مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی ولادت اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے شادی کا بیان

۔ (۱۰۶۷۱)۔ عَنْ أَسْمَائَ أَنَّہَا حَمَلَتْ بِعَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ بِمَکَّۃَ، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ وَأَنَا مُتِمٌّ، فَأَتَیْتُ الْمَدِینَۃَ فَنَزَلْتُ بِقُبَائَ فَوَلَدْتُہُ بِقُبَائَ، ثُمَّ أَتَیْتُ بِہِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَوَضَعْتُہُ فِی حِجْرِہِ، ثُمَّ دَعَا بِتَمْرَۃٍ فَمَضَغَہَا ثُمَّ تَفَلَ فِی فِیہِ، فَکَانَ أَوَّلَ مَا دَخَلَ فِی جَوْفِہِ رِیقُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَتْ: ثُمَّ حَنَّکَہُ بِتَمْرَۃٍ، ثُمَّ دَعَا لَہُ وَبَرَّکَ عَلَیْہِ، وَکَانَ أَوَّلَ مَوْلُودٍ وُلِدَ فِی الْإِسْلَامِ۔ (مسند احمد: ۲۷۴۷۷)

سیدہ اسماء بنت ابی بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ وہ عبداللہ بن زبیر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مکہ میں حاملہ ہو گئی تھیں، وہ کہتی ہیں: میں جب مکہ سے سفر ہجرت پر روانہ ہوئی تو ایام حمل پورے ہو چکے تھے، میں مدینہ منورہ آئی اور قباء میں قیام کیا، وہیں میں نے بچے کو جنم دیا، میں اسے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں لائی اور میں نے اسے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی گود میں رکھ دیا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کھجور منگوا کر اسے چبایا اور اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈال دیا، اس کے پیٹ میں سب سے پہلے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا لعاب مبارک داخل ہوا۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے کھجور کی گھٹی دی اور اس کے حق میں برکت کی دعا کی، اسلام کے دور میں یہ سب سے پہلا پیدا ہونے والا بچہ تھا۔

۔ (۱۰۶۷۲)۔ عَنْ عُرْوَۃَ عَنْ عَائِشَۃَ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا قَالَتْ: تَزَوَّجَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِیْ شَوَّالٍ وَبَنٰی بِیْ فِیْ شَوَّالٍ، فَأیُّ نِسَائِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کَانَ اَحْظٰی عِنْدَہُ مِنِّیْ، وَکَانَتْ عَائِشَۃُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تَدْخُلَ نِسَائُھَا فِیْ شَوَّالٍ۔ (مسند احمد: ۲۶۲۳۵)

سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ( قبل از ہجرت) ماہِ شوال میں مجھ سے نکاح کیا تھا اور ( بعد ازہجرت) ماہ شوال میں میری رخصتی ہوئی، تو کونسی بیوی مجھ سے بڑھ کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی منظورِ نظر تھی، اور سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اس بات کو پسند کرتی تھیں کہ اپنے خاندان کی عورتوں کی ماہِ شوال میں شادی کریں۔

۔ (۱۰۶۷۳)۔ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ عُمَیْسٍ قَالَتْ: کُنْتُ صَاحِبَۃَ عَائِشَۃَ الَّتِی ہَیَّأَتْہَا وَأَدْخَلَتْہَا عَلَی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَمَعِیْ نِسْوَۃٌ، قَالَتْ: فَوَاللّٰہِ! مَا وَجَدْنَا عِنْدَہُ قِرًی إِلَّا قَدَحًا مِنْ لَبَنٍ، قَالَتْ: فَشَرِبَ مِنْہُ ثُمَّ نَاوَلَہُ عَائِشَۃَ، فَاسْتَحْیَتِ الْجَارِیَۃُ، فَقُلْنَا: لَا تَرُدِّییَدَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خُذِی مِنْہُ، فَأَخَذَتْہُ عَلَی حَیَائٍ، فَشَرِبَتْ مِنْہُ، ثُمَّ قَالَ: ((نَاوِلِی صَوَاحِبَکِ۔)) فَقُلْنَا: لَا نَشْتَہِہِ، فَقَالَ:((لَا تَجْمَعْنَ جُوعًا وَکَذِبًا۔)) قَالَتْ: فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِنْ قَالَتْ إِحْدَانَا لِشَیْئٍ تَشْتَہِیہِ: لَا أَشْتَہِیہِ،یُعَدُّ ذَلِکَ کَذِبًا، قَالَ: ((إِنَّ الْکَذِبَ یُکْتَبُ کَذِبًا حَتَّی تُکْتَبَ الْکُذَیْبَۃُ کُذَیْبَۃً۔)) (مسند احمد: ۲۸۰۱۹)

