سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ عمرہ کی غرض سے تشریف لے گئے، صفوان بن امیہ بن خلف کے ہاں مہمان ٹھہرے، امیہ بھی مکہ سے شام کی طرف جاتے ہوئے مدینہ منورہ سے گزرتے ہوئے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ہاں قیام کیا کرتا تھا، امیہ نے سعد سے کہا: تم ابھیانتظار کرو، جب دوپہر ہو گی اور لوگ تھک جائیں گے تب جا کر طواف کر لینا، سیدنا سعد طواف کر رہے تھے کہ ابو جہل ان کے پاس آگیا اور بولا یہ کون ہے، جو بڑے امن اور سکون کے ساتھ کعبہ کا طواف کر رہا ہے؟ سعد نے کہا: میں سعد ہوں۔ ابوجہل نے کہا: تو بڑے سکون سے طواف کر رہا ہے حالانکہ تم لوگوں نے محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو پناہ دے رکھی ہے۔ دونوں میں تو تکار ہو گئی، تو امیہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ ابو الحکم (یعنی ابوجہل) کے مقابلے میں آواز بلند نہ کریں،یہیہاں کا سردار ہے۔ لیکن سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر تو نے مجھے بیت اللہ کا طواف کرنے سے روکا تو میں شام کی طرف تمہارا تجارتی راستہ بند کر دوں گا۔ امیہ پھر سعد رضی اللہ عنہ سے کہنے لگا اور اسے پکڑ کر روکنے لگا کہ ابو الحکم (یعنی ابوجہل) کے سامنے آواز بلند نہ کرو، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو غصہ آ گیا، وہ بولے مجھے چھوڑ دو، میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن چکا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ تجھے قتل کر کے رہیں گے، امیہ نے کہا: کیا مجھے؟ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، ہاں، امیہ نے کہا: اللہ کی قسم! محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات غلط نہیں ہو سکتی، جب لوگ چلے گئے تو وہ اپنی بیوی کے پاس گیا اور کہا: کیا تیرے علم میں وہ بات آئی جو یثربی مہمان نے کہی ہے؟ اور پھر اسے ساری بات بتلائی، جب لڑائی کا اعلان ہوا اور لوگ بدر کی طرف جانے لگے تو امیہ کی بیوی نے اس سے کہا: کیا تمہیں وہ بات یاد نہیں ہے جو تمہارے یثربی بھائی نے کہی تھی؟ اس نے ایک دفعہ تو ارادہ کیا کہ لڑائی کے لیے نہ جائے، لیکن ابوجہل نے اس سے کہا تم یہاں کے سرداروں میں سے ہو، سو ہمارے ساتھ ایک دو دن کے لیے ضرور چلو، پس وہ ان کے ساتھ چل پڑا اور اللہ تعالیٰ نے اسے (بدر میں) ہلاکت سے دو چار کر دیا۔