مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی صحابہ کرام سے غزوۂ بدر کے بارے میں مشاورت


۔ (۱۰۶۹۳)۔ عَنْ اَنَسٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، قَالَ: لَمَّا سَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اِلٰی بَدْرٍ، خَرَجَ فَاسْتَشَارَ النَّاسَ، فَاَشَارَ عَلَیْہِ اَبُوْبَکَرٍ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، ثُمَّ اسْتَشَارَھُمْ فَاَشْارَ عَلَیْہِ عُمَرُ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌، فَسَکَتَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ: اِنّمَا یُرِیْدُکُمْفَقَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! وَاللّٰہِ لَانَکُوْنُ کَمَا قَالَتْ بَنُوْا اِسْرَئِیْلَ لِمُوْسٰی عَلَیْہِ السَّلَامُ : {اذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ} وَلٰکِنْ وَاللّٰہِ لَوْ ضَرَبَتَ اَکْبَادَ الْاِبِلِ حَتّٰی تَبْلُغَ بَرْکَ الْغِمَادِ لَکُنَّا مَعَکَ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۴۵)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بدر کی طرف روانہ ہونے لگے تو باہر تشریف لائے اور لوگوں سے مشورہ کیا، سیدنا ابو بکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک مشورہ دیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مشورہ طلب کیا، اس بار سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ایک رائے دی، لیکن آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خاموش رہے، اتنے میں ایک انصاری کھڑا ہوا اور اس نے کہا: انصاریو! حضور ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تم سے مخاطب ہیں، پس انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! ہم اس طرح نہیں ہوں گے، جیسا کہ بنو اسرائیل نے موسی علیہ السلام سے کہا تھا: تو جا اور تیرا ربّ جائے اور تم دونوں جا کر لڑو، ہم تو یہیں بیٹھنے والے ہیں۔ اللہ کی قسم ہے، اے اللہ کے رسول! اگر آپ اونٹوں کے جگروں پر مارتے ہوئے سفر کرتے جائیں،یہاں تک کہ برک الغماد تک پہنچ جائیں تو ہم آپ کے ساتھ ہی رہیں گے۔

Status: Sahih
حکمِ حدیث: صحیح
Conclusion
تخریج
(۱۰۶۹۳) تخریج: أخرجہ مطولا و مختصرا مسلم: ۲۸۷۴ (انظر: ۱۲۰۲۲)
Explanation
شرح و تفصیل
فوائد:… غزوۂ بدر کو بدر عظمی، بدر ثانیہ، بدر قتال اور بدر فرقان بھی کہا جاتا ہے،مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان بدر ایک گاؤںکا نام ہے اور یہ مدینہ سے چار مراحل (۱۵۵ کلو میٹر) کے فاصلے پر واقع ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: {ٰیقَوْمِ ادْخُلُواالْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْاخٰسِرِیْنَ۔ قَالُوْا ٰیمُوْسٰٓی اِنَّ فِیْھَاقَوْمًاجَبَّارِیْنَ وَاِنَّالَنْ نَّدْخُلَھَاحَتّٰییَخْرُجُوْا مِنْھَا فَاِنْ یَّخْرُجُوْامِنْھَا فَاِنَّا دٰخِلُوْنَ۔ قَالَ رَجُلٰنِ مِنَ الَّذِیْنَیَخَافُوْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمَا ادْخُلُوْا عَلَیْھِمُ الْبَابَ فَاِذَا دَخَلْتُمُوْہُ فَاِنَّکُمْ غٰلِبُوْنَ وَعَلَی اللّٰہِ فَتَوَکَّلُوْٓا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ قَالُوْا ٰیمُوْسٰٓی اِنَّالَنْ نَّدْخُلَھَآاَبَدًا مَّا دَامُوْافِیْھَا فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا ٓ اِنَّا ھٰھُنَا قٰعِدُوْنَ۔ قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَا ٓاَمْلِکُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَاوَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۔ قَالَ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃ’‘ عَلَیْہِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃًیَتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلاَ تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ۔} … اے میری قوم! اس مقدس زمین میں داخل ہو جاؤ جو اس نے تمھارے لیے لکھ دی ہے اور اپنی پیٹھوں پر نہ پھر جاؤ، ورنہ خسارہ اٹھانے والے ہو کر لوٹو گے۔انھوں نے کہا اے موسیٰ! بے شک اس میں ایک بہت زبردست قوم ہے اور بے شک ہم ہرگز اس میں داخل نہ ہوں گے، یہاں تک کہ وہ اس سے نکل جائیں، پس اگر وہ اس سے نکل جائیں تو ہم ضرور داخل ہونے والے ہیں۔دو آدمیوں نے کہا، جو ان لوگوں میں سے تھے جو ڈرتے تھے، ان دونوں پر اللہ نے انعام کیا تھا، تم ان پر دروازے میں داخل ہو جاؤ، پھر جب تم اس میں داخل ہوگئے تو یقینا تم غالب ہو اور اللہ ہی پر پس بھروسا کرو، اگر تم مومن ہو۔ انھوں نے کہا اے موسیٰ! بے شک ہم ہرگز اس میں کبھی داخل نہ ہوں گے جب تک وہ اس میں موجود ہیں، سو تو اور تیرا رب جاؤ، پس دونوں لڑو، بے شک ہم یہیں بیٹھنے والے ہیں۔ اس نے کہا اے میرے رب! بے شک میں اپنی جان اور اپنے بھائی کے سوا کسی چیز کا مالک نہیں، سو تو ہمارے درمیان اور ان نافرمان لوگوں کے درمیان علیحدگی کر دے۔ فرمایا پھر بے شک وہ ان پر چالیس سال حرام کی ہوئی ہے، زمین میں سر مارتے پھریں گے، پس تو ان نافرمان لوگوں پر غم نہ کر۔ (سورۂ مائدہ: ۲۱ ۔ ۲۶) بنو اسرائیل کے مورثِ اعلییعقوب علیہ السلام کا مسکن بیت المقدس تھا، لیکنیوسف علیہ السلام کے امارت مصر کے زمانے میں یہ لوگ مصر جا کر آباد ہو گئے تھے اور پھر تب سے مصر ہی میں رہے، جب تک کہ موسی علیہ السلام انہیں راتوں رات فرعون سے چھپ کر مصر سے نکال نہیں لے گئے، اس وقت بیت المقدس پر عمالقہ کی حکمرانی تھی، جو ایک بہاد ر قوم تھی۔ جب موسی علیہ السلام نے پھر بیت المقدس جا کر آباد ہونے کا عزم کیا تو اس کے لیے وہاں قابض عمالقہ سے جہاد ضروری تھا، چنانچہ موسی علیہ السلام نے اپنی قوم کو اس ارضِ مقدسہ میں داخل ہونے کا حکم دیا اور نصرت ِ الہی کی بشارت بھی سنائی، لیکن اس کے باوجود بنو اسرائیل عمالقہ سے لڑنے پر آمادہ نہ ہوئے اور پہلے مرحلے میں ہی ہمت ہار بیٹھے اور جہاد سے دست بردار ہو گئے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکم کی کوئی پرواہ نہ کی اور بدترین بزدلی، سوئے ادبی اور تمرد سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہاکہ اے موسی! تو اور تیرا ربّ جا کر لڑو۔ اس کے برعکس جب جنگ بدر کے موقع پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابۂ کرام سے مشورہ کیا تو انھوں نے قلت ِ تعداد اور قلت ِ وسائل کے باوجود جہاد میں حصہ لینے کا بھرپور عزم کا اظہار کیا۔ برک الغماد ایک مقام کانام ہے، ایک قول کے مطابق یہ مکہ مکرمہ سے آگے پانچ دنوں کی مسافت پر ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ مقام مدینہ منورہ سے تقریباً پندرہ دنوں کی مسافت پر پڑتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ہجر کے اُس پار یا حبشہ میں ایک شہر کا نام ہے۔