۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کسی کو اس کا عمل نجات نہیں دلائے گا۔ لوگوں نے کہا: اور نہ آپ کو، اے اللہ کے رسول!؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور نہ مجھے، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت میں ڈھانپ لے، پس راہِ صواب پر چلو، میانہ روی اختیار کرو، دن کے شروع میں کچھ چل لو، دن کے آخر میں کچھ چل لو اور کچھ رات کو، اور میانہ روی اختیار کرو، اعتدال کو اپناؤ، اپنے مقصد کو پا لو گے۔
۔ (دوسری سند) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جس کو اس کا عمل نجات دلا سکے۔ لوگوں نے کہا: اور نہ آپ؟ اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور نہ میں، الّا یہ کہ میرا ربّ مجھے اپنی طرف سے بخشش اور رحمت میں ڈھانپ لے، اور نہ میں، الّا یہ کہ میرا ربّ مجھے اپنی طرف سے بخشش اور رحمت میں ڈھانپ لے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو یا تین بارے ایسے ارشاد فرمایا۔
۔ (تیسری سند) اسی طرح کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا، وہب راوی نے وضاحت کرتے ہوئے ہاتھ کو بند کیا اور کھولا۔
۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی فرد جنت میں ہر گز داخل نہیں ہو گا، مگر اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ۔ ہم نے کہا: اورآپ بھی نہیں؟ اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اور نہ میں، الّا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔ ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے سر کے اوپر اشارہ کیا۔
۔ ضمضم بن ہوس یمانی سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مجھے کہا: اے یمامی! تو نے کسی آدمی کو ہر گز اس طرح نہیں کہنا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ تجھے نہیں بخشے گا، یا اللہ تعالیٰ تجھ کو کبھی بھی جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! ہم میں جب کوئی آدمی ناراض ہوتا ہے تو وہ اپنے بھائی اور ساتھی پر یہ جملے کستا ہے، انھوں نے کہا: پس تو نے اس طرح نہیں کہنا، کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: بنواسرائیل میں دو آدمی تھے، ان دونوں میں بھائی چارہ تھا، ان میں سے ایک عبادت میں بڑی محنت کرنے والا تھا اور دوسرا اپنی جان پر زیادتی کرنے والا تھا، عبادت گزار دوسرے آدمی کو گناہوں میںملوث دیکھتا رہتا تھا اور اس کو کہتا تھا: او فلاں! باز آ جا، لیکن وہ کہتا: تو رہنے دے مجھے اور میرے ربّ کو، کیا تجھے مجھ پر نگہبان بنا کر بھیجا گیا ہے، ایک دن اس عبادت گزار کو اس کو ایسے گناہ میں ملوث پایا، جس کو اس نے بڑا سمجھا، پس اس نے اس سے کہا: او تو ہلاک ہو جائے، باز آ جا، اس نے حسب ِ روٹین کہا: تو رہنے دے مجھے اور میرے ربّ کو، کیا تجھے مجھ پر نگہبان بنا کر بھیجا گیا ہے، لیکن اس بار اس نے یہ بھی کہہ دیا: اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ تجھے نہیں بخشے گا، یا اللہ تعالیٰ تجھے کبھی بھی جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی طرف فرشتے کو بھیجا اور ان کی روحیں قبض کر لیں، پس وہ دونوں اللہ تعالیٰ کے ہاں جمع ہو گئے، اللہ تعالیٰ نے گنہگار سے کہا: تو جا اور میری رحمت کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جا اور دوسرے سے کہا: کیا تو میرے بارے میںجاننے والا تھا؟ میرے ہاتھ میں جو کچھ ہے، کیا تو اس کا خزانچی تھا، لے جاؤ اس کو آگ کی طرف۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو القاسم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جان ہے! اس آدمی نے ایسی بات کر دی کہ جس نے اس کی دنیا اور آخرت کو تباہ کر دیا۔