۔ سیدنا معاذ بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے لوگوں کے پاس سے گزرے، جو ایک جگہ پر کھڑے چوپائیوں اور سواریوں پر بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: ان جانوروں پر سوار ہو، اس حال میں کہ یہ صحت مند ہوں اور ان کو صحت و سا لمیت کی حالت میں ہی چھوڑا کرو اور راستوں اور بازاروں میں باتیں کرنے کے لیے ان کو کرسیاں نہ بنا لو (یعنی خواہ مخواہ ان پر نہ بیٹھے رہو)، پس کتنی ہی سواریاں ہیں، جو اپنے سواروں سے بہتر اور ان کی بہ نسبت اللہ تعالیٰ کا زیادہ ذکر کرنے والی ہوتی ہیں۔
۔ سیدنا سوادہ بن ربیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لیے کچھ اونٹنیوں کا حکم دیا اور مجھے فرمایا: جب تو اپنے گھر پہنچے تو انھیں کہنا کہ موسم بہار میں پیدا ہونے والے ان کے بچوں کو اچھی غذادیں، نیز انھیں کہنا کہ وہ اپنے ناخن تراش لیں تاکہ دودھ دوہتے وقت مویشیوں کے تھنوں کو خون آلود نہ کر دیں۔
۔ سیدنا ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک دودھ والی اونٹنی بطورِ تحفہ دی، ایک روایت میں ہے: میرے بعض اہل خانہ نے مجھے دودھ والی اونٹنیاں دے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کو دوہوں، پس میں نے ان کو دوہا اور جب میں نے مشقت کے ساتھ سارا دودھ نکالنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس طرح نہ کر، بلکہ(مزید دودھ) کا سبب بننے والا دودھ (تھنوں میں) چھوڑ دیا کر۔
۔ (دوسری سند) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس سے گزرے اور وہ دودھ دوہ رہا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (مزید دودھ) کا سبب بننے والا دودھ (تھنوں میں) رہنے دے۔
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دفعہ صدقہ کے اونٹوں کی طرف جنگل میں گئے اور میرے علاوہ اپنی تمام بیویوں کو اونٹ دیے، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے میرے علاوہ سب کو ایک ایک اونٹ دیا ہے؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ایک سخت اونٹ دیا، اس پر ابھی تک سوار نہیں ہوا گیا تھا، پس میں اس کو مارنے لگی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! نرمی کرنا، کیونکہ جس چیز میں بھی نرمی ہوتی ہے، وہ اُس کو مزین کردیتی ہے اور جس چیز سے نرمی جدا ہوتی ہے، وہ اُس کو عیب دار بنا دیتی ہے۔
۔ عبد اللہ بن زیاد کہتے ہیں: بسر کے دو مسلمان بیٹے تھے، میں ان کے پاس گیا اور کہا: اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے، بات یہ ہے کہ ایک آدمی اپنی سواری پر سوار ہوتا ہے اور اس کوڑے سے مارتا بھی ہے اور لگام کے ذریعے کھینچتا بھی ہے، کیا تم نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی حدیث سنی ہے؟ انھوں نے کہا: ہم نے تو اس کے بارے میں کچھ نہیں سنا، لیکن پھر اچانک گھر کے اندر سے ایک عورت کی آواز آئی، اس نے کہا: سوال کرنے والے! اللہ تعالیٰ کہتا ہے: اور جتنے قسم کے جاندار زمین پر چلنے والے ہیں اور جتنے قسم کے پرندے ہیں کہ اپنے دونوں بازوؤں سے اڑتے ہیں،یہ سب تمہاری طرح کے گروہ ہیں، ہم نے دفتر میں کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ (سورۂ انعام: ۳۸) پھر اس نے کہا: یہ ہماری بہن ہے، عمر میں ہم سے بڑی ہے اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پایا ہے۔
۔ سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گدھا دیکھا، اس کو چہرے پر داغا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے یہ کام کیا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔
