۔ بہزبن حکیم اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ ہماری بیویاں ہیں، ان کے ساتھ ہمارا کون معاملہ کرنا درست ہے اور کونسا درست نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہاری کھیتی ہے، جیسے چاہو اپنی کھیتی میں آئو ، البتہ نہ اس کو چہرے پر مارو، نہ اس سے مکروہ باتیں کرو ، (ناراضگی کی وجہ سے) اس کو صرف گھر میں چھوڑنا ہے، جب خود کھاؤ تو اس کو بھی کھلاؤ اور جب خود پہنو تو اس کو بھی پہناؤ، اب تم یہ حقوق کیسے ادا نہیں کرو گے، جبکہ تم ایک دوسرے سے جماع کر چکے ہو، الا یہ کہ کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے، جس میں بیوی کو سزا دی جا سکتی ہو (یا اس کے حق میں کمی کی جا سکتی ہو)۔
۔ سیدنا معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا کہ بیوی کا اپنے خاوند پر کیا حق ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تو کھائے تو اسے بھی کھلائے، جب تو پہنے تو اسے بھی پہنائے اس کو چہرے پر نہ مار، اس سے مکروہ بات نہ کر، اور (ناراضگی کی صورت میں) اس کو نہ چھوڑ مگر اپنے گھر میں ہی۔
۔ سیدنا عبد اللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنا آپ عورتوں کے حقوق کے بارے مردوں کو نصیحت کر رہے تھے، بیچ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی آدمی اپنی بیوی کو اس طرح کیوں مارتا ہے، جیسے غلام کو مارا جاتا ہے، پھر ممکن ہے کہ دن کے آخر میںیا رات کے آخر میں اس کو ہم بستری بھی کرنی ہو۔
۔ سیدنا لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میری ایک بیوی ہے، وہ بڑی زبان دراز ہے اور مجھے اذیت دیتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے طلاق دے دو اس نے کہا: میرا اس کے ساتھ پرانا ساتھ ہے اور اس سے میری اولادبھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر اسے روک لو اور اسے بھلائی کی تلقین کرتے رہو، اگر اس میں بھلائی قبول کرنے کی صلاحیت ہوئی تو وہ قبول کر لے گی، بہرحال تونے اپنی بیوی کو اس طرح نہیں مارنا، جیسے لونڈی کو مارا جاتا ہے۔
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی ایماندار خاوند اپنی ایمانداری بیوی سے بغض وعداوت نہیں رکھتا، کیونکہ اگر وہ اپنی بیوی کی ایک عادت ناپسند کرتا ہے تو کسی دوسری صفت کی وجہ سے راضی اور خوش ہو جاتا ہے۔
۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں دو کمزوروں یعنی عورت اور یتیم کے حق کو ممنوع اور حرام قرار دیتا ہوں۔
۔ سیدناسعدبن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسافر آدمی کو نمازِ عشاء کے بعداپنے اہل کے پاس آنے سے منع کیا ہے۔
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں:سیدہ خویلہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا میرے پاس آئی،یہ سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی بیوی تھی، جب رسول اللہ نے اس کی حالت کی پراگندگی دیکھی تو مجھ سے فرمایا: عائشہ! خویلہ کی حالت تو بڑی پراگندہ ہے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! بس یوں سمجھیں کہ اس خاتون کا خاوند کوئی نہیں ہے، کیونکہ وہ دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو قیام کرتا ہے، اس لیے خویلہ اس خاتون کی طرح ہے کہ جس کا خاوند نہیں ہوتا ہے، اس لیے اس نے اپنے نفس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور اس کو ضائع کر دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، پس وہ آگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: اے عثمان! کیا میری سنت سے بے رغبتی کررہے ہو؟ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! نہیں، اے اللہ کے رسول! میں تو آپ کی سنت کو طلب کرنے والا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ ہے تو میں سوتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، میں نے عورتوں سے شادی بھی کر رکھی ہے، اے عثمان! اللہ سے ڈرو، تم پر تیری بیوی کا حق ہے، تم پر تیرے مہمان کا حق ہے اور تجھ پر تیرے نفس کا حق ہے، اس لیے روزے بھی رکھا کر اور ان کو ترک بھی کیا کر اور نماز بھی پڑھا کر اور سویا بھی کرو۔