مسنداحمد

Musnad Ahmad

میانہ روی کے مسائل

اعمال میں میانہ روی اور اعتدال کا بیان

۔ (۸۹۰۵)۔ حَدَّثَنَا ھُشَیْمٌ، عَنْ حُصَیْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ وَمُغِیْرَۃَ الضَّبِّیِّ عَنْ مُجَاھِدٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِوبْنِ الْعَاصِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: زَوَّجَنِیْ اَبِیْ امْرَاَۃً مِّنْ قُرَیْشٍ، فَلَمَّا دَخَلَتْ عَلَیَّ جَعَلْتُ لَا اَنْحَاشُ لَھَا عَمَّا بِیْ مِنَ الْقُوَّۃِ عَلَی الْعِبَادَۃِ مِنَ الصَّوْمِ وَالصَّلاۃِ، فَجَائَ عَمْرُوبْنُ الْعَاصِ اِلٰی کَنَّتِہِ حَتّٰی دَخَلَ عَلَیْھَا، فَقَالَ لَھَا: کَیْفَ وَجَدْتِّ بَعْلَکِ؟ قَالَتْ: خَیْرُ الرِّجَالِ، اَوْ کَخَیْرِ الْبُعُوْلَۃِ، مِنْ رَجُلٍ، لَمْ یُفَتِّشْ لَنَا کَنَفًا، وَلَمْ یَعْرِفْ لَنَا فِرَاشًا، فَاَقْبَلَ عَلَیَّ، فَعَذَمَنِیْ، وَعَضَّنِیْ بِلِسَانِہٖ،فَقَالَ: اَنْکَحْتُکَامْرَاَۃً مِّنْ قُرَیْشٍ ذَاتَ حَسَبٍ فَعَضَلْتَھَا، وَفَعَلْتَ وَفَعَلْتَ! ثُمَّ انْطَلَقَ اِلَّی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَشَکَانِیْ، فَاَرْسَلَ اِلَیَّ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاَتَیْتُہُ، فَقَالَ لِیْ: ((اَتَصُوْمُ النَّھَارَ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((وَتَقُوْمُ اللَّیْلَ؟)) قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((لٰکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ، وَاُصَلِّیْ وَاَنَامُ، وَاَمَسُّ النِّسَائَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ۔)) قَالَ: ((اقْرَاِ الْقُرْآنَ فِیْ کُلِّ شَہْرٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَجِدُنِیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ عَشَرَۃِ اَیَّامٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَجِدُنِیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ اَحَدُھُمَا اِمَّا حُصِیْنٌ وَاِمَّا مُغِیْرَۃُ، قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ ثَلاثٍ۔)) وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ: ((فَاقْرَاْہُ فِیْ کُلِّ سَبْعٍ لَا تُزِیْدَنَّ عَلٰی ذٰلِکَ۔)) قَالَ: ثُمَّ قَالَ: (( صُمْ فِیْ کُلِّ شَھْرٍ ثَلاثَۃَ اَیَّامٍ۔)) قُلْتُ: اِنِّیْ اَقْوٰی مِنْ ذٰلِکَ، قَالَ: فَلَمْ یَزَلْیَرْفَعُنِیْ، حَتّٰی قَالَ: ((صُمْ یَوْمًا وَاَفْطِرْ یَوْمًا فَاِنَّہُ اَفْضَلُ الصِّیَامِ، وَھُوَ صِیَامُ اَخِیْ دَاوُدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ۔)) قَالَ: حُصَیْنٌ فِیْ حَدِیْثِہِ ثُمَّ قَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( فَاِنَّ لِکُلِّ عَابِدٍ شِرَّۃً، وَلِکُلِّ شِرَّۃٍ فَتْرَۃٌ، فَاِمَّا اِلٰی سُنَّۃٍ، وَاِمَّا اِلٰی بِدْعَۃٍ، فَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی سُنَّۃٍ فَقَدِ اھْتَدٰی، وَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی غَیْرِ ذٰلِکَ فَقَدْ ھَلَکَ۔)) قَالَ مُجَاھِدٌ: فَکَانَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ عَمْرٍو، حَیْثُ قَدْ ضَعُفَ وَکَبِرَ، یَصُوْمُ الْاَیَّامَ کَذٰلِکَ،یَصِلُ بَعْضَھَا اِلٰی بَعْضٍ، لِیَتَقَوّٰی بِذٰلِکَ، ثُمَّ یُفْطِرُ بَعْدَ تِلْکَ الْاَیَّامِ، قَالَ: وَکَانَ یَقْرُاُ فِیْ کِلِّ حِزْبٍ کَذٰلِکَ، یَزِیْدُ اَحْیَانًا، وَیَنْقُصُ اَحْیَانًا، غَیْرَ اَنَّہٗیُوفِی الْعَدَدَ، اِمَّا فِیْ سَبْعٍ، وَاِمَّا فِیْ ثَلاثٍ، قَالَ: ثُمَّ کَانَ یَقُوْلُ بَعْدَ ذٰلِکَ: لَاَنْ اَکُوْنَ قَبِلْتُ رُخْصَۃَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا عُدِلَ بِہٖ (اَوْعَدَلَ)،لٰکِنِّیْ فَارَقْتُہُ عَلٰی اَمْرٍ اَکْرَہُ اَنْ اُخَالِفَہُ اِلیٰ غَیْرِہِ۔ (مسند احمد: ۶۴۷۷)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں: میرے باپ نے ایک قریشی عورت سے میری شادی کر دی، جب میں اس پر داخل ہوا تو میں نے اس کا کوئی اہتمام نہ کیا اور نہ اس کو وقت دیا، کیونکہ مجھے روزے اور نماز کی صورت میں عبادت کرنے کی بڑی قوت دی گئی تھی، جب سیدنا عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اپنی بہو کے پاس آئے اور اس سے پوچھا: تو نے اپنے خاوند کو کیسا پایا ہے؟ اس نے کہا: وہ بہترین آدمی ہے، یا وہ بہترین خاوند ہے، اس نے نہ میرا پہلو تلاش کیا اور نہ میرے بچھونے کو پہچانا (یعنی وہ عبادت میں مصروف رہنے کی وجہ سے اپنی بیوی کے قریب تک نہیں گیا )۔ یہ کچھ سن کر میرا باپ میری طرف متوجہ ہوا اور میری خوب ملامت کی اور مجھے برا بھلا کہا اور کہا: میں نے حسب و نسب والی قریشی خاتون سے تیری شادی کی ہے اور تو اس سے الگ تھلگ ہو گیا اور تو نے ایسے ایسے کیا ہے، پھر وہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف چلے گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میرا شکوہ کیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلایا اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس پہنچ گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تو دن کو روزہ رکھتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور رات کو قیام کرتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن میں تو روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، میں نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور حق زوجیت بھی ادا کرتا ہوں، جس نے میری سنت سے بے رغبتی اختیار کی، وہ مجھ سے نہیں ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو ایک ماہ میں قرآن مجید کی تلاوت مکمل کیا کر۔ میںنے کہا: میں اپنے آپ کو اس سے زیادہ قوی پاتاہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر دس دنوں میں مکمل کر لیا کرو۔ میں نے کہا: جی میں اپنے آپ کو اس سے زیادہ قوت والا سمجھتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو پھر تین دنوں میں ختم کر لیا کرو۔ ایک روایت میں ہے: تو سات دنوں میں تلاوت مکمل کر لیا کر اور ہر گز اس سے زیادہ تلاوت نہ کر۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر ماہ میں تین روزے رکھا کر۔ میں نے کہا: جی میں اس سے زیادہ طاقتور ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مجھے آگے بڑھاتے گئے، یہاں تک کہ فرمایا: ایک دن روزہ رکھ لیا کر اور ایک دن افطار کر لیا کر، یہ افضل روزے ہیں اور یہ میرے بھائی داود علیہ السلام کے روزے ہیں۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہر عبادت گزار میں حرص اور رغبت پیدا ہوتی ہے، پھر ہر رغبت کے بعد آخر سستی اور کمی ہو تی ہے، اس کا انجام سنت کی طرف ہوتا ہے یا بدعت کی طرف، پس جس کا انجام سنت کی طرف ہوتا ہے، وہ ہدایت پا جائے گا، اور جس کا انجام کسی اور شکل میں ہو گا، وہ ہلاک ہو جائے گا۔ امام مجاہد کہتے ہیں: جب سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کمزور اور بوڑھے ہو گئے تو وہ اسی مقدار کے مطابق روزے رکھتے تھے، بسا اوقات چند روزے لگاتار رکھ لیتے، پھر اتنے ہی دن لگاتار افطار کر لیتے، اس سے ان کا مقصد قوت حاصل کرنا ہوتا تھا، اسی طرح کا معاملہ اپنے حزب میں کرتے تھے، کسی رات کو زیادہ حصہ تلاوت کر لیتے اور کسی رات کو کم کر لیتے، البتہ ان کی مقدار وہی ہوتی تھی،یا تو سات دنوں میں قرآن مجید مکمل کر لیتے،یا تین دنوں میں۔ اور سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بعد میں کہا کرتے تھے: اگر میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رخصت قبول کر لی ہوتی تو وہ مجھے دنیا کی ہر اس چیز سے محبوب ہوتی، جس کا بھی اس سے موازنہ کیا جاتا، لیکن میں عمل کی جس روٹین پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے جدا ہوا تھا، اب میں ناپسند کرتا ہوں کہ اس کی مخالفت کروں۔

