۔ (۸۷۳۵)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: مَرِضَ أَ بُو طَالِبٍ فَأَ تَتْہُ قُرَیْشٌ وَأَ تَاہُ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَعُودُہُ، وَعِنْدَ رَأْسِہِ مَقْعَدُ رَجُلٍ فَقَامَ أَ بُو جَہْلٍ فَقَعَدَ فِیہِ، فَقَالُوْا: إِنَّ ابْنَ أَ خِیکَیَقَعُ فِی آلِہَتِنَا، قَالَ: مَا شَأْنُ قَوْمِکَ یَشْکُونَکَ؟ قَالَ: ((یَا عَمِّ! أُرِیدُہُمْ عَلٰی کَلِمَۃٍ وَاحِدَۃٍ، تَدِینُ لَہُمْ بِہَا الْعَرَبُ، وَتُؤَدِّی الْعَجَمُ إِلَیْہِمُ الْجِزْیَۃَ۔))، قَالَ: مَا ہِیَ؟ قَالَ: ((لَا اِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔))، فَقَامُوْا فَقَالُوْا: أَ جَعَلَ الْآلِہَۃَ إِلَہًا وَاحِدًا، قَالَ: وَنَزَلَ {صٓ وَالْقُرْآنِ ذِی الذِّکْرِ} فَقَرَأَ حَتّٰی بَلَغَ {إِنَّ ہَذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ} [ص:۱۔ ۵]، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ (یَعْنِی ابْنَ الْاِمَامَ اَحْمَدَ): قَالَ اَبِیْ: وَحَدَّثَنَا اَبُوْا اُسَامَۃَ حَدَّثَنَا الْاَعْمَشُ، حَدَّثَنَا عَبَادٌ، فَذَکَرَ نَحْوَہٗ،وَقَالَاَبِیْ: قَالَ الْاَشْجَعِیُّ: یَحْیَی بْنُ عَبَادٍ۔ (مسند احمد: ۲۰۰۸)
۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ابو طالب بیمار پڑ گئے، قریشی ان کے پاس آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان کی تیمار داری کے لئے تشریف لے آئے،ان کے سر کے پاس ایک آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تو تھی، لیکن ابو جہل کھڑا ہوا اور اس جگہ میں بیٹھ گیا، پھر قریشیوں نے کہا: ابو طالب! تمہارا یہ بھتیجا ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہتا ہے۔ ابو طالب نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مخاطب ہو کر کہا: کیا بات ہے، یہ آپ کی قوم آپ کی شکایت کررہی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے میرے چچا! میں انہیں ایک ایسے کلمہ پر متحد کرنا چاہتا ہوں کہ جس کو قبول کرنے سے عرب ان کے تابع ہوں گے اور عجم انہیں جزیہ دیں گے۔ ابو طالب نے کہا: وہ کونسا کلمہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لا الہ الا اللہ وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: کیا اس نے سب معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا ہے، اس وقت سورۂ ص کییہ آیات نازل ہوئیں: {صٓ وَالْقُرْآنِ ذِی الذِّکْر … … إِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ}