مسنداحمد

Musnad Ahmad

زبان کی آفتوں کے مسائل

مذاق کا بیان، نیزاس میں جھوٹ بولنے سے ترہیب کا بیان

۔ (۹۹۱۱)۔ وَعَنْہُ اَیْضًا، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((مَنْ قَالَ لِصَبِیِّ: تَعَالَ ھَاکَ، ثُمَّ لَمْ یُعْطِہِ فَھِیَ کَذْبَۃٌ۔)) (مسند احمد: ۹۸۳۵)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جس آدمی نے بچے سے کہا: اِدھر آ اور یہ چیز لے لے، پھر اس کو وہ چیز نہیں دی تو یہ جھوٹ ہو گا۔

۔ (۹۹۱۲)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَامِرِ بْنِ رَبِیْعَۃَ، اَنَّہُ قَالَ: اَتَانَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ بَیْتِنَا، وَاَنَا صَبِیٌّ، قَالَ: فَذَھَبْتُ اَخْرُجُ لِاَلْعَبَ فَقَالَت اُمِّیْ: یَا عَبْدَ اللّٰہِ! تَعَالَ اُعْطِکَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَمَا اَرَدْتِ اَنْ تُعْطِیَہُ؟)) قَالَتْ: اُعْطِیْہِ تَمْرًا، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اَمَا اِنَّکِ لَوْ لَمْ تَفْعَلِی کُتِبَتْ عَلَیْکِ کَذْبَۃً۔)) (مسند احمد: ۱۵۷۹۳)

۔ سیدنا عبد اللہ بن عامر بن ربیعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمارے پاس ہمارے گھر میں تشریف لائے، میں اس وقت بچہ تھا، جب میں کھیلنے کے لیے جانے لگا تو میری ماں نے کہا: اے عبد اللہ! ادھر آ، میں تجھے کچھ دینا چاہتی ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تو نے اس کو کیا دینے کا ارادہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: میں اس کو کھجور دوں گی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اگر تو نے اس کو کچھ نہ دینا ہوتا تو یہ تیرا ایک جھوٹ لکھ لیا جاتا۔

۔ (۹۹۱۳)۔ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ حَیْدَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقُوْلُ : ((وَیْلٌ لِلَّذِیْیُحَدِّثُ الْقَوْمَ ثُمَّ یَکْذِبُ لِیُضْحِکَھُمْ، وَیْلٌ لَہُ وَوَیْلٌ لَہُ۔)) (مسند احمد: ۲۰۲۷۰)

۔ سیدنا معاویہ بن حیدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اس شخص کے لیے ہلاکت ہے، جو لوگوں سے بات کرتا ہے اور ان کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔

۔ (۹۹۱۴)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((اِنَّ الرَّجُلَ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِیُضْحِکُ بِھَا جُلَسَائَہُ یَھْوِیْ بِھَا اَبْعَدَ مِنَ الثُّرَیَّا۔)) (مسند احمد: ۹۲۰۹)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ایک آدمی اپنے ہم مجلسوں کو ہنسانے کے لیے ایسی بات کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے ثریا ستارے سے بھی دور تک جا گرتا ہے۔

۔ (۹۹۱۵)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیقٍ ثَانٍ ) قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ الرَّجُلَ یَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ لَا یَرٰی بِھَا بَاْسًا، یَھْوِیْ بِھَا سَبْعِیْنَ خَرِیْفًا فِیْ النَّارِ۔)) (مسند احمد: ۷۲۱۴)

۔ (دوسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ایک آدمی ایسی بات کرتا ہے، جبکہ وہ اس میں حرج بھی محسوس نہیں کرتا، لیکن اس کی وجہ سے آگ میں ستر سال کی مسافت تک گر جاتا ہے۔

۔ (۹۹۱۶)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَالِثٍ) یَرْفَعُھَا ((اِنَّ الْعَبْدَ یَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِیَزِلُّ بِھَا فِیْ النَّارِ، اَبْعَدَ مَا بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ۔)) (مسند احمد: ۸۹۰۹)

۔ (تیسری سند) رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک آدمی ایسی بات کر جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے پھسل کر آگ میں اتنی دوری تک چلا جاتا ہے، جتنی مشرق و مغرب کے درمیان دوری ہے۔

