۔ سیدنا ابو رزین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہمارا ربّ اس بات پر ہنستا ہے کہ اس کا بندہ ناامید ہو رہا ہوتا ہے، جبکہ اس کے حالات کی تبدیلی قریب ہوتی ہے۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا ربّ تعالیٰ بھی ہنستا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں، ہم ہنسنے والے ربّ کے ہاں خیر کو مفقود نہیں پائیں گے۔
۔ سیدنا عباس بن مرداس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرفہ کی شام کو اپنی امت کے لیے کثرت کے ساتھ مغفرت اور رحمت کی دعا، پس اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا قبول کی اور فرمایا: بے شک تحقیق میں نے کر دیا ہے اور تیری امت کو بخش دیا ہے، مگر وہ جو یہ خود ایک دوسرے پر ظلم کریں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے میرے ربّ! تو اس چیز پر قادر ہے کہ تو ظالم کو بخش دے اور مظلوم کو اس پر کے گئے ظلم سے بہتر اجر و ثواب عطا کر دے۔ اس شام کو تو یہی کچھ ہوا تھا، یعنی عرفہ کی شام کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کییہ دعا قبول نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ بعض روایاتمیں ہے، جب اگلا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مزدلفہ کی صبح کو اپنی امت کے لیے دعا مانگنا شروع کی، جلد ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرانے لگ گئے، ایک صحابی نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ ایسی گھڑی میں مسکرائے ہیں، جس میں مسکرانا آپ کی عادت نہیں تھی، پس کس چیز نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنسایا ہے؟ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دانت مبارک کو مسکراتا رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ کے دشمن ابلیس کی وجہ سے مسکرایا ہوں، جب اس کو علم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے حق میں میری دعا قبول کر لی ہے اور ظالم کو بھی بخش دیا ہے تو اس نے ہلاکت کو پکارا اور اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا، پس میں اس جزع و فزع کو دیکھ کر مسکرانے لگا۔
۔ سیدنا فضالہ بن عبادہ اور سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا اور اللہ تعالیٰ مخلوق کے فیصلے سے فارغ ہو جائے گا، تو دو بندے ابھی تک باقی کھڑے ہوں گے، ان کے بارے میں جہنم کا حکم دیا جائے گا، جب ان میں سے ایک پلٹ کر دیکھے گا تو جبّار تعالیٰ کہے گا: اس کو واپس لاؤ، پس فرشتے اس کو واپس لائیں گے، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: تو نے پلٹ کر کیوں دیکھا ہے؟ وہ کہے گا: مجھے تو یہ امید تھی کہ تو مجھے جنت میں داخل کرے گا، پس اس کے لیے جنت کا حکم دے دیا جائے گا، پھر وہ کہے گا: تحقیق اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ کچھ عطا کر دیا ہے کہ اگر میں جنتیوں کو کھانا کھلا دوں، تو اس سے میرے پاس جو کچھ ہے، اس میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ بات ذکر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے پر سرور نظر آ رہا تھا۔
۔ مولائے رسول سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ مجھے اس آیت کے بدلے دنیا ومافیہا مل جائے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے، اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بیشک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے، بیشک وہ بہت بخشنے والا بہت رحم کرنے والا ہے۔ ایک بندے نے کہا: اے اللہ کے رسول! اور جو شخص شرک کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے اور پھر تین بار فرمایا: مگر جو شرک کرے۔