مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

یہود اور منافقینِ مدینہ کی نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عداوت ومخالفت کابیان

۔ (۱۰۶۷۷)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَقْبَلَتْ یَہُودُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالُوْا: یَا أَبَا الْقَاسِمِ! إِنَّا نَسْأَلُکَ عَنْ خَمْسَۃِ أَشْیَائَ، فَإِنْ أَنْبَأْتَنَا بِہِنَّ عَرَفْنَا أَنَّکَ نَبِیٌّ وَاتَّبَعْنَاکَ، فَأَخَذَ عَلَیْہِمْ مَا أَخَذَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی بَنِیہِ إِذْ قَالُوْا: {اللّٰہُ عَلٰی مَا نَقُولُ وَکِیلٌ} قَالَ: ((ہَاتُوْا۔)) قَالُوْا: أَخْبِرْنَا عَنْ عَلَامَۃِ النَّبِیِّ، قَالَ: ((تَنَامُ عَیْنَاہُ وَلَا یَنَامُ قَلْبُہُ۔))، قَالُوْا: أَخْبِرْنَا کَیْفَ تُؤَنِّثُ الْمَرْأَۃُ وَکَیْفَ تُذْکِرُ؟ قَالَ: ((یَلْتَقِی الْمَائَ انِِ فَإِذَا عَلَا مَائُ الرَّجُلِ مَائَ الْمَرْأَۃِ أَذْکَرَتْ، وَإِذَا عَلَا مَائُ الْمَرْأَۃِ آنَثَتْ۔))، قَالُوْا: أَخْبِرْنَا مَا حَرَّمَ إِسْرَائِیلُ عَلٰی نَفْسِہِ، قَالَ: ((کَانَ یَشْتَکِی عِرْقَ النَّسَا فَلَمْ یَجِدْ شَیْئًایُلَائِمُہُ إِلَّا أَلْبَانَ کَذَا وَکَذَا۔)) قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْن أَحْمَد: قَالَ أَبِی: قَالَ بَعْضُہُمْ: یَعْنِی الْإِبِلَ فَحَرَّمَ لُحُومَہَا، قَالُوْا: صَدَقْتَ، قَالُوْا: أَخْبِرْنَا مَا ہٰذَا الرَّعْدُ؟ قَالَ: ((مَلَکٌ مِنْ مَلَائِکَۃِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ مُوَکَّلٌ بِالسَّحَابِ بِیَدِہِ، أَوْ فِییَدِہِ مِخْرَاقٌ مِنْ نَارٍ، یَزْجُرُ بِہِ السَّحَابَ، یَسُوقُہُ حَیْثُ أَمَرَ اللّٰہُ۔)) قَالُوْا: فَمَا ہٰذَا الصَّوْتُ الَّذِییُسْمَعُ؟ قَالَ: ((صَوْتُہُ۔))، قَالُوْا: صَدَقْتَ، إِنَّمَا بَقِیَتْ وَاحِدَۃٌ وَہِیَ الَّتِی نُبَایِعُکَ إِنْ أَخْبَرْتَنَا بِہَا، فَإِنَّہُ لَیْسَ مِنْ نَبِیٍّ إِلَّا لَہُ مَلَکٌ یَأْتِیہِ بِالْخَبَرِ، فَأَخْبِرْنَا مَنْ صَاحِبُکَ؟ قَالَ: ((جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام۔)) قَالُوْا: جِبْرِیلُ؟ ذَاکَ الَّذِییَنْزِلُ بِالْحَرْبِ وَالْقِتَالِ وَالْعَذَابِ عَدُوُّنَا۔ لَوْ قُلْتَ: مِیکَائِیلَ الَّذِییَنْزِلُ بِالرَّحْمَۃِ وَالنَّبَاتِ وَالْقَطْرِ لَکَانَ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ: {مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِجِبْرِیلَ} إِلَی آخِرِ الْآیَۃَ۔ (مسند احمد: ۲۴۸۳)

