مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا بسیسہ نامی شخص کو جاسوس بنا کر بھیجنا تاکہ وہ ابو سفیان کے قافلہ پر نظر رکھے اور بعدازاں قتال کی اجازت کا بیان

۔ (۱۰۶۹۴)۔ عَنْ أَنَسٍ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بُسَیْسَۃَ عَیْنًا،یَنْظُرُ مَا فَعَلَتْ عِیرُ أَبِی سُفْیَانَ، فَجَائَ وَمَا فِی الْبَیْتِ أَحَدٌ غَیْرِی وَغَیْرُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: لَا أَدْرِی مَا اسْتَثْنٰی بَعْضَ نِسَائِہِ فَحَدَّثَہُ الْحَدِیثَ، قَالَ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَکَلَّمَ، فَقَالَ: ((إِنَّ لَنَا طَلِبَۃً فَمَنْ کَانَ ظَہْرُہُ حَاضِرًا فَلْیَرْکَبْ مَعَنَا۔)) فَجَعَلَ رِجَالٌ یَسْتَأْذِنُونَہُ فِی ظَہْرٍ لَہُمْ فِی عُلُوِّ الْمَدِینَۃِ، قَالَ: ((لَا إِلَّا مَنْ کَانَ ظَہْرُہُ حَاضِرًا۔)) فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَصْحَابُہُ حَتّٰی سَبَقُوا الْمُشْرِکِینَ إِلٰی بَدْرٍ، وَجَائَ الْمُشْرِکُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((لَا یَتَقَدَّمَنَّ أَحَدٌ مِنْکُمْ إِلٰی شَیْئٍ حَتّٰی أَکُونَ أَنَا أُؤْذِنُہُ۔)) فَدَنَا الْمُشْرِکُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((قُومُوا إِلٰی جَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ۔)) قَالَ: یَقُولُ عُمَیْرُ بْنُ الْحُمَامِ الْأَنْصَارِیُّ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! جَنَّۃٌ عَرْضُہَا السَّمٰوَاتُ وَالْأَرْضُ؟ قَالَ: ((نَعَمْ۔)) فَقَالَ: بَخٍ بَخٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((مَا یَحْمِلُکَ عَلٰی قَوْلِکَ بَخٍ بَخٍ؟)) قَالَ: لَا، وَاللّٰہِ، یَا رَسُولَ اللّٰہِ! إِلَّا رَجَائَ أَنْ أَکُونَ مِنْ أَہْلِہَا، قَالَ: ((فَإِنَّکَ مِنْ أَہْلِہَا۔)) قَالَ: فَأَخْرَجَ تَمَرَاتٍ مِنْ قَرَنِہِ فَجَعَلَ یَأْکُلُ مِنْہُنَّ، ثُمَّ قَالَ: لَئِنْ أَنَا حَیِیتُ حَتّٰی آکُلَ تَمَرَاتِی ہٰذِہِ إِنَّہَا لَحَیَاۃٌ طَوِیلَۃٌ، قَالَ: ثُمَّ رَمٰی بِمَا کَانَ مَعَہُ مِنَ التَّمْرِ، ثُمَّ قَاتَلَہُمْ حَتّٰی قُتِلَ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۲۵)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدنا بسیسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو جاسوس کی حیثیت سے روانہ فرمایا تاکہ وہ ابو سفیان کے قافلہ پر نظر رکھے، ایک دفعہ جب کہ گھر میں میرے اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سوا اور کوئی نہ تھا وہ آئے، ثابت راوی کہتے ہیں: مجھے یاد نہیں ہے کہ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے امہات المؤمنین میں سے کسی کا استثناء کیا تھا یا نہیں، اور سیدنا بسیسہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آکر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بات کی، اس کے بعد آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم باہر تشریف لے گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ایک قافلے پر ہماری نظر ہے، جس آدمی کے پاس سواری ہو، وہ سوار ہو کر ہمارے ساتھ چلے۔ بعض لوگوں نے یہ اجازت چاہی کہ ان کی سواریاں مدینہ منورہ کے بالائی علاقہ میں ہیں، وہ جا کر سواریاں لے آئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: نہیں، صرف وہ لوگ چلیں جن کی سواریاں اس وقت موجود ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور آپ کے اصحاب روانہ ہوئے اور مشرکین سے پہلے پہلے بدر کے مقام پر جا پہنچے، مشرکین بھی آگئے۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب تک میں اجازت نہ دوں کوئی آدمی پیش قدمی نہ کرے۔ جب مشرکین مسلمانوں کے قریب آپہنچے تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اب بڑھو اس جنت کی طرف جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ عمیر بن نحام انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا جنت کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جی ہاں! تو وہ کہنے لگے: واہ، واہ، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم یہ واہ واہ کیوں کہہ رہے ہو؟ انہوں نے :کہا اللہ کے رسول! میں یہ الفاظ اس امید پر کہہ رہا ہوں کہ اللہ مجھے اہلِ جنت میں سے بنا دے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جنتی ہو، اس کے بعد اس نے اپنی تھیلی سے کچھ کھجوریں نکالیں اور کھانے لگا ، اتنے میں اس نے کہا: اگر میں ان کھجوروں کے کھانے تک زندہ رہوں، تو یہ تو بڑی طویل زندگی ہے، چنانچہ اس کے پاس جو کھجوریں تھیں، اس نے ان کو پھینک دیا اور مشرکین سے قتال کیایہاں تک کہ شہید ہو گیا۔