۔ (۸۹۰۶)۔ عَنْ جَابِرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ (یَعْنِی ابْنَ عَبْدِ اللّٰہِ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( قَارِبُوْا وَسَدِّدُوْا، فَاِنَّہُ لَیْسَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ یُنَجِّیْہِ عَمَلُہُ۔)) قَالُوْا: وَلَا اِیَّاکَیَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَ: ((وَلا اِیَّایَ، اِلَّا اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ فِیْ رَحْمَتِہِ۔)) (مسند احمد: ۱۴۶۸۲)

۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میانہ روی اختیار کرو اور راہِ صواب پر چلتے رہو، پس بیشک صورتحال یہ ہے کہ تم میں سے کسی کو اس کا عمل نجات نہیں دلائے گا۔ صحابہ نے کہا: اور نہ آپ کو اے اللہ کے رسول!؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور نہ مجھے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے۔

۔ (۸۹۰۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: ذُکِرَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رِجَالٌ یَّنْتَصِبُوْنَ فِی الْعِبَادَۃِ مِنْ اَصْحَابِہٖنَصَبًاشَدِیْدًا فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((تِلْکَ ضَرَاوَۃُ الْاِسْلَامِ وَشَرَّتُہُ، وَلِکُلِّ ضَرَاوَۃٍ شَرَّۃٌ ، وَلِکُلِّ شَرَّۃٍ فَتَرَۃٌ، فَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی الْکِتَابِ وَالسُّنَّۃِ فَلِأُمٍّ مَا ھُوَ، وَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی مَعَاصِی اللّٰہِ فَذٰلِکَ ھُوَ الْھَالِکُ۔)) (مسند احمد: ۶۵۴۰)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرو ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے صحابہ میں سے ایسے لوگوں کا ذکر کیا گیا، جو بڑی سختی سے عبادت کرنے میں گڑ چکے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اسلام کا چسکہ، شدت اور حرص ہے اور ہر چسکے کی حرص اور اس میں افراط ہوتا ہے، لیکن ہر افراط کے بعد سستی اور تھماؤ بھی ہوتا ہے، پس جس کا تھماؤ کتاب و سنت کی طرف ہوا اس نے سیدھے راستے کا قصد کیا اور جس کی سستی اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی طرف ہوئی تو وہ ہلاک ہونے والا ہو گا۔

۔ (۸۹۰۸)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِکْلَفُوْا مِنَ الْعَمَلِ مَاتُطِیْقُوْنَ، فَاِنَّ خَیْرَ الْعَمَلِ اَدْوَمُہُ وَاِنْ قَلَّ۔)) (مسند احمد:۸۵۸۴)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اتنے عمل کی تکلیف اٹھاؤ، جس کی تم کو طاقت ہے، پس بیشک بہترین عمل وہ ہے، جس پر ہمیشگی اختیار کی جائے، اگرچہ وہ تھوڑا ہو۔

۔ (۸۹۰۹)۔ عَنْ اَبِیْ صَالِحٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سُئِلَتْ عَائِشَۃُ وَاُمُّ سَلْمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : اَیُّ الْعَمَلِ کَانَ اَعْجَبَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ؟ قَالَتَا: مَادَامَ وَاِنْ قَلَّ۔ (مسند احمد: ۲۴۵۴۴)

۔ ابو صالح کہتے ہیں؛ سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے زیادہ پسند تھا، انھوں نے کہا: جس پر ہمیشگی کی جائے، اگرچہ وہ کم ہو۔

۔ (۸۹۱۰)۔ (وَمِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) عَنِ الْاَسْوَدِ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : حَدِّثِیْنِیْ بِاَحَبِّ الْعَمَلِ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: اَحَبُّ الْعَمَلِ اِلَیْہِ الَّذِیْیَدُوْمُ عَلَیْہِ الرَّجُلُ، وَاِنْ کَانَ یَسِیْرًا۔ (مسند احمد: ۲۵۳۳۰)

۔ (دوسری سند) اسود کہتے ہیں: میں نے سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا: مجھے ایسا عمل بیان کرو، جو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں سب سے زیادہ محبوب ہو، انھوں نے کہا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے پسندیدہ وہ عمل تھا، جس پر آدمی ہمیشگی کرے، اگرچہ اس کی مقدار کم ہو۔

۔ (۸۹۱۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، اَنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دَخَلَ عَلَیْھَا وَعِنْدَھَا فُـلَانَۃُ لِاِمْرَاَۃٍ فَذَکَرَتْ مِنْ صَلَاتِھَا فَقَالَ: ((مَہْ عَلَیْکُمْ بِمَا تُطِیْقُوْنَ، فَوَاللّٰہِ لَایَمَلُّ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ حَتّٰی تَمَلُّوْا، اِنَّ اَحَبَّ الدِّیْنِ اِلٰی اللّٰہِ مَادَاوَمَ عَلَیْہِ صَاحِبُہُ۔)) (مسند احمد: ۲۴۷۴۹)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں:جب نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میری پاس تشریف لائے تو اس وقت میرے پاس فلاں خاتون بیٹھی ہوئی تھی، میں نے اس کی نماز کا ذکر کیا، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: رہنے دو، تم اپنے اوپر اتنا عمل لازم کرو، جس کی تم طاقت رکھتے ہے، اللہ کی قسم ہے، اللہ تعالیٰ اس وقت نہیں اکتاتا، جب تک تم نہ اکتا جاؤ، بیشک اللہ تعالیٰ کو سب سے پسند یدہ دین وہ ہے، جس پر آدمی ہمیشگی اختیار کرے۔

۔ (۸۹۱۲)۔ عَنْھَا اَیْضًا قَالَتْ: مَرَّتْ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْحَوْلَائُ بِنْتُ تُوَیْتٍ، فَقِیْلَ لَہُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّہَا تُصَلِّیْ بِاللَّیْلِ صَلاۃً کَثِیْرَۃً، فَاِذَا غَلَبَھَا النَّوْمُ ارْتَبَطَتْ بِحَبْلٍ فَتَعَلَّقَتْ بِہٖ،فَقَالَ: رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((فَلْتُصَلِّ مَا قَوِیَتْ عَلَی الصَّلَاۃِ، فَاِذَا نَعَسَتْ فَلْتَنَمْ۔)) (مسند احمد: ۲۶۸۴۰)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب سیدہ حولاء بنت تُویت، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے گزریں، تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بتلایا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ خاتون رات کو بہت زیادہ نماز پڑھتی ہے اور جب اس پر نیند غالب آنے لگتی ہے تو یہ اپنے آپ کو ایک رسیکے ساتھ باندھ کر لٹکتی ہے، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو چاہیے کہ جب تک اس کو طاقت ہو، یہ نماز پڑھے، لیکن جب اونگھنے لگے تو سو جائے۔