سیدہ اسماء بنت عمیس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں:میں نے سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں روانہ کرتے وقت ان کو تیار کیا، چند دوسری خواتین بھی میرے ساتھ تھیں، اللہ کی قسم! ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاں دودھ کے ایک پیالے کے سوا مزید کوئی مہمانی نہ پائی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے دودھ نوش فرمایا اور پھر وہ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو تھما دیا، انھوں نے دلہن ہونے کی وجہ سے دودھ نوش کرنے میں جھجک محسوس کی، لیکن ہم نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ یوں نہ واپس کرو اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے پیالہ پکڑ لو، انہوں نے جھجکتے ہوئے پیالہ لے کر اس سے نوش کیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اپنی ان سہیلیوں کو دے دو، تو ہم نے عرض کیا، ہمیں اس کی حاجت نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ اور بھوک کو یکجا نہ کرو۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کو کسی چیز کی حاجت تو ہو مگر وہ ویسے ہی کہہ دے کہ مجھے حاجت نہیں تو کیا یہ بھی جھوٹ لکھا جائے گا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جھوٹ کو جھوٹ ہی لکھا جاتا ہے اور چھوٹا جھوٹ چھوٹا ہی لکھا جاتا ہے۔ شہر بن حوشب سے مروی ہے کہ وہ ایک دن قبیلہ بنو عبد الاشھل کی ایک خاتون سیدہ اسماء بنت یزید بن سکن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں گئے، انہوں نے اس کے سامنے کھانا پیش کیا، تو انہوں نے کہا کہ مجھے کھانے کی طلب نہیں،انہوں نے کہا: میں نے اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو ان کی شادی کی موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی طرف روانہ کرتے وقت تیار کیا تھا، پھر میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئی اور میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے ملوانے کے لئے بلایا، آپ آکر ان کے پہلو میں بیٹھ گئے، دودھ کا ایک پیالہ پیش کیا گیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس سے نوش فرمایا اور پھر آپ نے باقی ماندہ سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو دیا، انہوں نے سر جھکا لیا اور شرما گئیں۔ سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کو جھڑک دیا اور کہا کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ہاتھ سے پیالہ پکڑ لو، چنانچہ انہوں نے پیالہ لے کر اس سے کچھ پی لیا۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدہ عائشہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے فرمایا: اپنی سہیلی کو دے دو۔ سیدہ اسمائ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول! آپ لیں اور نوش فرمائیں، اس کے بعد مجھے عنایت فرمائیں، چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے پیالہ لے کر اس میں سے کچھ نوش کیا اور پھر وہ مجھے تھما دیا، وہ کہتی ہیں کہ میں نے بیٹھ کر اسے اپنے گھٹنے پر رکھا اور اسے گھمانے لگی اور اپنے ہونٹ اس پر پھیرنے لگی تاکہ میرے ہونٹ اس مبارک مقام پر لگ جائیں، جہاں منہ رکھ کر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نوش فرمایا ہے۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وہاں میرے پاس موجود خواتین کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ انہیں بھی دو، تو انہوں نے کہا ہمیں حاجت نہیں ہے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ اور بھوک کو جمع نہ کرو، پس کیا تو اس بات سے باز نہیں آئے گی کہ مجھے حاجت نہیں ہے؟ میں نے کہا: اماں جان! میں آئندہ ایسے نہ کہوں گی۔