۔ (۹۹۱۷)۔ عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ الْخُدْرِیِّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، یَرْفَعُہُ، قَالَ: ((اِنَّ الرَّجُلَ لَیَتَکَلَّمُ بِالْکَلِمَۃِ لَا یُرِیْدُ بِھَا بَاْسًا، اِلَّا لِیُضْحِکَ بِھَا الْقَوْمَ فَاِنَّہُ لَیَقَعُ مِنْھَا اَبْعَدَ مِنَ السَّمَائِ۔)) (مسند احمد: ۱۱۳۵۱)

۔ سیدنا ابو سعید خدری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک ایک آدمی ایک بات کرتا ہے،وہ اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا، اس کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو ہنسائے، پس وہ اس کی وجہ سے آسمان تک کی مسافت سے بھی دور تک جا گرتا ہے۔

۔ (۹۹۱۸)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ زَمْعَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: خَطَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ وَعَظَھُمْ فِیْ ضِحْکِھِمْ مِنَ الضَّرْطَۃِ فَقَالَ: ((عَلَامَ یَضْحَکُ اَحَدُکُمْ عَلٰی مَایَفْعَلُ۔)) (مسند احمد: ۱۶۳۲۴)

۔ سیدنا عبد اللہ بن زمعہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے خطبہ دیا اور پھر لوگوں کو گوز مار کر ہنسنے کے بارے میں وعظ کیا اور فرمایا: تم میں سے ایک آدمی اس چیز پر کیوں ہنستا ہے ، جو وہ خود بھی کرتا ہے۔

۔ (۹۹۱۹)۔ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اَنَّہُ قَالَ: ((اِنِّیْ لَا اَقُوْلُ اِلَّا حَقًّا۔))، قَالَ بَعْضُ اَصْحَابِہٖ: فَاِنَّکَتُدَاعِبُنَایارَسُوْلُ اللّٰہِ؟ فَقَالَ: ((اِنِّیْ لَا اَقُوْلُ اِلَّا حَقًّا۔)) (مسند احمد: ۸۴۶۲)

۔ سیدنا ابو ہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بیشک میں صرف حق ہی کہتا ہوں۔ بعض صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! بیشک آپ بھی ہمارے ساتھ ہنسی مذاق کرتے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں صرف حق ہی کہتا ہوں۔

۔ (۹۹۲۰)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، اَنَّ رَجُلًا اَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَاسْتَحْمَلَہُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّا حَامِلُوْکَ عَلٰی وَلَدِ نَاقَۃٍ۔)) قَالَ: یارَسُوْل اللّٰہِ! مَا اَصْنَعُ بِوَلَدِ نَاقَۃٍ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَھَلْ تَلِدُ الْاِبِلَ اِلَّا النُّوْقُ۔)) (مسند احمد: ۱۳۸۵۳)

۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آیا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے سواری طلب کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ہم تجھے اونٹنی کے بچے پر سوار کریں گے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اوہو، اونٹوں کو اونٹنیاں ہی جنم دیتی ہیں۔

۔ (۹۹۲۱)۔ عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ، اَنَّ اَبَا بَکْرٍ خَرَجَ تَاجِرًا اِلٰی بُصْرٰی، وَمَعَہُ نُعَیْْمَانُ وَسُوَیْبِطُ بْنُ حَرْمَلَۃَ، وَکِلَاھُمَا بَدْرِیٌّ، وَکَانَ سُوَیْبِطُ عَلَی الزَّادِ، فَجَائَ ہُ نُعَیْمَانُ فَقَالَ: اَطْعِمْنِیْ، فَقَالَ: لَا، حَتّٰییَاْتِیَ اَبُوْبَکْرٍ، وَ کَانَ نُعَیْمَانُ رَجُلًا مِضْحَاکًا مَزَّاحًا، فَقَالَ: لَاُغِیْظَنَّکَ، فَجَائَ اِلَی اُنَاسٍ جَلَبُوْا ظَھْرًا، فَقَالَ: ابْتَاعُوْا مِنِّیْ غُلَامًا عَرَبِیًّا فَارِھًا، وَھُوَ ذُوْ لِسَانٍ، وَلَعَلَّہُ یَقُوْلُ : اَنَا حُرٌّ، فَاِنْ کُنْتُمْ تَارِکِیْہِ لِذٰلِکَ فَدَعُوْنِیْ، لَا تُفْسِدُوْا عَلَیَّ غُلَامِیْ، فَقَالُوْا: بَلْ نَبْتَاعُہُ مِنْکَ بِعَشْرِ قَلَائِصَ، فَاَقْبَلَ بِھَا یَسُوْقُھَا، وَاَقْبَلَ بِالْقَوْمِ حَتَّی عَقَلَھَا، ثُمَّ قَالَ لِلْقَوْمِ: دُوْنَکُمْ ھُوَ ھٰذَا، فَجَائَ الْقَوْمُ، فَقَالُوْا: قَدِ اشْتَرَینَاکَ، قَالَ سُوَیْبِطُ: ھُوَ کَاذِبٌ اَنَا رَجُلٌ حُرٌّ، فَقَالُوْا: قَدْ اَخْبَرَنَا خَبْرَکَ وَطَرَحُوْا الْحَبْلَ فِیْ رَقَبَتِہِ، فَذَھَبُوْا بِہٖفَجَائَاَبُوْبَکْرٍفَاَخْبَرَ، فَذَھَبَ ھُوَ وَاَصْحَابٌ لَہُ، فَرَدُّوْا الْقَلَائِصَ وَاَخَذُوْہُ، فَضَحِکَ مِنْھَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَاَصْحَابُہُ حَوْلًا۔ (مسند احمد: ۲۷۲۲۲)

۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ تجارت کی غرض سے بصری کی طرف نکلے، سیدنا نعیمان اور سیدنا سویبط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بھی ان کے ساتھ تھے، یہ دونوں بدری صحابی تھے، زادِ سفر سیدنا سویبط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس تھے، سیدنا نعیمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے پاس آئے اور کہا: مجھے کھانا کھلاؤ، انھوں نے کہا: جی نہیں،یہاں تک کہ سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آجائیں۔ سیدنا نعیمان بہت زیادہ ہنسانے والے اور مذاق کرنے والے آدمی تھے، پس انھوں نے کہا: میں تجھے ضرور ضرور غصہ دلاؤں گا، پس وہ ایسے لوگوں کے پاس گئے جو سواریاں لے کر جا رہے تھے اور ان سے کہا: تم لوگ مجھ سے ایک پھرتیلا اور چست عربی غلام خرید لو، البتہ وہ زبان دراز ہے، ممکن ہے کہ وہ یہ کہے کہ وہ تو آزاد شخص ہے، اگر اس کی اس بات کی وجہ سے تم نے اس کو چھوڑ دینا ہے تو پھر سودا ہی رہنے دو اور مجھ پر میرے غلام کو خراب نہ کرو، انھوں نے کہا: نہیں، بلکہ ہم تجھ سے دس اونٹنیوں کے عوض خریدیں گے، پس سیدنا نعیمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس ساتھی کو کھینچ کر لے آئے اور اس کو لوگوں کے سامنے لا کر باندھ دیا اور ان کو کہا: یہ لو، وہ غلام یہ ہے، پس لوگ آئے اور انھوں نے اس سے کہا: ہم نے تجھے خرید لیا ہے، سیدنا سویبط ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: وہ جھوٹا ہے، میں تو آزاد آدمی ہوں، انھوں نے کہا: اس نے ہمیں تیری ساری بات بتلا دی ہے، پھر انھوں نے اس کی گردن میں رسی ڈالی اور اس کو لے گئے، اتنے میں اُدھر سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آ گئے اور انھوں نے ان کو واقعہ کی خبر دی، پس وہ اور ان کے ساتھی گئے اور ان کی اونٹنیاں واپس کر کے اس کو واپس لے آئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور صحابہ ایک سال تک اس واقعہ سے ہنستے رہے۔

۔ (۹۹۲۲)۔ عَنْ عَبْدِ الْحَمِیْدِ بْنِ صَیْفِیِّ، عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہِ، قَالَ: اِنَّ صُھَیْبًا قَدِمَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبَیْنَیَدَیْہِ تَمْرٌ وَخُبْزٌ، فَقَالَ: ((ادْنُ فَکُلْ)) فَاَخَذَ یَاْکُلُ مِنَ التَّمْرِ۔ فقَالَ لَہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((اِنَّ بِعَیْنِکَ رَمَدًا۔)) فَقَالَ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اِنّمَا آکُلُ مِنَ النَّاحِیَۃِ الْاُخْرٰی، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۳۵۶۷)

۔ عبد الحمید بن صیفی اپنے باپ اور وہ ان کے دادے سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا صہیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سامنے خشک کھجوراور روٹی پڑی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: قریب ہو جا اور کھا۔ پس اس نے کھانا شروع کر دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے کہا: بیشک تیری آنکھ بیمار ہے۔ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں دوسرے کنارے سے کھا لیتا ہوں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یہ بات سن کر مسکرا پڑے۔