۔ (۸۹۱۳)۔ عَنْ اَنَسٍ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: دَخَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَسْجِدَ وَحَبْلٌ مَمْدُوْدٌ بَیْنَ سَارِیَتَیْنِ فَقَالَ:(( مَاھٰذَا؟)) فَقَالُوْا: لِزَیْنَبَ فَاِذَا کَسِلَتْ اَوْ فَتَرَتْ اَمْسَکَتْ بِہٖ،فَقَالَ: ((حُلُّوْہُ۔)) ثُمَّقَالَ: ((لِیُصَلِّ اَحَدُکُمْ نَشَاطَہُ، فَاِذَا کَسِلَ اَوْ فَتَرَ فَلْیَقْعُدْ (وَفِیْ لَفْظٍ) لَتُصَلِّ مَاعَقَلَتْ، فَاِذا غُلِبَتْ فَلْتَنَمْ ۔)) (مسند احمد: ۱۲۰۰۹)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مسجد میں داخل ہوئے، جبکہ وہاں دو ستونوں کے درمیان ایک رسی لٹک رہی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پوچھا: اس کی کیا وجہ ہے؟ صحابہ نے کہا: یہ سیدہ زینب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کی ہے، جب وہ سست پڑتی ہے تو اس کے ساتھ لٹکتی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو کھول دو، چاہیےیہ کہ آدمی پھرتی اور مستعدی کی حالت میں نماز پڑھے، جب وہ سست پڑ جائے تو قیام ترک کر دے۔ ایک روایت میںہے: اس کو چاہیے کہ جب تک اس کو سمجھ آ رہی ہو، نماز پڑھے اور جب وہ (نیند کی وجہ) مغلوب ہو جائے تو سو جائے۔

۔ (۸۹۱۴)۔ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: رَاٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَبْلاً مَمْدُوْدًا بَیْنَ سَارِیَتَیْنِ فَقَالَ: ((لِمَنْ ھٰذَا؟ )) قَالُوْا: لِحَمْنَۃَ بِنَتِ جَحْشٍ فَاِذَا عَجَزَتْ تَعَلَّقَتْ بِہٖ،فَقَالَ:((لَتُصَلِّمَااَطَاقَتْ،فَاِذَاعَجَزَتْ فَلْتَقْعُدْ۔)) (مسند احمد: ۱۲۹۴۶)

۔ سیدنا عبد الرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دو ستونوں کے درمیان لٹکی ہوئی رسی دیکھی اور پوچھا: یہ کس کی ہے؟ صحابہ نے کہا: یہ سیدہ حمنہ بنت جحش کی ہے، جب وہ (نماز پڑھتے پڑھتے) عاجز آ جاتی ہے تو اس کے ساتھ لٹکتی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس کو چاہیے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق نماز پڑھے، پس جب وہ عاجز آ جائے تو (نماز ترک کر کے) بیٹھ جائے۔

۔ (۸۹۱۵)۔ عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((خُذُوْا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِیْقُوْنَ فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَایَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا۔)) قَالَتْ عَائِشَۃُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا : وَکَانَ اَحَبُّ الصَّلَاۃِ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِذَا صَلّٰی صَلٰاۃً دَاوَمَ عَلَیْھَا۔ قَالَ اَبْوُسَلْمَۃَ: قَالَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ: {اَلَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَاتِھِمْ دَائِمُوْنَ۔} [المعارج: ۲۳] (مسند احمد: ۲۵۰۴۷)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اتنے عمل کا اہتمام کرو، جس کی تم طاقت رکھتے ہو، پس بیشک اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا، حتیٰ کہ تم نہیں اکتا جائو گے۔ سیدہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سب سے زیادہ وہ نماز پسند تھی کہ جس کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دوام کے ساتھ ادا کرتے تھے۔ ابو سلمہ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وہ لوگ جو اپنی نمازوں پر ہمیشگی کرتے ہیں۔

