امام نافع سے مروی ہے کہ سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب مسلمان ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو وہ جمع ہو کر نماز کے وقت انتظار کیا کرتے تھے، اس وقت کوئی بھی اذان دینے والا نہیں ہوتا تھا، ایک دن صحابہ نے اس بارے میں گفتگو شروع کی، بعض نے کہا کہ عیسائیوں کے ناقوس جیسا ناقوس بنا لو۔ بعض نے کہا کہ ناقوس تو نہیں ہونا چاہیے، البتہ یہودیوں کی طرح کا ایک سینگ مقرر کر لو۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم اس طرح کیوں نہیں کرتے کہ کسی کو بھیج دیا کرو جو نماز کا اعلان کر دیا کرے؟ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بلال! اُٹھو اور نماز کا اعلان کرو۔
پھر سیدنا عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ رضی اللہ عنہ نے خواب میں اذان دیکھی اور آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی، نماز کے ابواب میں اذان کی مکمل تفصیل گزر چکی ہے۔
سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مکہ میں نماز کی دو دو رکعتیں فرض ہوئی تھیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہر دو رکعت کے ساتھ مزید دو رکعتوں کا اضافہ کر دیا تھا، ما سوائے مغرب کے، کیونکہ وہ دن کی طاق نماز ہے اور ما سوائے نمازِ فجر کے، کیونکہ ان میں قراء ت طویل ہوتی ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر پر روانہ ہوتے تو پہلے کی طرح نماز ادا فرماتے۔