سیدنا عبد اللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہما بیان کرتے ہیں کہ یہودی لوگ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: اے ابوالقاسم! ہم آپ سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال کریں گے، اگر آپ ان کے جوابات دیں گے تو ہم پہچان جائیں گے کہ آپ برحق نبی ہیں اور ہم آپ کی اتباع بھی کریں گے، آپ نے ان سے اس طرح عہد لیا، جس طرح یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے عہد لیا تھا، جب انھوں نے کہا تھا ہم جو بات کر رہے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ وکیل ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: و ہ سوال پیش کرو۔ (۱) انہوں نے کہا: ہمیں نبی کی نشانی بتائیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نبی کی آنکھیں سوتی ہیں اور اس کا دل نہیں سوتا۔ (۲) انھوں نے کہا: یہ بتائیں کہ نر اورمادہ کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: مردوزن کا آب جو ہر دونوں ملتے ہیں، جب آدمی کا پانی عورت کے پانی پر غالب آتا ہے، تو نر پیدا ہوتا ہے اور جب عورت کا آب جو ہر غالب آتا ہے تو مادہ پیدا ہوتی ہے۔ (۳) انہوں نے کہا: ہمیں بتائو کہیعقوب علیہ السلام نے خود پر کیا حرام قرار دیا تھا؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: انہیں عرق نسا کی بیماری تھی، انہیں صرف اونٹنیوں کا دودھ موافق آیا، تو صحت ہونے پر اونٹوں کا گوشت خود پر حرام قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا: آپ سچ کہتے ہیں، (۴) اچھا یہ بتائیں کہ یہ گرج کیا ہے؟آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے، جس کے سپرد بادل ہیں۔ اس فرشتہ کے ہاتھ میں آگ کا ہنٹرہے، جس کے ساتھ وہ اس جگہ بادلوں کو چلاتا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا: یہ آواز کیا ہے جو سنی جاتی ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ اسی ہنٹر کی آواز ہے۔ انہوں نے کہا: آپ نے سچ کہا ہے۔ (۵) انہوں نے کہا: ایک بات رہ گئی ہے، اگر آپ اس کا جواب دیں گے تو ہم آپ کی بیعت کریں گے، وہ یہ ہے کہ ہر نبی کے لئے ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، جواس کے پاس بھلائییعنی وحی لے کر آتا ہے، آپ بتائیں آپ کا فرشتہ ساتھی کون سا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جبریل علیہ السلام ہیں۔ اب کی بار انھوں نے کہا: جبریل،یہ تو جنگ، لڑائی اور عذاب لے کر آتا ہے، یہ تو ہمارا دشمن ہے، اگر آپ میکائیل کہتے جو کہ رحمت، نباتات اور بارش کے ساتھ نازل ہوتا ہے، تو پھر بات بنتی، اللہ تعالیٰ نے اس وقت یہ آیت نازل کی: {قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہ نَزَّلَہ عَلٰی قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَیَدَیْہِ وَھُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُؤْمِنِیْنَ۔} … کہہ دے جو کوئی جبریل کا دشمن ہو تو بے شک اس نے یہ کتاب تیرے دل پر اللہ کے حکم سے اتاری ہے، اس کی تصدیق کرنے والی ہے جو اس سے پہلے ہے اور مومنوں کے لیے سرا سر ہدایت اور خوشخبری ہے۔ (سورۂ بقرہ: ۹۷)

۔ (۱۰۶۷۸)۔ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَنْ الْقِرَدَۃِ وَالْخَنَازِیرِ، أَہِیَ مِنْ نَسْلِ الْیَہُودِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَلْعَنْ قَوْمًا قَطُّ، فَمَسَخَہُمْ فَکَانَ لَہُمْ نَسْلٌ حِینَیُہْلِکُہُمْ،وَلٰکِنْ ہٰذَا خَلْقٌ کَانَ، فَلَمَّا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَی الْیَہُودِ، مَسَخَہُمْ فَجَعَلَہُمْ مِثْلَہُمْ۔))۔ (مسند احمد: ۳۷۴۷)