۔ (۸۹۱۶)۔ عَنِ الْحَکَمِ بْنِ حَزْنٍ الْکَافِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((یَااَیُّھَاالنَّاسُ، اِنَّکُمْ لَنْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تُطِیْقُوْا کُلَّ مَا اُمِرْتُمْ بِہٖ،وَلٰکِنْسَدِّدُوْاوَاَبْشِرُوْا)) (مسنداحمد: ۱۸۰۱۱)

۔ سیدنا حکم بن حزن کافی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اے لوگو! بیشک تم کو جن جن امور کا حکم دیا گیا ہے، تم سب کی ہر گز طاقت نہیں رکھ سکتے، البتہ راہِ صواب پر چلتے رہو اور خوشخبری حاصل کرو۔

۔ (۸۹۱۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ اِذَا اَمَرَھُمْ اَمَرَھُمْ بِمَا یُطِیْقُوْنَ مِنَ الْعَمَلِ یَقُوْلُوْنَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّا لَسْنَا کَہَیْئَتِکَ، اِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ قَدْ غَفَرَ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذِنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ، قَالَتْ: فَیَغْضَبُ حَتّٰییُعْرَفَ الْغَضَبُ فِیْ وَجِھِہِ۔ (مسند احمد: ۲۴۷۹۳)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم صحابہ کو عمل کا حکم دیتے تو اتنا حکم فرماتے، جس کی وہ طاقت رکھتے، لیکن جب وہ کہتے کہ اے اللہ کے رسول! بیشک ہم توآپ کی طرح نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیئے ہیں،یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غصے ہو جاتے،یہاں تک کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرۂ مبارک میں غصے کے آثار نظر آنے لگتے تھے۔

۔ (۸۹۱۸)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ ھٰذَا الدِّیْنَ مَتِیْنٌ، فَاَوْغِلُوْا فِیْہِ بِرِفْقٍ۔)) (مسند احمد: ۱۳۰۸۳)

۔ سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشکیہ دین مضبوط ہے، تم اس میں نرمی کے ساتھ داخل ہو جائو۔

۔ (۸۹۱۹)۔ عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ، عَنْ اَعْرَابِیٍّ سَمِعَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ: ((اِنَّ خَیْرَ دِیْنِکُمْ اَیْسَرُہُ، اِنَّ خَیْرَ دِیْنِکُمْ اَیْسَرُہُ۔)) (مسند احمد: ۱۶۰۳۲)

۔ سیدنا ابو قتادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک بدو سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک تمہارا بہترین دین وہ ہے جو آسانی والا ہو، بیشک تمہارا بہترین دین وہ ہے جو سہولت پر مشتمل ہو۔

۔ (۸۹۲۰)۔ عَنْ مِحْجَنِ بْنِ الْاَدْرَعِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّہُ کَانَ آخِذًا بِیَدِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ الْمَسْجِدِ قَالَ: ثُمَّ اَتٰی حُجْرَۃَ امْرَاَۃٍ مِّنْ نِسَائِہِ فَنَفَضَ یَدَہُ مِنْ یَدِیْ، قَالَ:((اِنَّ خَیْرَ دِیْنِکُمْ اَیْسَرُہُ، اِنَّ خَیْرَ دِیْنِکُمْ اَیْسَرُہُ، اِنَّ خَیْرَ دِیْنِکُمْ اَیْسِرُہُ۔)) (مسند احمد: ۲۰۶۱۷)

