۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ اللہ آدمیوں میں سے اس بلاغت جھاڑنے والے شخص کو سخت ناپسند کرتا ہے جو (منہ پھاڑ پھاڑ کر تکلف و تصنّع سے گفتگو کرتے ہوئے) اپنی زبان کو گائے کے جگالی کرنے کی طرح بار بار پھیرتا ہے۔
۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے بدترین لوگوں کے بارے میں بتاؤں؟ وہ ہیں جو فضول بولنے والے اور گفتگو کے لیے باچھوں کو موڑنے والے ہوں۔ نیز کیا تمہیں تمہارے بہترین افراد کے بارے میں بتاؤں؟ وہ ہیں جو تم میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھے ہوں۔
۔ سیدہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے، جو شعروں کی طرح کلام کی شقیں نکالتے ہیں۔
۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ عہد ِ نبوی میں مشرق کی طرف سے دو خطیب آدمی آئے، انھوں نے کھڑے ہو کر خطاب کیا اور پھر بیٹھ گئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطیب سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور گفتگو کرنے کے بعد وہ بھی بیٹھ گئے، پس لوگوں کو ان کی گفتگو سے بڑا تعجب ہوا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: لوگو! (طبعی انداز میں اور بغیر کسی تکلف اور تصنّع کے) اپنا مدّعا بیان کر دیا کرو، پس بیشک کلام کی شقیں نکالنا شیطان کی طرف سے ہے ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک بعض بیان جادو ہوتے ہیں۔
۔ (دوسری سند) اہل مشرق سے دو آدمی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف آئے اور انھوں نے ایسے انداز میں خطاب کیا کہ لوگ تعجب میںپڑ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیشک بعض بیان جادو ہوتے ہیں، بیشک بعض بیان جادو ہوتے ہیں۔
۔ سیدنا معن بن یزیدیا سیدنا ابو معن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسجدوں میں جمع ہو جاؤ، جب لوگ جمع ہو جائیں تو مجھے بتلانا۔ پس ہم سب سے پہلے جمع ہو گئے، پھر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ساتھ چلتے ہوئے تشریف لائے، یہاں تک کہ ہمارے پاس بیٹھ گئے، پھر ہم میں سے ایک مقرر نے کلام کیا اور کہا: ساری تعریف اس اللہ کے لیے ہے کہ جس سے پہلے کسی کی تعریف پر اقتصار نہیں ہے اور جس کی تعریف سے تجاوز نہیں کیا جا سکتا، یا اس قسم کی بات کی، لیکن ہوا یوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غصے ہو کر چلے گئے، ہم نے آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کیا اور کہا: اللہ تعالیٰ نے اس اعتبار سے ہم کو خاص کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب سے پہلے ہمارے پاس تشریف لائے اور اب یہ کچھ ہو گیا۔ پھر ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنو فلاں کی مسجد میں پایا، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے ساتھ چل پڑے،یہاں تک کہ اسی مقام میںیا اس کے قریب بیٹھ گئے اور فرمایا: بیشک ساری تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، اب یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کہ وہ اس تعریف کو موجودہ وقت سے پہلے بنائے یا اس کے بعد، اور بیشک بعض بیان تو جادو ہوتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں حکم دیئے، ہم سے کلام کیا اور ہمیں بعض امور کی تعلیم دی۔
۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت اس وقت تک بپا نہیں ہو گی، جب تک ایسے لوگ نہ نکل آئیں، جو اپنی زبانوں سے اس طرح کھائیں گے، جیسے گائے اپنی زبان سے کھاتی ہے۔
۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اسے دیکھ کر) فرمانے لگے: اس آدمی کو اجازت دے دو، یہ اپنے خاندان کا برا فرد ہے۔ پھر جب وہ اندر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ساتھ نرم برتاؤ کیا، جب وہ چلا گیا تو میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! پہلے تو آپ نے جو کچھ کہا وہ کہا، پھر اس کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا،(ان دو قسم کے رویوں کی کیا وجہ ہے)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! اللہ تعالیٰ کے ہاں قیامت والے دن مرتبہ کے اعتبار سے بدترین لوگ وہ ہوں گے کہ جن کے شرّ سے بچنے کے لیے لوگ ان سے لاتعلق ہو جائیں۔ ایک روایت میں ہے: بدترین لوگ وہ ہیں کہ جن کے شرّ سے بچنے کے لیے ان کی عزت کی جاتی ہو۔
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمایا: یہ اپنے خاندان کا برا آدمی ہے۔ پھر جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ساتھ خوشی اور بے تکلفی سے پیش آئے، پھر وہ آدمی چلا گیا، اتنے میں ایک دوسرا آدمی آ گیا، اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ اپنے خاندان کا بہترین آدمی ہے۔ پھر جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ساتھ نہ اس طرح بے تکلفی سے پیش نہ آئے، جیسے پہلے سے آئے تھے اور نہ اس کے ساتھ خوش ہوئے، جب وہ یہ آدمی بھی چلا گیا تو میں (عائشہ) نے کہا: اے اللہ کے رسول! جب فلاں آدمی نے آپ سے اجازت طلب کی تو آپ نے اس کو خاندان کا برا آدمی قرار دیا، لیکن پھر اس کے ساتھ خوش اور بے تکلفی سے پیش آئے اور فلاں آدمی کے بارے میں تبصرہ تو اچھا کیا، لیکن اس کے ساتھ وہ سلوک نہیں کیا، جو پہلے سے کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! بدترین لوگ وہ ہیں کہ جن کے شر سے بچا جاتا ہے۔