مسنداحمد

Musnad Ahmad

تفسیر و اسباب نزول کا بیان

سورۃ الانفال کی تفسیر : {یَسْاَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ}

۔ (۸۶۰۶)۔ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَشَہِدْتُ مَعَہُ بَدْرًا، فَالْتَقَی النَّاسُ، فَہَزَمَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی الْعَدُوَّ، فَانْطَلَقَتْ طَائِفَۃٌ فِی آثَارِہِمْ یَہْزِمُونَوَیَقْتُلُونَ، فَأَکَبَّتْ طَائِفَۃٌ عَلَی الْعَسْکَرِ یَحْوُونَہُ وَیَجْمَعُون... َہُ، وَأَ حْدَقَتْ طَائِفَۃٌ بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا یُصِیبُ الْعَدُوُّ مِنْہُ غِرَّۃً حَتّٰی إِذَا کَانَ اللَّیْلُ وَفَائَ النَّاسُ بَعْضُہُمْ إِلٰی بَعْضٍ، قَالَ الَّذِینَ جَمَعُوا الْغَنَائِمَ: نَحْنُ حَوَیْنَاہَا وَجَمَعْنَاہَا فَلَیْسَ لِأَ حَدٍ فِیہَا نَصِیبٌ، وَقَالَ الَّذِینَ خَرَجُوا فِی طَلَبِ الْعَدُوِّ: لَسْتُمْ بِأَ حَقَّ بِہَا مِنَّا نَحْنُ نَفَیْنَا عَنْہَا الْعَدُوَّ وَہَزَمْنَاہُمْ، وَقَالَ الَّذِینَ أَ حْدَقُوا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : لَسْتُمْ بِأَ حَقَّ بِہَا مِنَّا نَحْنُ أَ حْدَقْنَا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخِفْنَا أَ نْ یُصِیبَ الْعَدُوُّ مِنْہُ غِرَّۃً وَاشْتَغَلْنَا بِہِ، فَنَزَلَتْ: {یَسْأَ لُونَکَ عَنْ الْأَ نْفَالِ، قُلْ الْأَنْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَ صْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ} فَقَسَمَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلٰی فَوَاقٍ بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ، قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا أَ غَارَ فِی أَرْضِ الْعَدُوِّ نَفَلَ الرُّبُعَ، وَإِذَا أَ قْبَلَ رَاجِعًا وَکُلَّ النَّاسِ نَفَلَ الثُّلُثَ، وَکَانَ یَکْرَہُ الْأَ نْفَالَ، وَیَقُولُ: ((لِیَرُدَّ قَوِیُّ الْمُؤْمِنِینَ عَلٰی ضَعِیفِہِم۔)) (مسند أحمد: ۲۳۱۴۲)   Show more

۔ سیدنا عبادہ بن صامت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ نکلے، میں غزوۂ بدر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ تھا، جب لوگوں کا مقابلہ ہوا تو اللہ تعالی نے دشمنوں کو شکست دی، لشکرِ اسلام ... میں سے کچھ لوگ دشمنوں کو شکست دیتے ہوئے اور ان کو قتل کرتے ہوئے ان کاپیچھا کرنے لگ گے اور ایک حصہ مالِ غنیمت پر ٹوٹ پڑا اور اس کو جمع کرنے لگا اور ایک حصے نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گھیرے میں لے لیا، تاکہ دشمن غفلت سے فائدہ اٹھا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچا دے، یہاں تک کہ رات ہو گئی اور سارے لوگ لوٹ آئے، غنیمتیں جمع کرنے والوں نے کہا: ہم نے یہ مال جمع کیا ہے، کسی اور کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے، دشمن کا پیچھا کرنے والے گروہ نے کہا: تم لوگ ہم سے زیادہ اس مال کے مستحق نہیں ہو، ہم نے اس مال سے دشمن کو ہٹایا اور اس کو شکست دی، اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی حفاظت کرنے والوں نے کہا: تم لوگ ہم سے زیادہ اس مال کا حق نہیں رکھتے، ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو گھیرے رکھا اور ہم ڈر گئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دشمن غفلت سے فائدہ اٹھا کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو نقصان پہنچا دے اور اس طرح ہم اُدھر مصروف رہے، پس اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: {یَسْأَ لُونَکَ عَنْ الْأَ نْفَالِ، قُلْ الْأَ نْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ، فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَأَ صْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ} … وہ تجھ سے غنیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دے غنیمتیں اللہ اور رسول کے لیے ہیں، سو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اونٹنی کے فَوَاق کی مقدار کے برابر وقت میں اس مال کو مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دشمن کی سرزمین میں حملہ کرتے تھے تو ایک چوتھائی حصہ زائد دیتے تھے اور اگر واپسی پر ایسا ہوتا ہے تو مجاہدین کی تھکاوٹ کی وجہ سے ایک تہائی حصہ زائد دیتے تھے، ویسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس چیز کو ناپسند کرتے تھے کہ لوگ زائد حصے کی حرص رکھیں، اس لیے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے تھے: قوی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کمزوروں کو زائد حصوں میں شریک کریں۔  Show more