سیدناعبداللہ بن مسعود ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بندروں اور خنزیروں کے متعلق دریافت کیا کہ کیایہیہودیوں کی مسخ شدہ نسل سے ہیں؟ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایسا کبھی نہیں ہو اکہ کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم پرلعنت کرتے ہوئے انہیں مسخ کر دے اور انہیں ہلاک کر دے اور پھر ان کی نسل چلے، در حقیقتیہ مخلوق ان کے مسخ کئے جانے سے پہلے کی ہے، اللہ تعالیٰ جب یہود پر غضب ناک ہوا تو اس نے ان کو ان مخلوقات کی مانند بنا دیا تھا۔

۔ (۱۰۶۷۹)۔ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِیدٍ أَخِی بَنِی عَبْدِ الْأَشْہَلِ عَنْ سَلَمَۃَ بْنِ سَلَامَۃَ بْنِ وَقْشٍ، وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ، قَالَ: کَانَ لَنَا جَارٌ مِنْ یَہُودَ فِی بَنِی عَبْدِ الْأَشْہَلِ، قَالَ: فَخَرَجَ عَلَیْنَایَوْمًا مِنْ بَیْتِہِ قَبْلَ مَبْعَثِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِیَسِیرٍ، فَوَقَفَ عَلٰی مَجْلِسِ عَبْدِ الْأَشْہَلِ، قَالَ سَلَمَۃُ: وَأَنَا یَوْمَئِذٍ أَحْدَثُ مَنْ فِیہِ سِنًّا، عَلَیَّ بُرْدَۃٌ مُضْطَجِعًا فِیہَا بِفِنَائِ أَہْلِی، فَذَکَرَ الْبَعْثَ وَالْقِیَامَۃَ وَالْحِسَابَ وَالْمِیزَانَ وَالْجَنَّۃَ وَالنَّارَ، فَقَالَ: ذٰلِکَ لِقَوْمٍ أَہْلِ شِرْکٍ أَصْحَابِ أَوْثَانٍ لَا یَرَوْنَ أَنَّ بَعْثًا کَائِنٌ بَعْدَ الْمَوْتِ، فَقَالُوا لَہُ: وَیْحَکَیَا فُلَانُ! تَرٰی ہٰذَا کَائِنًا، إِنَّ النَّاسَ یُبْعَثُونَ بَعْدَ مَوْتِہِمْ إِلٰی دَارٍ فِیہَا جَنَّۃٌ وَنَارٌ، یُجْزَوْنَ فِیہَا بِأَعْمَالِہِمْ، قَالَ: نَعَمْ، وَالَّذِییُحْلَفُ بِہِ! لَوَدَّ أَنَّ لَہُ بِحَظِّہِ مِنْ تِلْکَ النَّارِ أَعْظَمَ تَنُّورٍ فِی الدُّنْیَایُحَمُّونَہُ، ثُمَّ یُدْخِلُونَہُ إِیَّاہُ، فَیُطْبَقُ بِہِ عَلَیْہِ، وَأَنْیَنْجُوَ مِنْ تِلْکَ النَّارِ غَدًا، قَالُوا لَہُ: وَیْحَکَ! وَمَا آیَۃُ ذٰلِکَ؟ قَالَ: نَبِیٌّیُبْعَثُ مِنْ نَحْوِ ہٰذِہِ الْبِلَادِ، وَأَشَارَ بِیَدِہِ نَحْوَ مَکَّۃَ وَالْیَمَنِ، قَالُوا: وَمَتٰی تَرَاہُ، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَیَّ وَأَنَا مِنْ أَحْدَثِہِمْ سِنًّا، فَقَالَ: إِنْ یَسْتَنْفِدْ ہٰذَا الْغُلَامُ عُمُرَہُ یُدْرِکْہُ، قَالَ سَلَمَۃُ: فَوَاللّٰہِ! مَا ذَہَبَ اللَّیْلُ وَالنَّہَارُ حَتّٰی بَعَثَ اللّٰہُ تَعَالٰی رَسُولَہُ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ حَیٌّ بَیْنَ أَظْہُرِنَا، فَآمَنَّا بِہِ وَکَفَرَ بِہِ بَغْیًا وَحَسَدًا، فَقُلْنَا: وَیْلَکَ،یَا فُلَانُ! أَلَسْتَ بِالَّذِی قُلْتَ لَنَا فِیہِ مَا قُلْتَ؟ قَالَ: بَلٰی وَلَیْسَ بِہ۔ (مسند احمد: ۱۵۹۳۵)

