۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خواب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ میں نے ایک خواب دیکھا کہ میرے ہاتھوں میں دو کنگن سونے کے رکھ دئیے گئے ہیں، میں ان کی وجہ سے گھبرا گیا اور میں نے انہیں ناپسند کیا، مجھے اجازت ملی کہ میں ان پر پھونک ماروں، پس جب میں نے ان پر پھونک ماری تو وہ اڑ گئے ، میں نے اس کی یہ تعبیر کی ہے کہ یہ نمودار ہونے والے دو جھوٹے نبی ہوں گے۔ عبیداللہ کہتے ہیں: ایک ان میں سے اسود عنسی ہے، جسے فیروز نے یمن میں قتل کیا اور دوسرا مسیلمہ کذاب ہے۔
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک دفعہ میں سویا ہوا تھا کہ مجھے زمین کے خزانے دئیے گئے ہیں اور میرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن رکھ دئیے گئے، جو مجھ پہ بڑے گراں گزرے اور انہوں نے مجھے بہت غمگین کیا، میری طرف وحی کی گئی کہ آپ ان پر پھونک مار دیں، پس جب میں نے ان پر پھونک ماری تو وہ اڑ گئے، میں نے اس کی تاویل یہ کی کہ اس سے مراد وہ دو کذاب ہیں کہ میں جن کے درمیان ہوں، ایک صنعاء والا یعنی اسود عنسی ہے اور دوسرا صاحب ِ یمامہ یعنی مسیلمہ کذاب۔
۔
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خواب دیکھا کہ دو فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے، ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاؤں کی جانب اور دوسرا سر کی جانب بیٹھ گیا، جو پائنتی کی جانب بیٹھا تھا، اس نے اس فرشتہ سے کہا جو سرہانے بیٹھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی مثال بیان کرو، اس نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی مثال اس قوم کی مانند ہے، جو ایک چٹیل میدان میں پہنچتی ہے، اس کے پاس نہ تو توشہ سفر ہے کہ اس جنگل کو طے کر سکے اور نہ ہی واپس لوٹنے کی گنجائش ہے، یہ قوم اسی حالت میں تھی کہ اس کے پاس ایک آدمی آتا ہے، جو دھاری دار جوڑ ا زیب تن کئے ہے اور وہ کہتا ہے: کیا میں تمہیں سر سبز و شاداب باغیچے میں لے چلوں، جس کا منظر نہایت ہی دلربا ہے، کیا تم میرے پیچھے چلو گے؟ وہ قوم کہتی ہے: جی ہاں چلیں گے، وہ انہیں لے کر چلتا ہے اور انہیں سرسبز و شاداب باغیوں اور حسین منظر حوضوں میں وارد کرتا ہے، وہ ان میں کھاتے پیتے ہیں اور موٹے تازے صحت مند ہو جاتے ہیں تو وہ انہیں یاد دہانی کراتا ہے، جب میری تم سے ملاقات ہوئی تھی تو تم کس حال میں تھے، پھر تم نے مجھ پر اعتماد کیا، میں نے تم سے عہد کیا تھاکہ میں تمہیں سرسبز وشاداب باغیچوں اور حسین منظر حوضوں میں وارد کروں گا، اگر تم میرے پیچھے چلو گے تو میں نے وارد کیا ہے، وہ قوم کہتی ہے: کیوں نہیں، ایسا ہی ہوا ہے، وہ کہتا ہے تو اب میں پھر کہتا ہوں: ان باغوں سے بھی زیادہ سرسبز باغ اور حسین منظر حوض اس سے آگے ہیں، میرے پیچھے چلو تو ایک گروہ نے کہا: اس نے سچ کہا ہے، ہم پیچھے جائیں گے، دوسرا گروہ کہتا ہے اتنا ہی ہمیں کافی ہے، ہم اسی پر مقیم رہنا پسند کرتے ہیں، ساتھ نہیں جاتے۔
۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں سویا ہوا تھا کہ میرے پاس ایک دودھ کا پیالہ لایا گیا، میں نے اس سے پیا، یہاں تک کہ دودھ میرے ناخنوں سے پھوٹنا شروع ہو گیا، پھر جو بچ گیا، وہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی کیا تعبیر کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس سے مراد علم ہے۔
۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے متعلقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خواب بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ لوگ جمع ہیں اور ابوبکر کھڑے ہوئے ایک یا دو ڈول کنوئیں سے پانی کے کھینچتے ہیں، ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی، اللہ تعالی انہیں معاف فرمائے، پھر عمر نے ڈول کھینچا ہے، پس وہ بہت بڑے ڈول کی صورت اختیار کر گیا، میں نے لوگوں میں سے اتنا قوی کسی کو نہیں دیکھا، (انھوں نے اس قدر ڈول کھینچے کہ) لوگوں نے اپنے اونٹ بٹھا لیے۔
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رات کو ایک خواب دیکھا کہ ایک نیک آدمی ہے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ وابستہ ہوگئے ، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے وابستہ ہوگئے ہیں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ وابستہ ہوگئے ہیں۔سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب ہم یہ بات سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے کھڑے ہوئے تو ہم نے کہا: نیک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، ان کے ساتھ وابستہ یکے بعد دیگرے وابستہ ہونے والوں سے مراد اس دین کے والی اور خلیفے ہیں، جس دین کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنی نبی کو مبعوث فرمایا۔