۔ سیدنا محجن بن ادرع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے مسجد میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی ایک بیوی کے حجرے کی طرف تشریف لے گئے اور میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور فرمایا: بیشک تمہارا بہترین دین وہ ہے جو آسانی والا ہو، بیشک تمہارا بہترین دین وہ ہے جو سہولت پر مشتمل ہو، بیشک تمہارا خیر والا دین وہ ہے، جس میں زیادہ آسانی ہو۔

۔ (۸۹۲۱)۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ الْاَسْلَمِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: خَرَجْتُیَوْمًا لِحَاجَۃٍ فَاِذَا اَنَا بِالنَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَمْشِیْ بَیْنَیَدَیَّ، فَاَخَذَ بِیَدِیْ، فَانْطَلَقْنَا نَمْشِیْ جَمِیْعًا فَاِذَا نَحْنُ بَیْنَ اَیْدِیْنَا بِرَجُلٍ یُصَلِّییُکْثِرُ الرُّکُوْعَ وَالسُّجُوْدَ، فَقَالَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَتُرَاہُ یُرَائِیْ؟ )) فَقُلْتُ: اَللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَمُ، فَتَرَکَ یَدِیْ مِنْ یَدِِہِ، ثُمَّ جَمَعَ بَیْنَیَدَیْہِ فَجَعَلَ یُصَوِّبُھُمَا وَیَرْفَعُھُمَا وَیَقُوْلُ: ((عَلَیْکُمْ ھَدْیًا قَاصِدًا ، عَلَیْکُمْ ھَدْیًا قَاصِدًا، عَلَیْکُمْ ھَدْیًا قَاصِدًا، فَاِنَّہُ مَنْ یُشَادَّ ھٰذَا الدِّیْنَیَغْلِبْہُ (وَفِیْ لَفْظٍ) فَاَرَسَلَ یَدِیْ ثُمَّ طَبَقَ بَیْنَ کَفَّیْہِ فَجَمَعَھُمَا وَجَعَلَ یَرْفَعُھُمَا بِحَیَالِ مَنْکَبَیْہِیَضْعُھُمَا وَیَقُوْلُ: ((عَلَیْکُمْ ھَدْیًا قَاصِدًا ثَلاثَ مَرَّاتٍ فَاِنَّہُ مَنْیُّشَادَّ الدِّیْنَیَغْلِبْہُ۔)) (مسند احمد: ۲۳۳۵۱)

۔ سیدنا بریدہ اسلمی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں ایک دن کسی ضرورت کے لیے نکلا، اچانک نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میری ملاقات ہو گئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم میرے سامنے چل رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، پھر ہم دونوں اکٹھے چلنے لگے، اچانک ہم نے اپنے سامنے ایسا آدمی دیکھا جو بہت زیادہ رکوع و سجود کر رہا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا اس کے بارے میں تیرایہ خیال ہے کہ وہ ریاکاری کر رہا ہے؟ میں نے کہا: جی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور اپنے دونوں ہاتھ جمع کر کے اوپر نیچے کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ میانہ روی والا طریقہ لازم پکڑو، اعتدال والے انداز کا اہتمام کرو، میانہ روی اختیار کرو، کیونکہ جو دین میں تکلف کرنے کی کوشش کرتا ہے، دین اس پر غالب آ جاتا ہے۔ ایک روایت میں ہے: پس آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور اپنی دونوں ہتھیلیوں میں تطبیق دے کر ان کو اکٹھا کیا اور پھر ان کو کندھوں کے برابر تک اٹھانے اور پھر نیچے کرنے لگے اور فرمانے لگا: میانہ روی والے طریقے کو لازمی پکڑو، تین دفعہ فرمایا، کیونکہ جو آدمی زور آمائی کرے گا، دین اس پر غالب آ جائے گا۔

