مسنداحمد

Musnad Ahmad

زبان کی آفتوں کے مسائل

چغلخوری سے ترہیب کا بیان

۔ (۹۸۸۲)۔ عَنْ حُذَیْفَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((لَا یَدْخُلُ الْجَنّۃَ قَتَّاتٌ۔)) (مسند احمد: ۲۳۶۳۶)

۔ سیدنا حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چغلخور جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

۔ (۹۸۸۳)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلَا اُنَبِّئُکُمْ مَاالْعَضْہُ؟ قَالَ: ھِیَ النَّمِیْمَۃُ الْقَالَۃُ بَیْنَ النَّاسِ۔)) وَاِنَّ مُحَمَّدًا ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الرَّجُلَ یَصْدُقُ، حَتّٰییُکْتَبَ صِدِّیْقًا، وَیَکْذِبُ حَتّٰییُکْتَبَ کَذَّابًا۔)) (مسند احمد: ۴۱۶۰)

۔ سیدنا عبد اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو یہ بتلا نہ دو کہ عَضْہ کیا ہے؟ یہ لوگوں کی آپس میں چغلخوری والی باتیں ہیں۔ نیز محمد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک آدمی سچ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کو سچا لکھ لیا جاتا ہے اور اس طرح بھی ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اس کو جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔

۔ (۹۸۸۴)۔ عَنْ اَسْمَائَ بِنْتِ یَزِیْدَ الْاَنْصَارِیَّۃِ، اَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اَلَا اُخْبِرُکُمْ بِخِیَارِکُمْ؟)) قَالُوْا: بلٰییارَسُوْلَ اللّٰہِ، قَالَ: ((الّذِیْنَ اِذَا رُؤْوْا ذُکِرَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔)) ثُمَّ قَالَ: ((اَلََا اُخْبِرُکُمْ بِشِرَارِکُمْ؟ الْمَشَّاؤُوْنَ بِالنَّمِیْمَۃِ، الْمُفْسِدُوْنَ بَیْنَ الْاَحِبَّۃِ، الْبَاغُوْنَ الْبُرَآئَ الْعَنَتَ۔)) (مسند احمد: ۲۸۱۵۱)

۔ سیدہ اسماء بنت یزید انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے پسندیدہ لوگوں کے بارے میں بتاؤں؟ انھوں نے کہا: جی کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں، جن کو دیکھنے سے اللہ یاد آ جاتا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے شریر لوگوں کے بارے میں بتلا دوں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو چغلخور ہیں، ایک دوسرے سے محبت کرنے والوں کے درمیان فساد برپا کرتے ہیں اور (عیوب سے) بری لوگوں کے لیے غلطیاں تلاش کرتے ہیں۔

۔ (۹۸۸۶)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لِاَصْحَابِہٖ: ((لَا یُبَلِّغُنِیْ اَحَدٌ عَنْ اَحَدٍ مِنْ اَصْحَابِیْ شَیْئًا، فَاِنِّیْ اُحِبُّ اَنْ اَخْرُجَ الِیْکُمْ، وَاَنَا سَلِیْمُ الصَّدْرِ۔))، قَالَ: وَاَتٰی رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مَالٌ، فَقَسَمَہُ، قَالَ: فَمَرَرْتُ بِرَجُلَیْنِ، وَاَحَدُھُمَا یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ: وَاللّٰہِ! مَااَرَادَمُحَمَّدٌبِقِسْمَتِہِوَجْہَاللّٰہِ،وَلَاالدَّارَالْآخِرَۃِ، فَتَثَبَّتُّ، حَتّٰی سَمِعْتُ مَا قَالَا، ثُمَّ اَتَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنَّکَ قُلْتَ لَنَا: ((لَا یُبَلِّغُنِیْ اَحَدٌ عَنْ اَحَدٍ مِنْ اَصْحَابِیْ شَیْئًا۔)) وَاِنِّیْ مَرَرْتُ بِفُلَانٍ وَفُلَانٍ، وَھُمَا یَقُوْلَانِ کَذَا وَکَذَا، قَالَ: فَاحْمَرَّ وَجْہُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَشَقَّ عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ: ((دَعْنَا مِنْکَ فَقَدْ اُوْذِیَ مُوْسٰی اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ، ثُمَّ صَبَرَ۔)) (مسند احمد: ۳۷۵۹)

۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: کوئی آدمی میرے کسی صحابی کی قابل اعتراض بات مجھ تک نہ پہنچائے، کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جب میں تمہارے پاس آؤں تو میرا سینہ صاف ہو۔ پھر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس کچھ مال لایا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کو تقسیم کیا، میں دو آدمیوں کے پاس سے گزرا، ان میں سے ایک آدمی دوسرے سے کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! اس تقسیم سے محمد( ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ) کا ارادہ نہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے اور نہ آخرت کا گھر، پھر میں نے مزید توجہ کی اور ان کی باتیں سن لیں، پس میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے توہمیں یہ فرمایا تھا کہ کوئی آدمی میرے کسی صحابی کی قابل اعتراض بات مجھ تک نہ پہنچائے۔ لیکن اب بات یہ ہے کہ میں فلاں فلاں کے پاس سے گزرا اور وہ اس طرح کی باتیں کر رہے تھے، یہ سن کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا چہرہ سرخ ہو گیا اور یہ بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر گراں گزری اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: چھوڑ دو ہم کو، پس موسی علیہ السلام کو اس سے زیادہ تکلیف دی گئی، لیکن انھوں نے پھر بھی صبر کیا۔

۔ (۹۸۸۷)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ ) قَالَ: تَکَلَّمَ رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ کَلِمَۃً فِیْھَا مَوْجِدَۃٌ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ تُقِرَّنِیْ نَفْسِیْ اَنْ اَخْبَرْتُ بِھَا النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَوَدِدْتُ اَنِّیْ اِفْتَدَیْتُ مِنْھَا بِکُلِّ اَھْلٍ وَمَالٍ، فَقَالَ: ((قَدْ آذَوْا مُوْسٰی عَلَیْہِ الصلاۃ والسلام اَکَثْرَ مِنْ ذٰلِکَ فَصَبَرَ، ثُمَّ اَخْبَرَ اَنَّ نَبِیًّا کَذَّبَہُ قَوْمُہُ، وَشَجُّوْہُ حِیْنَ جَائَ ھُمْ بِاَمْرِ اللّٰہِ، فَقَالَ: وَھُوَ یَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْھِہِ، اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِیْ فَاِنَّھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ۔)) (مسند احمد: ۴۳۳۱)

۔ (دوسری سند) ایک انصاری آدمی نے ایسی بات کی کہ جس سے پتہ چل رہا تھا کہ اس نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی کوئی بات محسوس کی ہوئی ہے، (بات اتنی سخت تھی کہ) میرا نفس مجھ پر قابو نہ پا سکا اور میں نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے اس کا تذکرہ کر دیا، میں نے تو چاہا کہ اس بات کے فدیے میں اپنا سارا اہل و مال قربان کر دوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: لوگوں نے موسی علیہ السلام کو اس سے زیادہ ایذا دی، لیکن انھوں نے صبر کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بتایا کہ ایک نبی کو اس کی قوم نے جھٹلایا اور جب وہ اللہ تعالیٰ کا حکم لے کر ان کے پاس آیا تو انھوں نے اس کو زخمی کر دیا، اب وہ اپنے چہرے سے خون صاف کر رہا تھا اور ساتھ ساتھ یہ دعا کر رہا تھا: اے اللہ! میری قوم کو بخش دے، کیونکہ وہ جانتے نہیں ہیں۔