مِنْ كِسَرٍ وَتَمْرٍ، وَصَرَّ لَهَا صُرَّةً، فَقَالَ لَهَا: «اذْهَبِي فَأَطْعِمِي هَذَا عِيَالَكِ، وَاعْلَمِي أَنَّا لَمْ نَرْزَأْ مِنْ مَائِكِ»، فَلَمَّا أَتَتْ أَهْلَهَا قَالَتْ: لَقَدْ لَقِيتُ أَسْحَرَ الْبَشَرِ، أَوْ إِنَّهُ لَنَبِيٌّ كَمَا زَعَمَ، كَانَ مِنْ أَمْرِهِ ذَيْتَ وَذَيْتَ، فَهَدَى اللهُ ذَاكَ الصِّرْمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ، فَأَسْلَمَتْ وَأَسْلَمُوا

Imran b. Husain reported: I was with the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) in a journey. We travelled the whole of the night, and when it was about to dawn, we got down for rest, and were overpowered (by sleep) till the sun shone. Abu Bakr was the first to awake amongst us. and we did not awake the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) from his sleep allowing him to wake up (of his own accord). It was 'Umar who then woke up. He stood by the side of the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) and recited takbir in a loud voice till the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) woke up. When he lifted his head, he saw that the sun had arisen; he then said: Proceed on. He travelled along with us till the sun shone brightly. He came down (from his camel) and led us in the morning prayer. A person, however, remained away from the people and did not say, prayer along with us. After having completed the prayer, the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said to him: O, so and so, what prevented you from observing prayer with us? He said: Apostle of Allah! I was not in a state of purity. The Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) ordered him arid lie performed Tayammum with dust and said prayer. He then urged me to go ahead immediately along with other riders to find out water, for we felt very thirsty. We were traveling when we came across a woman who was sitting (on a camel) with her feet hanging over two leathern water bags. We said to her: How far is water available? She, said: Far, very far, very far. You cannot get water. We (again) said: How much distance is there between (the residence of) your family and water? She said: It is a day and night journey. We said to her: You go to the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ). She said: Who is the Messenger of Allah? We somehow or the other managed to bring her to the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) and he asked about her, and she informed him as she had informed us that she was a widow having orphan children. He ordered that her camel should be made to kneal down and he gargled in the opening (of her leathern water-bag). The camel was then raised up and we forty thirsty men drank water till we were completely satiated, and we filled up all leathern water-bags and water-skins that we had with us and we washed our companions, but we did not make any camel drink, and (the leathern water-bags) were about to burst (on account of excess of water). He then said: Bring whatever you have with you. So we collected the bits (of estable things) and dates and packed them up in a bundle, and said to her: Take it away. This is meant for your children, and know that we have not its any way done any loss to your water. W hen she came to her family she said: I have met the greatest magician amongst human beings, or he is an apostle, as he claims to be, and she then narrated what had happened and Allah guided aright those people through that woman. She affirmed her faith in Islam and so did the people embrace Islam.

سلم بن زریر عطاری نے کہا : میں نے ابو رجاء عطاری سے سنا ‘ وہ حضرت عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کر رہے تھے ‘ کہا : میں نبی ﷺ کے ایک میں آپﷺ کے ہمراہ تھا ‘ ہم اس رات چلتے رہے حتی کہ جب صبح قریب آئی تو ہم ( تھکاوٹ کے سبب ) اتر پڑے ‘ ہم پر ( نینج میں ڈوبی ) آنکھیں غالب آگئیں یہاں تک کہ سورج چمکنے لگا ۔ ہم میں جو سب سے پہلے بیدار ہوئے وہ حضرت ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ تھے ۔ جب نبیﷺ سو جاتے تو ہم آپ ﷺ کو جگایا نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ ﷺ خود بیدار ہو جاتے ‘ پھر عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ جاگے ‘ وہ اللہ کے نبی ﷺ کے قریب کھڑے ہو گے اور اللہ اکبر پکارنے لگے اور ( اس ) تکبیر میں آواز اونچی کرنے لگے یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ بھی جاگ گئے ‘ جب آپﷺنے سر اٹھایا اور دیکھا کہ سورج چمک رہا ہےتو فرمایا : ’ ( آگے ) چلو ۔ آپ ﷺ ہمیں لے کر چلے یہاں تک کہ سورج ( روشن ) ہو کر سفید ہو گیا ‘ آپ اتر ے ‘ ہمیں صبح کی نماز پڑھائی ۔ لوگوں میں سے ایک آدمی الگ ہو گیا اور اس نے ہمارے ساتھ نماز نہ پڑھی ‘ جب سلام پھیرا تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا : ’’فلاں!تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی ؟ ‘ ‘ اس نے کہا : اے اللہ کے نبی !مجھےےجنابت لاحق ہوگی ہے ۔ آپﷺنے اسے حکم دیا ۔ اس نے مٹی سے تیمم کیا اور نماز پڑھی ‘ پھرآپﷺنے مجھےےچند سواروں سمیت پانی کی تلاش میں جلدی اپنے آگے روانہ کیا ‘ ہم سخت پیاسے تھے ‘ جب ہم چل رہے تھے تو ہمیں ایک عورت ملی جس نے اپنے پاؤں دو مشکوں کے درمیان لٹکارکھےے تھے ( بقڑی مشکوں سمیت پاؤں لٹکائے ‘ اونٹ پر سوار تھی ) ‘ ہم نے اس سے پوچھا : پانی کہا ں ہے ؟کہنے لگی : افسوس !تمہارے لیے پانی نہیں ہے ۔ ہم نے پوچھا : تمہارے گھر اور پانی کے دریمان کتنا فاصلہ ہے ؟اس نے کہا : ایک دن اور رات کی مسافت ہے ۔ ہم نے کہا : اللہ کے رسول ﷺ کے پاس چلو ۔ کہنے لگی : اللہ کا رسول کیا ہوتا ہے ؟ہم نے اسے اس کے معاملے میں ( فیصلےکا ) کچھاختیار نہ دیا حتی کہ اسے لے آئےاس کے ساتھ ہم رسول اللہ ﷺکے سامنے حاضر ہوئے ‘ آپنے اس سے پوچھا تو اس نے آپکو اسی طرح بتایا جس طرح ہمیں بتایا تھا ‘ اور آپ کو یہ بھی بتایا کہ وہ یتیم بچوں والی ہے ‘ اس کے ( زیر کفالت ) بہت سے یتیم بچے ہیں ۔ آپ نے اس کی پانی ڈھونے والی اونٹنی کے بارے میں حکم دیا ‘ اسے بھٹا دیا گیا اور آپ نے کلی کر کے مسکوں کے اوپر کے دونوں سوراخوں میں پانی ڈالا ‘ پھر آپ نے اس کی اونٹنی کوکھرا کیا تو ہم سب نے اور ہم چالیس ( شدید ) پیاسے افراد تھے ( ان مشکوں سے ) پانی پیا یہاں تک کہ ہم سیراب ہو گے اور ےہمارے پاس جتنی مشکیں اور پانی کے برتن تھے سب بھر لیے اور اپنے ساتھی کو غسل بھی کرا یا ‘ التبہ ہم نےکسی اونٹ کو پانی نہ پیلایا اور وہ یعنی دونوں مشکیں پانی ( کی مقدار زیادہ ہو جانے کے سبب ) پھٹنے والی ہو گیئں ‘ پھر آپ نے فرمایا : ’’تمہارےپاس جو کچھ ہے ‘ لے آؤ ۔ ‘ ‘ ہم نے ٹکڑے اور کھجوریں اکٹھی کیں ‘ اس کے لیے ایک تھیلی کا منہ بند کر دیا گیا تو آپ نےاس سے کہا : ’’جاؤ اور یہ خوراک اپنے بچوں کو کھلا ؤ اور جان لو !ہم نے تمہارے پانی میں کمی نہیں ۔ ‘ ‘ جب وہ اپنے گھر والوں کے پاس پہنچی تو کہا : میں انسانوں کے سب سے بڑے ساحر سے مل کر آئی ہوں یا پھر جس طرحکہ وہ خود کو سمجھتا ہے ‘ وہ نبی ہے ‘ اور اس کا معملہ اس اس کرح سے ہے ۔ پھر ( آخر کار ) اللہ نے اس عورت کے سبب سے لوگوں سے کٹی ہوئی اس آبادی کو ہدایت عطا کر دی ‘ وہ مسلمان ہوگی اور ( باقی ) لوگ بھی مسلمان ہو گے ۔ ( یہ پچھلے واقعے سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ ہے ۔ )

