مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا غزوۂ بدر کے متعلق اہتمام، اللہ تعالیٰ سے طلبِ نصرت، اور آپ کا بنفس نفیس میدانِ جنگ میں اترنا اور مجاہدین کا آپ کے پیچھے ہو کر زخمی ہونے سے بچنے کی کوشش کرنا اور اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کے ذریعے آپ کی نصرت فرمانے کا بیان

۔ (۱۰۶۹۸)۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ وَہُوَ فِی قُبَّۃٍیَوْمَ بَدْرٍ: ((اللَّہُمَّ إِنِّی أَنْشُدُکَ عَہْدَکَ وَوَعْدَکَ، اللَّہُمَّ إِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْیَوْمِ۔)) فَأَخَذَ أَبُو بَکْرٍ بِیَدِہِ فَقَالَ: حَسْبُکَ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! فَقَدْ أَلْحَحْتَ عَلٰی رَبِّکَ، وَہُوَ یَثِبُ فِی الدِّرْعِ فَخَرَجَ وَہُوَ یَقُولُ: {سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ}۔ (مسند احمد: ۳۰۴۲)

سیدناعبداللہ بن عباس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنے قبہ کے اندر تشریف فرما تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یوں دعا کی: یا اللہ! میں تجھے تیرا کیا ہوا وعدہ یا د دلاتا ہوں، یا اللہ! اگر تو چاہتا ہے کہ آج کے بعد تیری عبادت نہ کی جائے( تو ہمارے مخالفین کو ہم پر غلبہ دے اور ہمیں ان کے ہاتھوں قتل کرا دے۔) اتنے میں سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ہاتھ تھام لیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اپنے رب سے خوب خوب دعائیں کر لی ہیں اور یہی کافی ہیں، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی قمیض میں خوشی سے اچھلتے ہوئے فرما رہے تھے {سَیُہْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّونَ الدُّبُرَ} … عنقریب مسلمانوں کی دشمن جماعتیں ہزیمت سے دو چار ہوں گی، اور وہ پیٹھ دے کر بھاگ جائیں گے۔

۔ (۱۰۶۹۹)۔ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ: مَا کَانَ فِیْنَا فَارِسٌ یَوْمَ بَدْرٍ غَیْرَ الْمِقْدَادِ، وَلَقَدْ رَاَیْتُنَا وَمَا فِیْنَا اِلَّا نَائِمٌ إِلَّا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تَحْتَ شَجَرَۃٍیُصَلِّیْ وَیَبْکِیْ حَتّٰی اَصْبَحَ۔ (مسند احمد: ۱۰۲۳)

سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن ہم مسلمانوں میں مقداد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سوا کوئی گھڑ سوار نہ تھا اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے سوا ہم میں سے ہر ایک کو نیند آگئی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایک درخت کے نیچے نماز پڑھ رہے تھے اور صبح تک اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ زاری کرتے رہے۔

۔ (۱۰۷۰۰)۔ عَنْ عَلِیٍّ قَالَ لَمَّا حَضَرَ الْبَأسُ یَوْمَ بَدْرٍ، اِلْتَقَیْنَا بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَکَانَ مِنْ اَشَدِّ النَّاسِ، مَا کَانَ اَوْ لَمْ یَکُنْ اَحَدٌ اَقْرَبَ اِلَی الْمُشْرِکِیْنَ مِنْہُ۔ (مسند احمد: ۱۰۴۲)

سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن جب لڑائی شروع ہوئی تو ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو جاملے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بہت بہادر تھے اور ہم میں سے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے بڑھ کر مشرکین کے قریب تر اور کوئی نہ تھا۔

۔ (۱۰۷۰۱)۔ (وَعَنْہُ مِنْ طَرِیْقٍ ثَانٍ) قَالَ: لَقَدْ رَاَیْتُنَایَوْمَ بَدْرٍ، وَنَحْنُ نَلُوْذُ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، وَھُوَ اَقْرَبُنَا اِلَی الْعَدُوِّ، وَکَانَ مِنْ اَشَدِّ النَّاسِ یَوْمَئِذٍ بَاْسًا۔ (مسند احمد: ۶۵۴)

۔( دوسری سند) سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں نے بدر کے دن دیکھا کہ ہم رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پیچھے پناہ ڈھونڈتے تھے اور ہم سب کی بہ نسبت آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم دشمن کے انتہائی قریب تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اس دن بہادری کے خوب جوہر دکھائے۔

۔ (۱۰۷۰۲)۔ عَنْ اَبِیْ صَالِحٍ اَلْحَنْفِیِّ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: قِیْلَ لِعَلِیٍّ وَلِاَبِیْ بَکْرٍ یَوْمَ بَدْرٍ: مَعَ اَحَدِکُمَا جِبْرِیْلُ وَ مَعَ الْآخَرِ مِیْکَائِیْلُ وَ اِسْرَافِیْلُ، مَلَکٌ عَظِیْمٌیَشْہَدُ الْقِتَالَ اَوْ قَالَ: یَشْہَدُ الصَّفَّ۔ (مسند احمد: ۱۲۵۷)

ابو صالح حنفی سے مروی ہے کہ بدر کے دن سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا گیا کہ تم میں سے ایک کے ساتھ جبریل اور دوسرے کے ساتھ میکائل اور اسرافیل بھی،یہ بہت بڑا فرشتہ ہے، جو لڑائی میںیا لڑائی کے وقت صف میں حاضر ہوتا ہے۔

۔ (۱۰۷۰۳)۔ عَنْ اَبِیْ دَاوُدَ الْمَازِنِیِّ، وَکَانَ شَہِدَ بَدْرًا، قال: اِنِّیْ لَاَتْبَِعُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ لِاَضْرِبَہُ اِذَا وَقَعَ رَاْسَہُ قَبْلَ اَنْ یَصِلَ اِلَیْہِ سَیْفِیْ، فَعَرَفْتُ اَنَّہُ قَدْ قَتَلَہُ غَیْرِیْ۔ (مسند احمد: ۲۴۱۸۶)

سیدنا ابو داؤد مازنی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ،جو غزوۂ بدر میں شریک تھے، سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:میں ایک مشرک کو قتل کرنے کے لیے اس کے پیچھے لگا ہوا تھا کہ اچانک میری تلوار اس تک نہ پہنچنے سے پہلے ہی اس کا سر کٹ کر دور جا گرا، میں جان گیا کہ اسے میرے سوا کسی دوسرے نے قتل کیا ہے۔