مسنداحمد

Musnad Ahmad

تفسیر و اسباب نزول کا بیان

سورۃ النصر اس چیز کا بیان کہ سورۂ نصر، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کے اعلان کے لیے نازل ہوئی

۔ (۸۸۵۰)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: لَمَّا نَزَلَ {اِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ} قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((نُعِیَتْ اِلَیَّ نَفْسِیْ بِاَنَّہٗمَقْبُوْضٌفِیْ تِلْکَ السَّنَۃِ۔)) (مسند احمد: ۱۸۷۳)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے جب {اِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ} نازل ہوئی تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس میں میری موت کی اطلاع ہے، میں اس سال فوت ہونے والا ہوں۔

۔ (۸۸۵۱)۔ (وَعَنْہُ اَیًضًا) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یَأْذَنُ لِأَ ہْلِ بَدْرٍ وَیَأْذَنُ لِی مَعَہُمْ، فَقَالَ بَعْضُہُمْ: یَأْذَنُ لِہٰذَا الْفَتٰی مَعَنَا وَمِنْ أَ بْنَائِنَا مَنْ ہُوَ مِثْلُہُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّہُ مَنْ قَدْ عَلِمْتُمْ، قَالَ: فَأَ ذِنَ لَہُمْ ذَاتَ یَوْمٍ، وَأَ ذِنَ لِی مَعَہُمْ، فَسَأَ لَہُمْ عَنْ ہٰذِہِ السُّورَۃِ {إِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ} فَقَالُوْا: أَ مَرَ نَبِیَّہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِذَا فُتِحَ عَلَیْہِ أَ نْ یَسْتَغْفِرَہُ وَیَتُوبَ إِلَیْہِ، فَقَالَ لِی: مَا تَقُولُ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ! قَالَ: قُلْتُ: لَیْسَتْ کَذٰلِکَ وَلٰکِنَّہُ أَ خْبَرَ نَبِیَّہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃ وَالسَّلَامُ بِحُضُورِ أَ جَلِہِ، فَقَالَ: {إِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ} فَتْحُ مَکَّۃَ {وَرَأَ یْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِی دِینِ اللّٰہِ أَ فْوَاجًا} فَذٰلِکَ عَلَامَۃُ مَوْتِکَ {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّابًا} فَقَالَ لَہُمْ: کَیْفَ تَلُومُونِی عَلٰی مَا تَرَوْنَ۔ (مسند احمد: ۳۱۲۷)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بدر والوں کو اپنی مجلس میں بیٹھنے کی اجازت دے رکھی تھی اور مجھے بھی ان کے ساتھ اجازت دی تھی، بعض لوگوں نے اعتراض کیا اورکہا: سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس نوجوان کو ہمارے ساتھ بیٹھنے کی اجازت دے دیتے ہیں،حالانکہ اس جیسے ہمارے بیٹے بھی ہیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم جانتے ہو کہ یہ کون ہے، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک دن ان لوگوں کو بھی بلایا اور مجھے بھی اور ان سے سورۂ نصر کی تفسیر کے بارے میں سوال کیا، انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے کہ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر مکہ فتح ہو جائے، تو توبہ و استغفار کریں۔ مجھ سے کہا: اے ابن عباس! تمہاری کیا رائے ہے؟ میں نے کہا:میں اس طرح کا نظریہ نہیں رکھتا، بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے ذریعے اپنے نبی کو خبر دی ہے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی وفات کا وقت آ چکا ہے، {إِذَا جَائَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ} یعنی فتح مکہ، {وَرَأَ یْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِی دِینِ اللّٰہِ أَ فْوَاجًا} یہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی موت کی علامت ہے، {فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ إِنَّہُ کَانَ تَوَّابًا}، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: ہاں جی، تم یہ (ابن عباس علمی لیاقت) دیکھ کر مجھے کیسے ملامت کرتے ہو۔