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ الْأَعْرَابِيُّ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيِّ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَسَرَيْنَا لَيْلَةً حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ قُبَيْلَ الصُّبْحِ وَقَعْنَا تِلْكَ الْوَقْعَةَ الَّتِي لَا وَقْعَةَ عِنْدَ الْمُسَافِرِ أَحْلَى مِنْهَا، فَمَا أَيْقَظَنَا إِلَّا حَرُّ الشَّمْسِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ سَلْمِ بْنِ زَرِيرٍ، وَزَادَ وَنَقَصَ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَرَأَى مَا أَصَابَ النَّاسَ، وَكَانَ أَجْوَفَ جَلِيدًا، فَكَبَّرَ وَرَفَعَ صَوْتَهُ بِالتَّكْبِيرِ حَتَّى اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِشِدَّةِ صَوْتِهِ بِالتَّكْبِيرِ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَكَوْا إِلَيْهِ الَّذِي أَصَابَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا ضَيْرَ ارْتَحِلُوا» وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ

Imran b. Husain reported: We were with the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) in a journey and we travelled throughout the night till at the end, just before dawn, we lay down (for rest), and nothing is sweeter for a traveller than this and none awakened us but the heat of the sun, and the rest of the hadith is the same (as mentioned above) except this additien: When 'Umar b. Khattab woke up, he saw what had happened to the people. And he was a man having a big belly and strongly built; he recited takbir in a loud voice till the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) woke up by the loudness of his voice in takbir. When the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) got up, the people told him what had happened. Upon this the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: There is no harm; you better proceed further, and (the rest of the hadith) was narrated.

) عوف بن ابی جمیلہ اعرابی نے ابو رجاء عطاری سے ‘ انھوں نے حضرت عمران بن حصین ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ‘ کہا : ہم ایک سفر کے دوران میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے ‘ ہم ایک رات چلے ‘ جب رات کا آخری حصہ آیا ‘ صبح سے ٹھوڑی دیر پہلے ہم اس طرح پڑکر سو گئے کہ اس سے زیادہ میٹھی نیند ایک مسافر کے لیے اور کوئی نہیں ہو سکتی ‘ ہمیں سورج کی حرارت ہی نے جگایا ....پھر سلم بن زریر کی حدیث کی طرح حدیث سنائی اور کچھ کمی بیشی بھی اور ( اپنی روایت کردہ ) حدیث میں انھوں نے کہا : جب عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ جاگے اور لوگوں کی صورت حال دیکھی ‘ اور وہ بلند آواز آدمی تھے تو انھوں نے اونچی آواز سے اللہ اکبر کہا حتی کہ رسول اللہ ﷺ ان کے اونچے اللہ اکبرکہنے سے جاگ گئے ‘ جب اللہ کے رسول ﷺجاگ گئے تو لوگوں نے اپنے اس معاملے کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا : ’’کوئی ( بڑا ) نقصان نہیں ہوا ‘ ( آگئے ) چلو ۔ ‘ ‘ ......آگے وہی حدیث بیان کی ۔

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ فِي سَفَرٍ فَعَرَّسَ بِلَيْلٍ، اضْطَجَعَ عَلَى يَمِينِهِ، وَإِذَا عَرَّسَ قُبَيْلَ الصُّبْحِ نَصَبَ ذِرَاعَهُ، وَوَضَعَ رَأْسَهُ عَلَى كَفِّهِ»

Abu Qatada reported that when the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) was in a journey he got down for rest at night, and he used to lie down on his right side, and when he lay down for rest before the dawn, he used to stretch his forearm and place his head over his palm.

