مسنداحمد

Musnad Ahmad

تفسیر و اسباب نزول کا بیان

{وَاِذَ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ} کی تفسیر

۔ (۸۵۴۹)۔ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ قَالَ: أَ خْبَرَنِی ابْنُ أَ بِی مُلَیْکَۃَ: أَ نَّ حُمَیْدَ بْنَ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَ خْبَرَہُ: أَ نَّ مَرْوَانَ قَالَ: اذْہَبْ یَا رَافِعُ لِبَوَّابِہِ إِلَی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقُلْ: لَئِنْ کَانَ کُلُّ امْرِئٍ مِنَّا فَرِحَ بِمَا أُوتِیَ، وَأَ حَبَّ أَ نْ یُحْمَدَ بِمَا لَمْ یَفْعَلْ، لَنُعَذَّبَنَّ أَ جْمَعُونَ؟ فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَمَا لَکُمْ؟ وَہٰذِہِ إِنَّمَا نَزَلَتْ ہٰذِہِ فِی أَ ہْلِ الْکِتَابِ، ثُمَّ تَلَا ابْنُ عَبَّاسٍ: {وَإِذْ أَ خَذَ اللّٰہُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُوا الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ} ہٰذِہِ الْآیَۃَ وَتَلَا ابْنُ عَبَّاسٍ: {لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَیَفْرَحُوْنَ بِمَا أَتَوْا وَیُحِبُّونَ أَ نْ یُحْمَدُوْا بِمَا لَمْ یَفْعَلُوا} [آل عمران: ۱۸۷۔۱۸۸] وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: سَأَ لَہُمُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ شَیْئٍ فَکَتَمُوہُ إِیَّاہُ وَأَ خْبَرُوہُ بِغَیْرِہِ فَخَرَجُوا، قَدْ أَ رَوْہُ أَنْ قَدْ أَخْبَرُوہُ بِمَا سَأَلَہُمْ عَنْہُ، وَاسْتَحْمَدُوا بِذٰلِکَ إِلَیْہِ، وَفَرِحُوا بِمَا أَ تَوْا مِنْ کِتْمَانِہِمْ إِیَّاہُ مَا سَأَ لَہُمْ عَنْہُ۔ (مسند احمد: ۲۷۱۲)

۔ حمید بن عبد الرحمن بیان کرتے ہیں کہ مروان نے اپنے دربان رافع سے کہا: اے رافع! تم سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس جاؤ اوران سے کہو: اگر ہم میں سے ہر کوئی اس چیز پر خوش ہو، جو اس کو دی گئی ہے اور یہ پسند کرے کہ ایسے کام پر بھی اس کی تعریف کی جائے، جو اس نے کیا نہ ہو، تو پھرتو ہم سب کو عذاب ہوگا۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما نے کہا:تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تمہارا س آیت سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو اہل کتاب کے بارے میں نازل ہوئی، پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی: {وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہ لِلنَّاسِ وَلَاتَکْتُمُوْنَہ ْ فَنَبَذُوْہُ وَرَاء َ ظُہُوْرِھِمْ وَاشْتَرَوْا بِہٖثَمَـــنًاقَلِیْلًا فَبِئْسَ مَا یَشْتَرُوْنَ۔} … اور جب اللہ نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا جنھیں کتاب دی گئی کہ تم ہر صورت اسے لوگوں کے لیے صاف صاف بیان کرو گے اور اسے نہیں چھپاؤ گے تو انھوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا اور اس کے بدلے تھوڑی قیمت لے لی۔ سو برا ہے جو وہ خرید رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ یہ آیت بھی پڑھی: {لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَیَفْرَحُوْنَ بِمَا أَ تَوْا وَیُحِبُّونَ أَ نْ یُحْمَدُوْا بِمَا لَمْیَفْعَلُوا} … ان لوگوں کو ہرگز خیال نہ کر جو ان (کاموں) پر خوش ہوتے ہیں جو انھوں نے کیے اور پسند کرتے ہیں کہ ان کی تعریف ان (کاموں) پر کی جائے جو انھوں نے نہیں کیے۔ پھر سیدنا ابن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان اہل کتاب سے ایک سوال کیا، انہوں نے اس کو چھپایا اورغلط بتایا اور تمنا یہ کی کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کی اس بناء پر تعریف بھی کریں کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے جو کچھ پوچھا ہے، انہوں نے وہ بتا دیا اور یہیہودی اس صحیح بات کو چھپا لینے پر بہت خوش تھے کہ انھوں نے اصل بات بھی چھپا لی ہے اور نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جواب بھی دے دیا ہے۔