مسنداحمد

Musnad Ahmad

تفسیر و اسباب نزول کا بیان

{وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُہُوْرِھِمْ ذُرِّیَّاتِہِمْ} کی تفسیر

۔ (۸۶۰۴)۔ عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ الْجُھَنِیِّ، اَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، سُئِلَ عَنْ ھٰذِہِ الْآیَۃِ {وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ} فَقَالَ عُمَرُ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سُئِلَ عَنْھَا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اللّٰہَ خَلَقَ آدَمَ ثُمَّ مَسَحَ ظَھْرَہُ بِیَمِیْنِہِ وَاسْتَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّیَّۃً فَقَالَ: خَلَقْتُ ھٰؤُلَائِ لِلْجَنَّۃِ وَ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِیَعْمَلُوْنَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَھْرَہُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْہُ ذُرِّیَّۃً فَقَالَ: خَلَقْتُ ھٰؤُلَائِ لِلنَّارِ، وَ بِعَمَلِ اَھْـلِ النَّارِ یَعْمَلُوْنَ)) فَقَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! فَفِیْمَ الْعَمَلُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ اِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّۃِ اسْتَعْمَلَہُ بِعَمَلِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ حَتَّییَمُوْتَ عَلَی عَمَلٍ مِنْ اَعْمَالِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ فَیُدْخِلَہُ بِہٖالْجَنَّۃَ، وَ اِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَہُ بِعَمَلِ اَھْلِ النَّارِ حَتَّییَمُوْتَ عَلَی عَمَلٍ مِنْ اَعْمَالِ اَھْلِ النَّارِ فَیُدْخِلَہُ بِہٖالنَّارَ۔)) (مسنداحمد: ۳۱۱)

۔ مسلم بن یسار جہنی سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا: {وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ}، انھوں نے کہا: میں نے خود سنا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا، اس کی کمر کو دائیں ہاتھ سے چھوا اور اس سے اس کی اولاد نکالی اور کہا: میں نے ان کو جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور اہل جنت کے عمل ہی وہ کریں گے، پھر اس کی کمر کو چھوا اور اس نے مزید اولاد نکال کر کہا: میں نے ان کو آگ کے لیے پیدا کیا ہے اور اہل جہنم کے عمل ہی وہ کریں گے۔ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول! تو پھر عمل کی کیا حیثیت ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالی بندے کو جنت کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس کواہل جنت کے ہی اعمال کرنے کی توفیق دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ جنتیلوگوں کے عمل پر مرتا ہے اور اس طرح وہ اس کوجنت میں داخل کر دیتا ہے، اور جب اللہ تعالی کسی بندے کو آگ کے لیے پیدا کرتا ہے تو اس کو جہنمی لوگوں کے عمل کرنے کی ہی توفیق دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ اہل جہنم کے اعمال پر مرتا ہے اور وہ اس کو جہنم میں داخل کر دیتا ہے۔