۔ (۸۹۲۲)۔ عَنْ مُجَاھِدٍ، قَالَ: دَخَلْتُ اَنَا وَیَحْيٰبْنُ جَعْدَۃَ عَلٰی َرجُلٍ مِّنِ الْاَنْصَارِ مِنْ اَصْحَابِ الرَّسُوْلِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ذَکَرُوْا عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَوْلَاۃً لِبَنِیْ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالُوْا: اِنَّھَا تَقُوْمُ اللَّیْلَ وَتَصُوْمُ النَّھَارَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لٰکَنِّیْ اَنَا اَنَامُ وَاُصَلِّیْ، وَاَصُوْمُ وَاُفْطِرُ، فَمَنِ اقْتَدٰی بِیْ فَہُوَ مِنِّیْ، وَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ، اِنَّ لِکُلِّ عَمَلٍ شِرَّۃً ثُمَّ فَتْرَۃً، فَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی بِدْعَۃٍ فَقَدْ ضَلَّ، وَمَنْ کَانَتْ فَتْرَتُہُ اِلٰی سُنَّۃٍ فَقَدِ اھْتَدٰی۔)) (مسند احمد: ۲۳۸۷۰)

۔ مجاہد کہتے ہیں: میں اور یحییٰ بن جعدہ ایک انصاری صحابی کے پاس گئے، انھوں نے کہا: ایک دفعہ یوں ہوا کہ صحابہ نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس بنی عبد المطلب کی ایک لونڈی کا اس طرح ذکر کیا کہ وہ رات کو قیام کرتی ہے اور دن کو روزہ رکھتی ہے، یہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لیکن میں تو سوتا بھی ہوں اور نماز بھی پڑھتا ہوں اور روزہ بھی رکھتا ہوں اورچھوڑ بھی دیتا ہوں، پس جس نے میری پیروی کی، وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری سنت سے منہ پھیر لیا، وہ مجھ سے نہیں ہے، ہر عمل کی حرص، شدت اور افراط تو ہوتی ہے، لیکن پھر سکون اور تھماؤ بھی ہوتا ہے، پس جس کا تھماؤ بدعت کی طرف لے جائے گا، وہ گمراہ ہو جائے گا اور جس کا ٹھہرائو سنت کی طرف لے جائے گا، وہ ہدایت پا جائے گا۔

۔ (۸۹۲۳)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، أَنَّ اُنَاسًا کَانُوْا یَتَعَبَّدُوْنَ عِبَادَۃً شَدِیْدَۃً، فَنَہَاھُمُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((وَاللّٰہِ! اِنِّیْ لَاَعْلَمُکُمْ بِاللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاَخْشَاکُمْ لَہُ۔)) وَکَانَ یَقُوْلُ: ((عَلَیْکُمْ مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِیْقُوْنَ، فَاِنَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا۔)) (مسند احمد: ۲۵۴۲۵)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: کچھ لوگ بڑی سخت عبادت کیا کرتے تھے، لیکن نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کو منع کیا اور فرمایا: اللہ کی قسم! بیشک تم میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جاننے اور اس سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں، تم اتنے عمل کا اہتمام کرو، جتنے کی طاقت رکھتے ہو، پس بیشک اللہ تعالیٰ نہیں اکتائے گا، حتیٰ کہ تم اکتا جاؤ گے۔

۔ (۸۹۲۴)۔ عَنْھَا اَیْضًا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، اِنَّہَا کَانَتْ تَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : (( سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَیَسِّرُوْا فَاِنَّہُ لَنْ یُّدْخِلَ الْجَنَّۃَ اَحَدًا عَمَلُہُ۔)) قَالُوْا: وَلَا اَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ؟ قَالَ: (( وَلَا اَنَا اِلَّا اَنْ یَّتَغَمَّدَنِیَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ رَحْمَۃً، وَاعْلَمُوْا اَنَّ اَحْبَ الْعَمَلِ اِلٰی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ اَدْوَمُہُ وَاِنْ قَلَّ۔)) (مسند احمد: ۲۵۴۵۴)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: راہِ صواب پر چلو، میانہ روی اختیار کرو اور آسانی پیدا کرو، پس کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کا عمل بھی نہیں کرے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اور میں بھی ایسے ہی ہوں، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ڈھانپ دے اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے، جس پر ہمیشگی کی جائے، اگرچہ وہ کم ہو۔