۔ اسود بن ہلال اپنی قوم کے ایک آدمی سے بیان کرتے ہیں، یہ آدمی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں کہا کرتا تھا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے بغیر وفات نہیں پائیں گے، ہم نے اس سے کہا: تمہیں کیسے علم ہوا ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے رات کو خواب دیکھا کہ میرے تین صحابہ کا وزن کیا گیا، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو یہ وزن میں بڑھ گئے، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وزن کئے گئے تو یہ بھی وزن میں بھاری ہوئے، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا وزن کیا گیا تو ان کا وزن کچھ کم نکلا، بہرحال وہ نیک اور صالح ہیں۔
۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذوالفقار تلوار جنگ بدر کے دن بطور انعام دی، یہ وہی تلوار ہے جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احد کے دن خواب دیکھا تھا، اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں نے اپنی اس تلوار ذوالفقار میں ایک شگاف اور رخنہ دیکھا ہے، اس کی تعبیر یہ ہے کہ تمہارے اندر رخنہ پڑے گا (یعنی شکست ہوگی)، میں نے دیکھا ہے کہ میں نے مینڈھے کو پیچھے سوار کیا ہوا ہے، میں نے تاویل کی ہے کہ دشمن لشکر کا بہادر شہید ہوگا، میں نے دیکھا ہے کہ میں نے محفوظ زرہ پہنی ہوئی ہے میں نے اس کی تعبیر یہ کی کہ مدینہ محفوظ رہے گا اور میں نے دیکھا ہے کہ گائے ذبح کی جارہی ہے، اللہ بھلائی والا ہے اور اللہ بھلائی والا ہے ۔ وہی ہوا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا تھا۔
۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب دیکھا، جیسا کہ سونے والا خواب دیکھتا ہے کہ میں نے ایک مینڈھا اپنے پیچھے بٹھایا ہوا ہے اور میری تلوار کی دھار ٹوٹ گئی ہے، میں نے اس کی تعبیر یہ نکالی ہے کہ دشمن لشکر کا آدمی قتل ہوگا اور میرے گھر والوں میں سے ایک آدمی شہید ہو گا۔
۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب دیکھا ہے کہ کھجوروں کا ایک ٹوکرا ہے، میں نے اس میں سے کچھ کھجوریں جمع کی ہیں اور منہ میں ڈال لی ہیں، میں نے ان میں ایسی گٹھلی پائی کہ جس سے مجھے تکلیف ہوئی، میں نے وہ کھجوریں منہ سے پھینک دی ہیں، پھر میں نے اور لے لیں اور انہیں جمع کیا ہے، ان میں گٹھلی موجود تھی، انہیں بھی میں نے پھینک دیا ہے، پھر اور لے لیں اور جمع کرکے منہ میں ڈالی ہیں ،ان میں بھی میں نے گٹھلی پائی اور انہیں پھینک دیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے اس کی تعبیر کی اجازت دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کی تعبیر کرو۔ ‘ انہوں نے کہا: اس سے مراد آپ کا وہ لشکر ہے جو آپ نے بھیجا ہے وہ صحیح سلامت آئے گا اور مال غنیمت لے کر آئے گا، وہ ایک آدمی سے ملیں گے، وہ انہیں آپ کے ذمہ کا واسطہ دے گا، وہ اسے چھوڑ دیں گے، پھر وہ ایک اور آدمی سے ملیں گے، وہ بھی آپ کے ذمہ کا واسطہ دے گا، وہ اسے بھی چھوڑدیں گے، پھر وہ ایک اور آدمی سے ملیں گے، وہ بھی آپ کے ذمہ کا حوالہ دے گا، وہ اسے بھی چھوڑ دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فرشتے نے مجھے یہی تعبیر بتلائی ہے۔
۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے رات کو خواب میں دیکھا ہے کہ میں رافع بن عقبہ کے گھر میں ہوں، ہمارے پاس ابن طاب کھجوریں لائی گئیں،میں نے اس کی یہ تعبیر کی ہے کہ ہمیں دنیا میں رفعت ملے گی اور آخرت میں حسن انجام ملے گا اور ہمارا دین نہایت عمدگی اختیار کر چکا ہے۔
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے ایک سیاہ فام عورت کو دیکھا ہے، اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے ہیں، وہ مدینہ سے نکل کر مہیعہ یعنی جحفہ مقام میں ٹھہر گئی، میں نے اس کی یہ تعبیر کی ہے کہ مدینہ کی وبا وہاں منتقل ہو گئی ہے۔
۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں کعبہ کے پاس ہوں، میں نے ایک گندمی رنگ کا بہت زیادہ حسین، جو ایک آدمی ہوسکتا ہے، دیکھا، اس کے بال کانوں تک تھے، کنگھی کی ہوئی تھی اور اس کے بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے وہ بیت اللہ کا طواف کررہا تھا اور اس کے بال لہردار تھے، میں نے کہا: یہ آدمی کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ مسیح ابن مریم علیہ السلام ہیں، پھر میں نے ایک اور آدمی دیکھا، اس کے بال سخت گھنگھریالے تھے، دائیں آنکھ سے کانا تھا، اس کی آنکھ ابھرے ہوئے انگور کی مانند تھی، یوں سمجھیں کہ لوگوں میں اس کی مشابہت ابن قطن سے پڑتی تھی، یہ بھی دو آدمیوں کے کندھے پر ہاتھ رکھے ہوئے تھا اور بیت اللہ کا طواف کررہا تھا، میں نے کہا: یہ کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ مسیح دجال ہے۔