۔ (۸۶۰۶م)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ الْبَاھَلِیِّ قَالَ: سَأَ لْتُ عُبَادَۃَ بْنَ الصَّامِتِ عَنْ الْأَ نْفَالِ فَقَالَ: فِینَا مَعْشَرَ أَ صْحَابِ بَدْرٍ نَزَلَتْ حِینَ اخْتَلَفْنَا فِی النَّفْلِ، وَسَائَ تْ فِیہِ أَ خْلَاقُنَا، فَانْتَزَعَہُ اللّٰہُ مِنْ أَ یْدِینَا، وَجَعَلَہُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی ا... للّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَقَسَمَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَیْنَ الْمُسْلِمِینَ عَنْ بَوَائٍ، یَقُولُ: عَلَی السَّوَائِ۔ (مسند أحمد: ۲۳۱۳۳)   Show more

۔ (دوسری سند) سیدنا ابو امامہ باہلی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبادہ بن صامت سے انفال والی آیت کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا: ہم بدر والوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی، جب ہم نے مالِ غنیمت میں اختلاف کیا اور اس بارے میں ہم ... سے بداخلاقی ہونے لگی تو اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھوں سے یہ چیز چھین لی اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سپرد کر دی، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مسلمانوں کے درمیان برابر برابر تقسیم کر دیا۔  Show more

۔ (۸۶۰۷)۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ أَ بِی وَقَّاصٍ قَالَ: لَمَّا کَانَ یَوْمُ بَدْرٍ قُتِلَ أَ خِی عُمَیْرٌ، وَقَتَلْتُ سَعِیدَ بْنَ الْعَاصِ، وَأَ خَذْتُ سَیْفَہُ، وَکَانَ یُسَمَّی ذَا الْکَتِیفَۃِ، فَأَ تَیْتُ بِہِ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اذْہَبْ فَاطْرَحْہُ فِی الْقَبَضِ۔)) قَالَ: فَرَجَعْتُ وَبِی مَا لَا ... یَعْلَمُہُ إِلَّا اللّٰہُ مِنْ قَتْلِ أَخِی وَأَ خْذِ سَلَبِی، قَالَ: فَمَا جَاوَزْتُ إِلَّا یَسِیرًا حَتّٰی نَزَلَتْ سُورَۃُ الْأَ نْفَالِ، فَقَالَ لِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اذْہَبْ فَخُذْ سَیْفَکَ۔)) (مسند احمد: ۱۵۵۶)   Show more

۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: بدر کے دن جب میرا بھائی عمیر قتل ہوا اور میں نے سعید بن عاص کو قتل کیا اور اس کی تلوار پکڑ لی، اس تلوار کا نام ذُوْ الْکَتِیفَۃِ تھا۔ میں وہ تلوار لے کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ...  کے پاس آیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: اس کو مال غنیمت میں رکھ دو۔ پس میں لوٹا، لیکن میرے بھائی کے قتل کی وجہ سے مجھے صدمہ تھا، وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا تھا اور میرا مخالف سے چھینا ہوا مال بھی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لے لیا، بس میں تھوڑی دیر ہی آگے چلا تھا کہ سورۂ انفال نازل ہو گئی اورنبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے فرمایا: سعد جائو اپنی تلوار لے لو۔  Show more

۔ (۸۶۰۷م)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: قَالَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! قَدْ شَفَانِی اللّٰہُ مِنْ الْمُشْرِکِینَ فَہَبْ لِی ہٰذَا السَّیْفَ، قَالَ: ((إِنَّ ہٰذَا السَّیْفَ لَیْسَ لَکَ وَلَا لِی ضَعْہُ۔)) قَالَ: فَوَضَعْتُہُ ثُمَّ رَجَعْتُ قُلْتُ: عَسَی أَنْ یُعْطٰی ہٰذَا السَّیْفُ الْیَوْمَ مَنْ لَمْ یُبْلِ بَلَائِی، قَالَ: إِذَا رَجُلٌ...  یَدْعُونِی مِنْ وَرَائِی، قَالَ: قُلْتُ: قَدْ أُنْزِلَ فِیَّ شَیْئٌ، قَالَ: کُنْتَ سَأَ لْتَنِی السَّیْفَ وَلَیْسَ ہُوَ لِی وَإِنَّہُ قَدْ وُہِبَ لِی فَہُوَ لَکَ۔)) قَالَ: وَأُنْزِلَتْ ہٰذِہِ الْآیَۃُ: {یَسْأَلُونَکَ عَنْ الْأَنْفَالِ قُلِ الْأَ نْفَالُ لِلّٰہِ وَالرَّسُولِ} [الأنفال: ۱] (مسند احمد: ۱۵۳۸)   Show more

۔ (دوسری سند) سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اے اللہ کے رسول! مجھے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کی جانب سے شفا دے دی ہے، پس آپ یہ تلوار مجھے عطا کر دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ تلوار تمہاری ہے نہ میری،یہ مال غنیمت ہے، لہٰذا اس کو رک... ھ دو۔ میں نے اس رکھ دیا اور پھر واپس آ گیا، لیکنیہ خیال آ رہا تھا کہ ممکن ہے کہ یہ تلوار ایسے شخص کو دے دی جائے، جو میری طرح کے جوہر نہ دکھا سکے، اتنے میں مجھے میرے پیچھے سے کوئی آدمی بلا رہا تھا، میں نے سوچھا کہ میرے بارے میں کوئی چیز نازل ہوئی ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے تلوار کا سوال کیا تھا، لیکن وہ میری نہیں تھی، اب وہ مجھے بطورِ ہبہ دی جا چکی ہے، لہٰذا اب یہ تیری ہے۔ یہ آیت نازل ہوئی تھی: {یَسْأَلُونَکَ عَنْ الْأَ نْفَالِ قُلْ الْأَ نْفَالُ لِلَّہِ وَالرَّسُولِ}  Show more