مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

اہلِ مدینہ کی خواتین کی بیعت کا بیان

۔ (۱۰۶۶۵)۔ حَدَّثَنَاإِسْمَاعِیلُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ عَطِیَّۃَ الْأَنْصَارِیُّ عَنْ جَدَّتِہِ أُمِّ عَطِیَّۃَ، قَالَتْ: لَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْمَدِینَۃَ، جَمَعَ نِسَائَ الْأَنْصَارِ فِی بَیْتٍ، ثُمَّ بَعَثَ إِلَیْہِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، قَامَ عَلَی الْبَابِ فَسَلَّمَ، فَرَدَدْنَ عَلَیْہِ السَّلَامَ، فَقَالَ: أَنَا رَسُولُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْکُنَّ، قُلْنَا: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللّٰہِ وَرَسُولِ رَسُولِ اللّٰہِ وَقَالَ: ((تُبَایِعْنَ عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا، وَلَا تَزْنِینَ وَلَا تَقْتُلْنَ أَوْلَادَکُنَّ، وَلَا تَأْتِینَ بِبُہْتَانٍ تَفْتَرِینَہُ بَیْنَ أَیْدِیکُنَّ وَأَرْجُلِکُنَّ، وَلَا تَعْصِینَہُ فِی مَعْرُوفٍ۔)) قُلْنَا: نَعَمْ! فَمَدَدْنَا أَیْدِیَنَا مِنْ دَاخِلِ الْبَیْتِ، وَمَدَّ یَدَہُ مِنْ خَارِجِ الْبَیْتِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّہُمَّ اشْہَدْ! وَأَمَرَنَا بِالْعِیدَیْنِ أَنْ نُخْرِجَ الْعُتَّقَ وَالْحُیَّضَ، وَنَہٰی عَنِ اتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ، وَلَا جُمُعَۃَ عَلَیْنَا، وَسَأَلْتُہَا عَنْ قَوْلِہِ: {وَلَا یَعْصِینَکَ فِی مَعْرُوفٍ} قَالَتْ: نُہِینَا عَنِ النِّیَاحَۃِ۔ (مسند احمد: ۲۱۰۷۸)

سیدہ ام عطیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے کہ جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے انصار کی خواتین کو ایک گھر میں جمع کیا اور سیدنا عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ان کی طرف بھیجا، وہ جا کر دروازے پر کھڑے ہو گئے اور سلام کہا، ان عورتوں نے سلام کا جواب دیا، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: میں تمہاری طرف رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا قاصد ہوں۔ ہم نے کہا: ہم اللہ کے رسول اور اللہ کے رسول کے قاصد کو مرحبا اور خوش آمدید کہتی ہیں، سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: تم ان امور پر بیعت کرو کہ تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو کو شریک نہیں ٹھہراؤ گی، زنا نہیں کرو گی، اپنی اولادوں کو قتل نہیں کرو گی،تم از خود کوئی بات بنا کر کسی پر بہتان طرازی نہیں کرو گی اور نوحہ نہیں کرو گی۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے۔ پھر ہم نے گھر کے اندر سے اپنے ہاتھ آگے کو بڑھائے اور انھوں نے باہر ہی سے اپنا بڑھایا، ہاتھ ملائے بغیر ہی محض اشارے سے بیعت ہوئی۔ پھر انھوں نے فرمایا: یا اللہ! گواہ رہنا۔ انھوں نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم عیدین کے موقعہ پر نوجوان لڑکیوں کو اور حیض والی خواتین کو بھی باہر، عیدگاہ کی طرف عید کے لیے لے جایا کریں اور انھوں نے ہمیں جنازوں کے ساتھ جانے سے منع فرمایا، نیز فرمایا کہ ہمارے لیے جمعہ کی حاضری ضروری نہیں۔ اسمٰعیل بن عبدالرحمن کہتے ہیں: میں نے اپنی دادی سے دریافت کیا کہ حدیث میں وارد لفظ {وَلَا یَعْصِینَکَ فِی مَعْرُوفٍ} سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا کہ اس لفظ کے ذریعے ہمیںنوحہ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔

۔ (۱۰۶۶۶)۔ عَنْ أُمَیْمَۃَ بِنْتِ رُقَیْقَۃَ قَالَتْ أَتَیْتُ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی نِسَائٍ نُبَایِعُہُ فَأَخَذَ عَلَیْنَا مَا فِی الْقُرْآنِ أَنْ لَا نُشْرِکَ بِاللّٰہِ شَیْئًا الْآیَۃَ قَالَ: ((فِیمَا اسْتَطَعْتُنَّ وَأَطَقْتُنَّ۔)) قُلْنَا اللّٰہُ وَرَسُولُہُ أَرْحَمُ بِنَا مِنْ أَنْفُسِنَا، قُلْنَا یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَلَا تُصَافِحُنَا؟ قَالَ: ((إِنِّی لَا أُصَافِحُ النِّسَائَ إِنَّمَا قَوْلِی لِامْرَأَۃٍ وَاحِدَۃٍ کَقَوْلِی لِمِائَۃِ امْرَأَۃٍ۔)) (مسند احمد: ۲۷۵۴۹)

سیدہ امیمہ بنت رقیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میں عورتوں کے ساتھ مل کر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس حاضر ہوئی، ہم نے آپ سے بیعت کی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہم سے قرآن پاک میں بیان کئے گئے اصولوں پر بیعت لی کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کریں گی، (آیت آخر تک)، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ان شقوں پر تم نے اتنا عمل کرنا ہے، جتنی تم میں طاقت اور قوت ہو گی۔ ہم نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول تو ہمارے ساتھ ہمارے نفسوں سے بھی زیادہ رحم کرنے والے ہیں، ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ ہمارے ساتھ مصافحہ کیوں نہیں کرتے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں اجنبی عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، میرا سو خواتین سے عہد لینا، ایسے ہی ہے جیسے ایک عورت سے عہد لیتا ہوں۔

۔ (۱۰۶۶۷)۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ جَدِّہِ قَالَ: جَائَ تْ أُمَیْمَۃُ بِنْتُ رُقَیْقَۃَ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تُبَایِعُہُ عَلَی الْإِسْلَامِ، فَقَالَ: ((أُبَایِعُکِ عَلٰی أَنْ لَا تُشْرِکِی بِاللّٰہِ شَیْئًا، وَلَا تَسْرِقِی، وَلَا تَزْنِی وَلَا تَقْتُلِی وَلَدَکِ، وَلَا تَأْتِی بِبُہْتَانٍ تَفْتَرِینَہُ بَیْنَیَدَیْکِ وَرِجْلَیْکِ، وَلَا تَنُوحِی، وَلَا تَبَرَّجِی تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولٰی۔)) (مسند احمد: ۶۸۵۰)

سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ سیدہ امیمہ بنت رقیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا ،رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں اسلام کی بیعت کرنے کی غرض سے حاضر ہوئی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تم سے اس بات کی بیعت لیتا ہوں کہ تم اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤ گی، چوری اور زنانہیں کرو گی، اپنے بچوں کو قتل نہ کرو گی، اور از خود گھڑ کر کسی پر بہتان طرازی نہیں کرو گی، نوحہ نہیں کرو گی اور پہلی جاہلیت کی طرح سرِ عام بے پردہ نہ گھومو گی۔