حضرت ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت ہے ‘ کہا : رسول اللہ ﷺجب سفر میں ہوتے اور رات ( کے آخری حصے ) میں آرام کے لیے لیٹے تو دائیں پہلو پر لیٹتے اور جب صبح سے ذرا پہلو پر لیٹتے تو اپنی کہنی کھڑی کر لیتے اور سر ہتھیلی پر ٹکا لیتے ۔ ( تاکہ زیادہ گہری نیند نہ آئے ۔ اس حدیث کے الفاظ بھی اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ اوپر بیان کیے گئے دو الگ الگواقعے ہیں ۔ )

حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا، لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ» قَالَ قَتَادَةُ: وَ {أَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي

Qatada reported from Anas b. Malik that the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: He who forgets the prayer should say it when he remembers it, there is no explation for it, except this. Qatada said: (Allah says) And observe prayer for remembrance of Me

ہمام نے ہمیں حدیث سنائی ‘ کہا : ہمیں قتادہ نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ کے حوالے سے حدیث سنائی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’جو شخص کوئی نماز بھول جائے تو جیسے ہی وہ اسے یاد آئے ‘ وہ نماز پڑھ لے ‘ اس نماز کا اس کے علاوہ اور کوئی کفارہ نہیں ۔ ‘ ‘

وَحَدَّثَنَاهُ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ لَا كَفَّارَةَ لَهَا إِلَّا ذَلِكَ

This hadith has been narrated by Qatada, but here no mention has been made of There is no explation for it except this.

ابو عوانہ نے قتادہ سے ‘ انھوں نے حضرت انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے اور انھوں نے نبی ﷺسے یہ ( یہی حدیث ) روایت کی ‘ البتہ انھوں نے ’’اس کے علاوہ اس کا اور کوئی کفارہ نہیں ‘ ‘ کے الفاظ روایت نہیں کیے ۔

وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ نَسِيَ صَلَاةً، أَوْ نَامَ عَنْهَا، فَكَفَّارَتُهَا أَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا»

Qatada narrated on the authority of Anas b. Malik that the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: He who forgets the prayer, or he slept (and it was omitted), its expiation is (only) that he should observe it when he remembers it.

سعید نے قتادہ سے اور انھوں نے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سےحدیث سنائی ‘ کہا : اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا : ‘ ‘ جو شخص کوئی نماز بھول گیا یا اسے ادا کرتے وقت سوتا رہ گیا تو اس ( نماز ) کا کفارہ یہی ہے کہ جب اسے یاد آئے وہ اس نماز کو پڑھ لے ۔ ‘ ‘

وَحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا رَقَدَ أَحَدُكُمْ عَنِ الصَّلَاةِ، أَوْ غَفَلَ عَنْهَا، فَلْيُصَلِّهَا إِذَا ذَكَرَهَا»، فَإِنَّ اللهَ يَقُولُ: {أَقِمِ الصَّلَاةِ لِذِكْرِي

Qatada reported it on the authority of Anas b. Malik that the Messenger of Allah ( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم ‌ ) said: When any one of you omits the prayer due to sleep or he forgets it, he should observe it when he remembers it, for Allah has said: Observe prayer for remembrance of Me.

مثنیٰ نے قتادہ کے حوالے سے حضرت انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ ‌ سے روایت کی ‘ کہا : رسول اللہ ﷺنے فرمایا : ’’جب تم میں سے کوئی نماز ( پڑھنے کے وقت اس ) سے سویا رہے یا اس سے غافل ہو جائے تو جب اسے یاد آئےوہ ( نماز ) پڑھ لے ‘ بے شک اللہ تعالیٰ نے ( خود ) ارشاد فرمایا ہے : اور میر ییاد کے وقت نماز قائم کرو ۔ ‘ ‘