قبیلہ بنو عبدالاشہل کے سیدنا محمود بن لبید سلمہ بن سلامہ بن وقش سے روایت ہے، یہ اصحاب بدر میں سے تھے، کہتے ہیں کہ قبیلہ بنو عبدالا شھل کا ایکیہودی ہمارا ہمسایہ تھا، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بعثت سے کچھ دن پہلے ایک دن وہ اپنے گھر سے نکل کر قبیلہ عبدالاشھل کی ایک محفل میں آکھڑا ہوا، سلمہ کہتے ہیں کہ میں اس روز وہاں پر موجود سب سے کم سن تھا۔ میں ایک چادر اوڑھے اپنے گھر کے سامنے لیٹا ہوا تھا۔ اس یہودی نے مرنے کے بعد جی اُٹھنے قیامت، حساب وکتاب، میزان اور جنت وجہنم کا ذکر کیا۔ اس نے یہ باتیں ایسے لوگوں کے سامنے کی تھیں، جو مشرک اور بت پرست تھے، وہ مرنے کے بعد جی اُٹھنے پر ایمان واعتقاد نہ رکھتے تھے، انہوں نے اس سے کہا: ارے یہ کیا؟ تو بھی کہتا ہے کہ یہ کچھ ہو گا اور لوگ مرنے کے بعد ایک ایسے جہان میں اُٹھائے جائیں گے، جہاں جنت اور جہنم ہو گی اور لوگوں کو ان کے اعمال کی جزادی جائے گی؟ اس نے کہا: ہاں، اس ذات کی قسم جس کی قسم اُٹھائی جاتی ہے! میں تو یہ بھی پسند کرتا ہوں کہ دنیا میں آگ کا ایک بہت بڑا تنور ہو اور لوگ اس میں داخل ہو جائیں اور پھر اسے اوپر سے بند کر دیا جائے اور میں کل کو جہنم کی آگ سے بچ جاؤں۔ لوگوں نے اس سے کہا: تجھ پر افسوس، اس کی علامت کیا ہے؟ تو اس نے مکہ اور یمن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں سے ایک نبی مبعوث ہو گا لوگوں نے اس سے پوچھا ہم اس کو کب دیکھ سکیں گے؟ اس نے میری طرف دیکھا، میں ان میں سب سے کم سن تھا اور اس نے کہا: یہ لڑکا اگر زندہ رہا تو اپنی عمر تمام ہونے سے پہلے پہلے اسے دیکھلے گا۔ سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! کچھ دن رات ہی گزرے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو بھیج دیا اور وہ ہمارے درمیان زندہ موجود تھے۔ پس ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پر ایمان لے آئے اور اس نے بغض وحسد کی بنا پر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا کفر کیا، ہم نے اس سے کہا: اے فلاں! تجھ پر افسوس! کیا تو ہی وہ شخص نہیں، جس نے ہم سے اس نبی کے متعلق باتیں کی تھیں اور بتلایا تھا؟ اس نے کہا! ہاں، کیوں نہیں، لیکنیہ وہ نبی نہیں ہے۔

۔ (۱۰۶۸۰)۔ عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَۃَ الزُّہْرِیِّ قَالَ: مَرَّ بِیْیَہُوْدِیٌّ، وَأنَا قَائِمٌ خَلْفَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَالنَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَتَوَضَّأ، قَالَ: فَقَالَ: اِرْفَعْ أوِ اکْشِفْ ثَوْبَہُ عَنْ ظَہْرِہِ؟ قال: فَذَھَبْتُ بِہِ اَرْفَعُہُ، قَالَ: فَنَضَحَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی وَجْہِیْ مِنَ الْمَائِ۔ (مسند احمد: ۱۹۱۱۵)

سیدنا مسور بن مخرمہ زہری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وضو کر رہے تھے اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے کھڑا تھا، ایکیہودی میرے پاس سے گزرا اور اس نے کہا ان کی پشت پر سے کپڑا اوپر اُٹھاؤ، تو میں آپ کا کپڑا اوپر کو اٹھانے لگا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے چہرے پر پانیکے چھینٹے مارے۔