۔ (۸۶۰۵)۔ عَنْ رُفَیْعٍٍ اَبِیْ الْعَالِیَۃِ، عَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فِیْ قَوْلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلّ:َ {وَاِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْ آدَمَ مِنْ ظُھُوْرِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَاَشْھَدَھُمْ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ} قَالَ: جَمَعَھُمْ فَجَعَلَھُمْ اَرْوَاحًا ثُمَّ صَوَّرَھُمْ فَاسْتَنْطَقَھُمْ فَتَکَلَّمُوْا، ثُمَّ اَخَذَ عَلَیْھِمُ الْعَھْدَ وَالْمِیْثَاقَ وَاَشْھَدَھُمْ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ قَالَ: فَاِنِّیْ اُشْھِدُ عَلَیْکُمُ السَّمٰوٰتِ السَّبْعَ وَالْاَرْضِیْنَ السَّبْعَ، وَاُشْھِدُ عَلَیْکُمْ اَبَاکُمْ آدَمَ علیہ السلام ، اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ لَمْ نَعْلَمْ بِھٰذَا، اِعْلَمُوْا اَنَّہُ لَا اِلٰہَ غَیْرِیْ وَلَا رَبَّ غَیْرِیْ، فَلَا تُشْرِکُوْا بِیْ شَیْئًا، اِنِّیْ سَاُرْسِلُ اِلَیْکُمْ رُسُلِیْیُذَکِّرُوْنَکُمْ عَھْدِیْ وَمِیْثَاقِیْ، وَاُنْزِلُ عَلَیْکُمْ کُتُبِیْ، قَالُوْا: شَھِدْنَا بِاَنَّکَ رَبُّنَا وَ اِلٰھُنَا لَا رَبَّ لَنَا غَیْرُکَ، فَاَقَرُّوْا بِذٰلِکَ، وَ رَفَعَ اِلَیْھِمْ آدَمُ یَنْظُرُ اِلَیْھِمْ فَرَاٰی الْغَنِیَّ وَالْفَقِیْرَ وَحَسَنَ الصُّوْرَۃِ وَدُوْنَ ذٰلِکَ، فَقَالَ: رَبِّ! لَوْ لَا سَوَّیْتَ بَیْنَ عِبَادِکَ؟ قَالَ: اِنِّیْ اَحْبَبْتُ اَنْ اُشْکَرَ، وَرَاٰی الْاِنْبِیَائَ فِیْھِمْ مِثْلَ السُّرُجِ عَلَیْھِمُ النُّوْرُ، خُصُّوْا بِمِیْثَاقٍ آخَرَ فِیْ الرِّسَالَۃِ وَالنَّبُوَّۃِ، وَھُوَ قَوْلُہُ تَعَالٰی: {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقَھُمْ} اِلٰی قَوْلِہِ {عِیْسٰی بْنُ مَرْیَمَ} کَانَ فِیْ تِلْکَ الْاَرْوَاحِ فَاَرْسَلَہُ اِلٰی مَرْیَمَ، فَحَدَّثَ عَنْ اُبَیٍّ اَنَّہُ دَخَلَ مِنْ فِیْھَا۔ (مسند احمد: ۲۱۵۵۲)

۔ سیدنا ابی بن کعب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اللہ تعالی کے اس فرمان کے بارے میں کہتے ہیں: اور جب تیرے پروردگار نے بنوآدم کی پشتوں یعنی ان کی اولاد سے پختہ عہد لیا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بنایا اس کی تفصیلیہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو جمع کیا، ان کو روحیں بنایا، پھر ان کی تصویریں بنائیں اور ان کو بولنے کی طاقت دی، پس انھوں نے کلام کیا، پھر اللہ تعالی نے ان سے پختہ عہد لیا اور ان کو ان کے نفسوں پر گواہ بناتے ہوئے کہا: کیا میں تمہارا ربّ نہیں ہوں؟ میں ساتوں آسمانوں، ساتوں زمینوں اور تمہارے باپ کو تم پر گواہ بناتا ہوں، تاکہ تم قیام کے دن یہ نہ کہہ دو کہ ہمیں اس چیز کا کوئی علم نہ تھا، تم اچھی طرح جان لو کہ میرے علاوہ نہ کوئی معبود ہے اور نہ کوئی ربّ، پس میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا، میں عنقریب تمہاری طرف اپنے رسول بھیجوں گا، وہ تم کو میرا عہد یاد کرائیں گے، نیز میںتم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا، انھوں نے کہا: ہمیہ شہادت دیتے ہیں کہ تو ہی ہمارا ربّ اور معبود ہے، تیرے علاوہ ہمارا کوئی ربّ نہیں ہے، پس ان سب نے اقرار کیا، پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان پر بلند کیا، انھوں نے ان میں غنی، فقیر، حسین اور کم خوبصورت افراد دیکھے اور کہا: اے میرے ربّ! تو نے ان کے درمیان برابری کیوں نہیں کی؟ اللہ تعالی نے کہا: میں چاہتا ہوں کہ میرا شکریہ ادا کیا جائے، نیز انھوں نے ان میں انبیاء دیکھے، وہ چراغوں کی طرح نظر آ رہے تھے اور ان پر نور تھا، ان کو رسالت اور نبوت کے عہد و میثاق کے ساتھ خاص کیا گیا، اللہ تعالی کے اس فرمان میں اسیچیز کا ذکر ہے: اور جب ہم نے نبیوں سے ان کا پختہ عہد لیا … عیسیٰ بن مریم۔ عیسیٰ علیہ السلام بھی ان ہی ارواح میں تھے، پھر اللہ تعالی اس روح کو سیدہ مریم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی طرف بھیجا اور وہ ان کے منہ سے ان میں داخل ہو گئی۔