مسنداحمد

Musnad Ahmad

غصب کے مسائل

دوسروں کی زمین میں ان کی اجازت کے بغیر کھیتی کاشت کرنے والے اور مالکوں کی اجازت کے بغیر پھل یا کھیتی میں سے کچھ لینے والے کا بیان

۔ (۶۲۰۸)۔ عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((مَنْ زَرَعَ فِیْ أَرْضِ قَوْمٍ بِغَیْرِ اِذْنِہِمْ فَلَیْسَ لَہُ مِنَ الزَّرْعِ شَیْئٌ وَتُرَدُّ عَلَیْہِ نَفَقَتُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۷۴۰۱)

۔ سیدنا رافع بن خدیج ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی کی کھیتی میں اس کی اجازت کے بغیر کاشت کرتا ہے، تو اسے کھیتی کی پیداوار میں سے کچھ نہیں ملے گا، البتہ اس کا خرچ اسے واپس کر دیا جائے گا۔

۔ (۶۲۰۹)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَضٰی أَنَّہُ لَیْسَ لِعِرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ۔ (مسند احمد: ۲۳۱۵۹)

۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ظالم جڑ کا کوئی حق نہیں ہے۔

۔ (۶۲۱۰)۔ عَنْ عُمَیْرٍ مَوْلٰی آبِی اللَّحْمِ قَالَ: أَقْبَلْتُ مَعَ سَادَتِیْ نُرِیْدُ الْہِجْرَۃَ حَتّٰی أَنْ دَنَوْنَا مِنَ الْمَدِیْنَۃِ قَالَ: فَدَخَلُوْا الْمَدِیْنَۃَ وَخَلَّفُوْنِیْ فِیْ ظَہْرِھِمْ، قَالَ: فَاَصَابَنِیْ مَجَاعَۃٌ شَدِیْدَۃٌ، قَالَ: فَمَرَّ بِیْ بَعْضُ مَنْ یَخْرُجُ اِلَی الْمَدِیْنَۃِ فَقَالُوْا لِیْ: لَوْ دَخَلْتَ الْمَدِیْنَۃَ فَأَصَبْتَ مِنْ ثَمَرِ حَوَائِطِہَا، فَدَخَلْتُ حَائِطًا فَقَطَعْتُ مِنْہُ قِنْوَیْنِ فَأَتَانِیْ صَاحِبُ الْحَائِطِ فَأَتٰی بِیْ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَخْبَرَہُ خَبَرِیْ وَعَلَیَّ ثَوْبَانِ فَقَالَ لِیْ: ((أَیُّہُمَا أَفْضَلُ؟)) فَأَشَرْتُ لَہُ اِلٰی أَحَدِھِمَا، فَقَالَ: ((خُذْہُ۔)) وَأَعْطٰی صَاحِبَ الْحَائِطِ الْأٰخَرَ وَخَلّٰی سَبِیْلِیْ۔ (مسند احمد: ۲۲۲۸۸)

۔ سیدنا عمیر مولیٰ آبی اللحم کہتے ہیں: میں اپنے آقائو ں کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آ رہا تھا، جب ہم لوگ مدینہ کے قریب پہنچے تو میرے آقا ئوں نے مجھے پیچھے چھوڑ دیا اورخود مدینہ میں داخل ہوگئے، اب مجھے بڑی سخت بھوک لگی، مدینہ کی طرف والے بعض لوگوں کا میرے پاس سے گزر ہوا، انھوں نے مجھے کہا: (تیری بھوک کا حل یہی ہے کہ) تو مدینہ میں داخل ہو جا اور کسی باغ کا پھل کھا لے، پس میں ایک باغ میں داخل ہوا اور دو گچھے کھجوروں کے توڑے ہی تھے کہ باغ کا مالک آ گیا اور مجھے پکڑ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لے گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو میرے ساری بات بتلا دی، اس وقت میں نے دو کپڑے زیب تن کیے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: ان دو کپڑوں میں سے کون سا کپڑا زیادہ اچھا ہے؟ میں نے ایک کی طرف اشارہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: یہ تو لے لے۔ اور دوسرا باغ کے مالک کو دے دیا اور مجھے جانے دیا۔

۔ (۶۲۱۱)۔ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ اَبِی الْحَکَمِ الْغِفَارِیَّیَقُوْلُ: حَدَّثَتْنِیْ جَدَّتِیْ عَنْ عَمِّ اَبِیْ رَافِعِ بْن عَمْرِو نِ الْغِفَارِیِّ، قَالَ: کُنْتُ وَأَنَا غُلَامٌ أَرْمِی نَخْلًا لِلْاَنْصَارِ فَأُتِیَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقِیْلَ إِنَّ ھَاھُنَا غُلَامًا یَرْمِیْ نَخْلَنَا فَأُتِیَ بِیْ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((یَا غُلَامُ! لِمَ تَرْمِی النَّخْلَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: آکُلُ، قَالَ: ((فَـلَا تَرْمِی النَّخْلَ وَکُلْ مَاسَقَطَ فِیْ أَسَافِلِہَا۔)) ثُمَّ مَسَحَ رَأْسِیْ وقَالَ: ((اللّٰہُمَّ أَشْبِعْ بَطَنَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۰۶۰۹)

۔ سیدنا رافع بن عمرو غفاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں ایک انصاری کی کھجوروں کو پتھر مار رہا تھا، جبکہ میں ابھی تک ایک لڑکا تھا، پس نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اطلاع دی گئی کہ لڑکا کھجوروں پر پتھر مار رہا ہے، پھر مجھے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس لایا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے فرمایا: اے لڑکے! تو کھجوروں پر پتھر کیوں پھینک رہا تھا؟ میں نے کہا: جی میں کھانے کے لئے ایسا کر رہا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کھجوروں کو پتھر نہ مارنا، البتہ جو کھجوریں نیچے گری پڑی ہوں، وہ کھا لیا کر۔ پھرآپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا: اے اللہ! اس کے پیٹ کو سیر کر دے۔