۔ (۱۰۶۸۱)۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ قَالَ: جَائَ جُرْمُقَانِیٌّ إِلَی أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: أَیْنَ صَاحِبُکُمْ ہٰذَا الَّذِییَزْعُمُ أَنَّہُ نَبِیٌّ؟ لَئِنْ سَأَلْتُہُ لَأَعْلَمَنَّ أَنَّہُ نَبِیٌّ أَوْ غَیْرُ نَبِیٍّ، قَالَ: فَجَائَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ الْجُرْمُقَانِیُّ: اِقْرَأْ عَلَیَّ أَوْ قُصَّ عَلَیَّ، فَتَلَا عَلَیْہِ آیَاتٍ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، فَقَالَ الْجُرْمُقَانِیُّ: ہٰذَا، وَاللّٰہِ الَّذِی جَائَ بِہِ مُوسٰی عَلَیْہِ السَّلَام، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أَحْمَد: ہٰذَا الْحَدِیثُ مُنْکَرٌ۔ (مسند احمد: ۲۱۱۷۶)

سیدناجابر بن سمرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ ایک عجمی قوم جرامقہ کا ایک فرد صحابہ کرام کے پاس آیا اور اس نے کہا: تمہارے وہ صاحب کہاں ہیں جو نبی ہونے کے دعوے دار ہیں؟ میں ان سے کچھ دریافت کر نا چاہتا ہوں ، تاکہ جان لوں کہ وہ نبی ہیںیا نہیں ؟ سیدنا جابر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور اس جرمقانی نے کہا: آپ میرے سامنے کچھ تلاوت کریںیا بیان کریں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس کے سامنے کتاب اللہ کی چند آیات کی تلاوت کی، جرمقانی نے کہا: اللہ کی قسم! موسیٰ علیہ السلام بھی ایسی ہی تعلیم لے کر آئے تھے۔ عبداللہ بن احمد نے کہا کہ یہ حدیث منکر ہے۔

۔ (۱۰۶۸۲)۔ عَنْ عُرْوَۃَ بْنِ الزُّبَیْرِ أَنَّ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ أَخْبَرَہُ: أَنَّ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم رَکِبَ حِمَارًا، عَلَیْہِ إِکَافٌ تَحْتَہُ قَطِیفَۃٌ فَدَکِیَّۃٌ، وَأَرْدَفَ وَرَائَہُ أُسَامَۃَ بْنَ زَیْدٍ، وَہُوَ یَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَۃَ فِی بَنِی الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَذٰلِکَ قَبْلَ وَقْعَۃِ بَدْرٍ، حَتّٰی مَرَّ بِمَجْلِسٍ، فِیہِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِینَ وَالْمُشْرِکِینَ عَبَدَۃِ الْأَوْثَانِ وَالْیَہُودِ، فِیہِمْ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ، وَفِی الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ، فَلَمَّا غَشِیَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَۃُ الدَّابَّۃِ، خَمَّرَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ أَنْفَہُ بِرِدَائِہِ ثُمَّ قَالَ: لَا تُغَبِّرُوا عَلَیْنَا، فَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاہُمْ إِلَی اللّٰہِ وَقَرَأَ عَلَیْہِمْ الْقُرْآنَ، فَقَالَ لَہُ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ أُبَیٍّ: أَیُّہَا الْمَرْئُ! لَا أَحْسَنَ مِنْ ہٰذَا إِنْ کَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا، فَلَا تُؤْذِینَا فِی مَجَالِسِنَا، وَارْجِعْ إِلٰی رَحْلِکَ، فَمَنْ جَاء َکَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَیْہِ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ رَوَاحَۃَ: اغْشَنَا فِی مَجَالِسِنَا فَإِنَّا نُحِبُّ ذٰلِکَ، قَالَ: فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِکُونَ وَالْیَہُودُ، حَتّٰی ہَمُّوا أَنْ یَتَوَاثَبُوا، فَلَمْ یَزَلِ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُخَفِّضُہُمْ، ثُمَّ رَکِبَ دَابَّتَہُ حَتّٰی دَخَلَ عَلٰی سَعْدِ بْنِ عُبَادَۃَ، فَقَالَ: ((أَیْ سَعْدُ! أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ؟ (یُرِیدُ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ أُبَیٍّ) قَالَ کَذَا وَکَذَا۔)) فَقَالَ: اعْفُ عَنْہُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! وَاصْفَحْ، فَوَاللّٰہِ! لَقَدْ أَعْطَاکَ اللّٰہُ الَّذِی أَعْطَاکَ، وَلَقَدْ اصْطَلَحَ أَہْلُ ہٰذِہِ الْبُحَیْرَۃِ، أَنْ یُتَوِّجُوہُ فَیُعَصِّبُونَہُ بِالْعِصَابَۃِ، فَلَمَّا رَدَّ اللّٰہُ ذٰلِکَ بِالْحَقِّ الَّذِی أَعْطَاکَہُ شَرِقَ بِذٰلِکَ فَذَاکَ فَعَلَ بِہِ مَا رَأَیْتَ، فَعَفَا عَنْہُ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۲۲۱۱۰)

