مسنداحمد

Musnad Ahmad

میانہ روی کے مسائل

وعظ ونصیحت میںمیانہ روی اختیار کرنے کا بیان

۔ (۸۹۳۱)۔ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، قَالَتْ: رَخَّصَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ اَمْرٍ، فَتَنَزَّہَ عَنْہُ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَغَضِبَ، حَتّٰی بَانَ الْغَضْبُ فِیْ وَجْھِہِ ثُمَّ قَالَ: ((مَا بَالُ قَوْمٍ یَرْغَبُوْنَ عَمَّا رُخِّصَ لِیْفِیْہِ، فَوَاللّٰہِ! لَاَنَا اَعْلَمُھُمْ بِاللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَاَشَدُّھُمْ لَہٗخَشْیَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۴۶۸۳)

۔ سیدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ایک کام میں کوئی رخصت دی، لیکن بعض لوگوں نے اس کو قبول کرنے سے گریز کیا، پھر جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ بات پہنچی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اتنے غصے ہو گئے کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرے پر غصہ نظر آنے لگا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اس چیز سے اعراض کر رہے ہیں، جس میں مجھے (بھی) رخصت دی گئی ہے، اللہ کی قسم! لوگوں میں اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جاننے والا اور سب سے زیادہ اس سے ڈرنے والا میں ہوں۔

۔ (۸۹۳۲)۔ عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ قَالَ: کَانَ عَبْدُ اللّٰہِ یُذَکِّرُ کُلَّ خَمِیْسٍ، اَوْ اِثْنَیْنِ، الْاَیَّامَ، قَالَ: فَقُلْنَا اَوْ فَقِیْلَ: یَا اَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، اِنَّا لَنُحِبُّ حَدِیْثَکَ وَنَشْتَھِیْہِ، وَوَدِدْنَا اَنَّکَ تُذَکِّرُنَا کُلَّ یَوْمٍ، فَقَالَ عَبْدُاللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌: اِنَّہٗلَایَمْنَعُنِیْ مِنْ ذٰلِکَ اِلاَّ اَنِّیْ اَکْرَہُ اَنْ اُمِلَّکُمْ، وَاِنِّیْ لَاَتَخَوَّلُکُمْ بِالْمَوْعِظَۃِ کَمَا کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَخَوَّلُنَا۔ (مسند احمد: ۴۴۳۹)

۔ ابو وائل کہتے ہیں: سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ہر جمعرات یا سوموار کو وعظ و نصیحت کرتے تھے، ہم نے کہا: اے ابو عبد الرحمن! ہم آپ کی گفتگو پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں روزانہ وعظ و نصیحت کریں، جواب میں سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: مجھے اس سے روکنے والی چیزیہ ہے کہ میں تمہیں اکتا دینے کو ناپسند کرتا ہوں اور میں نصیحت سے تمہاری ایسے ہی نگہداشت کرتا ہوں، جیسے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری کرتے تھے۔

۔ (۸۹۳۳)۔ عَنْ شَقِیْقٍ، قَالَ: کُنَّا نَنْتَظِرُ عَبْدَاللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ فِی الْمَسْجِدِ، یَخْرُجُ عَلَیْنَا فَجَائَ یَزِیْدُ بْنُ مُعَاوِیَۃَیَعْنِیْ النَّخْعِیَّ قَالَ: فَقَالَ: اَلاَ اَذْھَبُ فَاَنْظُرُ، فَاِنْ کَانَ فِی الدَّارِ لَعَلِّیْ اَنْ اُخْرِجَہُ اِلَیْکُمْ، فَجَائَ نَا فَقَامَ عَلَیْنَا فَقَالَ: اِنَّہٗلَیُذَکِّرُ لِیْ مَکَانُکُمْ فَمَا آتِیْکُمْ کَرَاھِیَۃَ اَنْ اُمِلَّکُمْ، لَقَدْ کَانَ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَۃِ کَرَاھِیَۃَ السَّآمَۃِ عَلَیْنَا۔ (مسند احمد: ۳۵۸۷)

۔ شقیق کہتے ہیں: ہم مسجد میں سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتظار کر رہے تھے، انھوں نے ہمارے پاس آنا تھا، اتنے میںیزید بن معاویہ نخعی آ گئے اور کہا: کیا میں خود ان کی طرف چلا جاؤں اور ان کو دیکھوں، اگر وہ گھر میں ہوئے تو ان کو تمہاری طرف لے آنا میری ذمہ داری ہو گی، پس سیدنا عبداللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر کہا: مجھے تمہارا مقام و مرتبہ یاد آ رہا تھا، لیکن بات یہ ہے کہ میں اس لیے تمہارے پاس نہیں آتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اکتا جاؤ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے اکتا جانے کو ناپسند کرتے ہوئے وعظ و نصیحت کرنے میں ہمارا خیال رکھتے تھے۔