۔ سیدنا سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرض الموت میں مبتلا تھے، وہ کہتے ہیں: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرنا شروع کر دیا (اور اتنے سوالات کیے کہ) مزید کوئی سوال یاد ہی نہیں آ رہا تھا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے: اور یادکرو۔ بہرحال میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو سوالات کیے تھے، ان میں ایک سوال یہ تھا: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! گمشدہ اونٹ میرے حوضوں پر آ جاتا ہے، جبکہ میں نے ان کو اپنے اونٹوں کے لیے بھرا ہوا ہوتا ہے، تو کیا اس کو پانی پلا دینے میں میرے لیے اجر ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں، ہر تر جگر کو پلانے میں اللہ تعالیٰ کے لیے اجر ہے۔
۔ سیدناعبد الرحمن بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالا، ایک آدمی ایک جھاڑی کی طرف گیا اور (چڑیا کی طرح کے) سرخ پرندے کے انڈے نکال لایا، پس وہ پرندہ آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے سروں پر پھڑپھڑانے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کس نے اس کو تکلیف دی ہے؟ اس آدمی نے کہا: میں نے اس کے انڈے لیے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: واپس رکھ دے۔
۔ (۹۲۰۶)۔ (وَعَنْہُ فِی اُخْرٰی) ((رُدَّہُ۔)) رَحْمَۃً لَھَا۔ (مسند احمد: ۳۸۳۶)
۔ (دوسری روایت) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پرندے پر رحم کرتے ہوئے فرمایا: واپس رکھ دے۔
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ) ایک آدمی راستے پر چلا جا رہا تھا کہ اسے سخت پیاس لگی، اس نے ایک کنواں پایا، پس اس میں اتر کر اس نے پانی پیا، پھر باہر نکل آیا، وہیں ایک کتا تھا جو پیاس کے مارے زبان باہر نکالے (ہانپتے ہوئے) کیچڑ چاٹ رہا تھا، پس اس آدمی نے (دل میں) کہا کہ اس کتے کو بھی اسی طرح پیاس نے ستایا ہے جس طرح میں اس کی شدت سے بے حال ہو گیا تھا، چنانچہ وہ دوبارہ کنویں میں اترا اور اپنے موزے پانی سے بھرے اور انہیں اپنے منہ سے پکڑ کر اوپر چڑھ آیا اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس کے اس عمل اور جذبے کی قدر کی اور اسے معاف کر دیا۔ (یہ سن کر) صحابہؓنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہمارے لیے چوپایوں (پر ترس کھانے) میں بھی اجر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (ہاں) ہر تر جگر والے (جاندار کی خدمت اور دیکھ بھال) میں اجر ہے۔
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک زانی عورت نے گرمی والے دن میں ایک کتا دیکھا، وہ ایک کنویں کا چکر لگا رہا تھا اور پیاس کے مارے زبان باہر نکالی ہوئی تھی، پس اس نے اپنا موزہ اتارا (اور اس کو پانی پلایا) اور اس کے سبب اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔
۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت بلی کی وجہ سے آگ میں داخل ہوگئی، اس نے اس کو باندھ دیا تھا، نہ خود اس کو کھلاتی پلاتی تھی اور نہ اس کو چھوڑتی تھی کہ وہ از خود زمین کے حشرات کھا سکتی ۔
۔ علقمہ کہتے ہیں: ہم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی وہاں آ گئے، سیدہ نے ان سے کہا: تم یہ بیان کرتے ہو کہ ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا،یعنی اس نے اس کو باندھ دیا تھا اور نہ اس کو کھلاتی تھی اور نہ پلاتی تھی؟ انھوں نے کہا: جی میں نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی تھی، سیدہ نے کہا: کیا تم جانتے ہو کہ وہ عورت کون تھی؟ اس عورت نے جو کچھ کیا، بہرحال وہ کافر تھی اور بیشک اللہ تعالیٰ کے ہاں مؤمن کی عزت اس سے زیادہ ہے کہ وہ بلی کی وجہ سے اس کو عذاب دے، پس جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے احادیث بیان کرو تو غور بھی کیا کرو کہ کیسے بیان کر رہے ہو۔