سیدنا اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک گدھے پر سوار ہوئے، اس پر کاٹھی اور اس کے نیچے فد کی کپڑا یعنی فدک مقام کا تیار شدہ کپڑا رکھا ہوا تھا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسامہ بن زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو گدھے پر اپنے پیچھے سوار کر لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبیلہ بنو حارث بن خزرج میں سیدنا سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے، یہ غزوۂ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم چلتے چلتے ایک ایسی محفل کے پاس سے گذرے جس میں مسلمان، مشرکین، بتوں کے پجاری اور یہودی ملے جلے بیٹھے تھے۔ ان میں عبداللہ ابن ابی اور عبداللہ بن رواحہ بھی تھے، گدھے کے چلنے کی وجہ سے اڑنے والا غبار محفل پر پہنچا تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر سے اپنی ناک کو ڈھانپ لیا اور بولا ہم پر غبار نہ اڑاؤ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان لوگوں کو سلام کہا اور رک کر نیچے اتر آئے اور ان لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دی اور ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی، عبداللہ بن ابی نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے کہا: آپ کی بات سے بہتر کوئی بات نہیں، اگر آپ جو کچھ کہتے ہیں وہ حق ہے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری محافل میں آکر ہمیں تنگ نہ کیا کریں، آپ اپنے گھر جائیں ہم میں سے جو کوئی آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس آئے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس کے سامنے یہ چیزیں بیان کیا کریں۔ اس پر سیدنا عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہماری محافل میں تشریف لایا کریں، ہم پسند کرتے ہیں۔ یا سیدنا عبداللہ بن رواحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عبداللہ بن ابی سے مخاطب ہو کر کہا:تم اپنی محافل میں آنے سے ہمیں روک رہے ہو، تاہم ہم تمہیں اپنی محافل میں آنے کی دعوت دیتے ہیں، تم ہماری محافل میں آیا کر و ہم اسے پسند کرتے ہیں، ان باتوں سے مسلمانوں، مشرکین اور یہود میں تو تُکار شروع ہو گئی،یہاں تک کہ نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم انہیں خاموش کراتے رہے، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی سواری پر سوار ہو کر تشریف لے گئے اور سعد بن عبادہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے ہاں جا کر نزول فرما ہوئے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: سعد! کیا تم نے ابو حباب یعنی عبداللہ بن ابی کی بات سنی ہے؟ اس نے یوںیوں کہا ہے۔ سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ اسے جانے دیں اور درگزر کریں، اللہ کی قسم ! اللہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جو عزت دینی تھی، وہ دے رکھی ہے اس بستییعنی مدینہ منورہ کے لوگ اس کی تاج پوشی اور دستار بندی کر کے اسے سردار بنانے والے تھے، جب اللہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو عطا کئے ہوئے حق کے ذریعے اسے ناکام ونامراد کیا تو وہ آپ سے حسد کرنے لگا ہے۔ اس نے آپ کے ساتھ جو کچھ کیایہ اسی کا نتیجہ ہے،سو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسے معاف کر دیا۔