مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی سیّدہ فاطمۃ الزاہرا ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے شادی کرنے کا بیان

۔ (۱۰۷۲۲)۔ (۶۹۳۶)۔ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ قَالَ: أَرَدْتُ أَنْ أَخْطُبَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ابْنَتَہ، فَقُلْتُ: مَا لِیْ مِنْ شَیْئٍ فَکَیْفَ؟ ثُمَّ ذَکَرْتُ صِلَتَہ، وَعَائِدَتَہ، فَخَطَبْتُہَا اِلَیْہِ، فَقَالَ: ((ھَلْ لَکَ مِنْ شَیْئٍ؟)) قُلْتُ: لَا، قَالَ: ((فَأَیْنَ دِرْعُکَ الْحَطْمِیَّۃُ الَّتِیْ أَعْطَیْتُکَیَوْمَ کَذَا وَکَذَا؟)) قَالَ: ھِیَ عِنْدِیْ، قَالَ: ((فَأَعْطِہَا اِیَّاہُ۔)) (مسند احمد: ۶۰۳)

سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں:میں نے ارادہ کیا کہ میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بیٹی کے بارے میں پیغام بھیجوں، لیکن پھر میں نے سوچا کہ میرے پاس تو کوئی مال نہیں ہے، سو میں کیا کروں، پھر مجھے یاد آیا کہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تو صلہ رحمی کرتے ہیں اور بار بار ہمارے گھر آتے جاتے رہتے ہیں، پس میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو یہ پیغام بھیج دیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تیرے پاس کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ حطمی زرہ کہاں ہے، جو میں نے تجھے فلاں دن دی تھی؟ میں نے کہا: وہ میرے پاس ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہی فاطمہ کو دے دو۔

۔ (۱۰۷۲۳)۔ عَنْ عَطَائِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ عَلِیٍّ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ‌ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا زَوَّجَہُ فَاطِمَۃَ، بَعَثَ مَعَہَ بِخَمِیْلَۃٍ وَوِسَادَۃٍ مِنْ اَدَمٍ حَشْوُھَا لِیْفٌ (وَفِیْ لَفْظٍ: لَیْفُ الْاِذْخَرِ) وَرَحْیَیْنِ وَسِقَائً وَ جَرَّتَیْنِ، فَقَالَ عَلِیٌّ لِفَاطِمَۃَ ذَاتَ یَوْمٍ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ سَنَوْتُ حَتّٰی لَقَدِ اشْتَکَیْتُ صَدْرِیْ، قَالَ: وَقَدْ جَائَ اللّٰہُ اَبَاکَ بِسَبْیٍ، فَاذْھَبِیْ فَاسْتَخْدِمِیْہِ، فَقَالَتْ: وَاَنَا وَاللّٰہِ! قَدْ طَحَنْتُ حَتّٰی مَجَلَتْ یَدِیْ، فَاَتَتِ النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((مَا جَائَ بِکِ اَیْ بُنَیَّۃَ؟)) قَالَتْ: جِئْتُ لِاُسَلِّمَ عَلَیْکَ، وَاسْتَحْیَتْ اَنْ تَسْاَلَہُ وَرَجَعَتْ، فَقَالَ: مَا فَعَلْتِ؟ قَالَتْ: اسْتَحْیَیْتُ اَنْ اَسْاَلَہُ، فَاَتَیْنَا جَمِیْعاً، فَقَال عَلِیٌّ: یَا رَسُوْلُ اللّٰہِ، وَاللّٰہِ! لَقَدْ سَنَوْتُ حَتَّی اشْتَکَیْتُ صَدْرِیْ، وَقَالَتْ فَاطِمَۃُ: قَدْ طَحَنْتُ حَتّٰی مَجَلَتْ یَدَایَ وَقد جَائَکَ اللّٰہُ بِسَبْیٍ وَسِعَۃٍ فَاَخْدِمْنَا، فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم : ((وَاللّٰہِ! لَا اُعْطِیْکُمَا وَاَدَعُ اَھْلَ الصُّفَّۃَ تَطْوِیْ بُطُوْنُہُمْ لَا اَجِدُ مَا اُنْفِقُ عَلَیْہِمْ، وَلٰکِنِّیْ اَبِیْعُہُمْ وَاُنْفِقُ عَلَیْہِمْ اَثْمَانَہُمْ۔)) فَرَجَعَا فَاَتَاھُمَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَقَدْ دَخَلَا فِیْ قَطِیْفَتِہِمَا اِذَا غَطَّتْ رُئُ وْسَہُمَا تَکَشَّفَتْ اَقْدَامُھُمَا، وَإِذَا غَطَّیَا اَقْدَامَہَمَا تَکَشَّفَتْ رُئُ ْوسُہُمَا فَثَارَا، فَقَالَ: ((مَکَانَکُمَا۔)) ثُمَّ قَالَ: ((اَلَا اُخْبِرُ کُمَا بِخَیْرِ مِمَّا سَاَلْتُمَانِیْ؟)) قَالَا: بَلٰی! فَقَالَ: ((کَلِمَاتٍ عَلَّمَنِیْہِنَّ جِبْرِیْلُ علیہ السلام ، فَقَالَ: تُسَبِّحَانِ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلَاۃٍ عَشْرًا، وَتَحْمَدَانِ عَشْرًا، وَتُکَبِّرَانِ عَشْرًا، وَإِذَا اٰوَیْتُمَا اِلٰی فِرَاشِکُمَا فَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِیْنَ، وَکَبِّرَا اَرْبَعًا وَثَلَاثِیْنَ۔)) قَال: فَوَ اللّٰہِ! مَا تَرَکْتُہُنَّ مُنْذُ عَلَّمَنِیْہِنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ، قَالَ: فَقَالَ لَہُ ابْنُ الْکَوَائِ: وَلَا لَیْلَۃَ صِفِّیْنَ، فَقَالَ قَاتَلَکُمُ اللّٰہُ، یَا اَھْلَ الْعَرَاقِ! نَعَمْ، وَلَا لَیْلَۃَ صِفِّیْنَ۔ (مسند احمد: ۸۳۸)

سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے نکاح کیا تو آپ نے ان کے ہمراہ ایک اونی چادر، چمڑے کا ایک تکیہ، جس میں کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی، دو چکیاں، ایک مشک اور دو مٹکے بھیجے، ایک دن سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے سیّدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے کہا کہ باہر سے پانی لالا کر اب تو میرا سینہ دکھنے لگا ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ کے والد کے پاس کچھ قیدی بھیج دئیے ہیں، تم جا کر ان سے ایک خادم طلب کر لو، انہوں نے کہا اللہ کی قسم! میرا بھی اب تو یہ حال ہو چکا ہے کہ آٹا پیسنے کے لیے چکی چلا چلا کر میرے ہاتھوں پر گٹے پڑ گئے ہیںیعنی ہاتھ بہت سخت ہو گئے ہیں۔ چنانچہ سیّدہ، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں گئیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دریافت کیا: بیٹی! کیسے آنا ہوا؟ انہوں نے کہا میں تو محض سلام کہنے کی غرض سے آئی ہوں، اور کوئی چیز طلب کرنے سے جھجک گئیں۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے پوچھا کہ کیا بنا؟ انہوں نے بتلایا:میں تو شرم کے مارے آپ سے کچھ نہیں مانگ سکی، پھر ہم دونوں آپ کی خدمت میں گئے، اس بار سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! باہر سے پانی لالا کر میرا سینہ دکھنے لگا ہے، اور سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے کہا کہ چکی چلاچلا کر میرے ہاتھوں پر گٹے پڑ گئے ہیں، اب اللہ نے آپ کے پاس قیدی بھیجے ہیں اور آپ کو مالی طور پر خوش حال کر دیا ہے، پس آپ ہمیں ایک خادم عنایت کر دیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں تمہیں خادم نہیں دے سکتا، جب کہ اہلِ صفہ کا حال یہ ہے کہ بھوک کے مارے ان کے پیٹ بل کھاتے ہیں اور میرے پاس اس قدر گنجائش نہیں کہ ان پر کچھ خرچ کر سکوں، یہ جو قیدی آئے ہیں، میں انہیں فروخت کر کے ان سے حاصل ہونے والی رقم اصحاب صفہ پر خرچ کروں گا۔ یہ سن کر وہ دونوں لوٹ آئے، بعد میں نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں ایسے وقت تشریف لے گئے، جب وہ اپنی چادر میں داخل ہو چکے تھے، اور اس چادر کا بھییہ حال تھا کہ وہ چادر ان کے سروں کو ڈھانپتی تو ان کے پاؤں ننگے ہو جاتے اور جب وہ دونوں اپنے کے پاؤں ڈھانپتے تو ان کے سر ننگے رہ جاتے، وہ اٹھ کر بیٹھنے لگے تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کوئی بات نہیں، تم اپنی جگہ پرہی رہو۔ پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: آپ لوگوں نے مجھ سے جو کچھ طلب کیا تھا، اب کیا میں تمہیں اس سے بہتر بات نہ بتلاؤں؟ دونوں نے کہا: ضرور، ضرور، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: وہ چند کلمات ہیں جو جبریل علیہ السلام نے مجھے سکھائے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ہر نماز کے بعد دس مرتبہ سُبْحانَ اللّٰہ، دس مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ، اور دس مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ لیا کرو اور جب تم سونے کے لیے بستر پر آؤ تو ۳۳ مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہ، ۳۳ مرتبہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اور ۳۴ مرتبہ اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ لیا کرو۔ سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: جب سے اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے یہ کلمات سکھائے ہیں، میں نے انہیں ترک نہیں کیا۔ یہ سن کر عبداللہ بن کواء نے سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: کیا آپ نے جنگ صفین والی رات کو بھی انہیں ترک نہیں کیا تھا؟ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اے اہل ِ عراق! اللہ تمہیں ہلاک کرے، ہاں صفین کی شب کو بھی میںنے اس عمل کو ترک نہیں کیا۔

۔ (۱۰۷۲۴)۔ أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَیْجٍ حَدَّثَنِی ابْنُ شِہَابٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ حُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ أَبِیہِ حُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ عَنْ عَلِیِّ بْنِ أَبِی طَالِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ عَلِیٌّ: أَصَبْتُ شَارِفًا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی الْمَغْنَمِ یَوْمَ بَدْرٍ، وَأَعْطَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم شَارِفًا أُخْرٰی، فَأَنَخْتُہُمَا یَوْمًا عِنْدَ بَابِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، وَأَنَا أُرِیدُ أَنْ أَحْمِلَ عَلَیْہِمَا إِذْخِرًا لِأَبِیعَہُ وَمَعِی صَائِغٌ مِنْ بَنِی قَیْنُقَاعَ لِأَسْتَعِینَ بِہِ عَلٰی وَلِیمَۃِ فَاطِمَۃَ، وَحَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یَشْرَبُ فِی ذٰلِکَ الْبَیْتِ، فَثَارَ إِلَیْہِمَا حَمْزَۃُ بِالسَّیْفِ فَجَبَّ أَسْنِمَتَہُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَہُمَا، ثُمَّ أَخَذَ مِنْ أَکْبَادِہِمَا، قُلْتُ لِابْنِ شِہَابٍ: وَمِنَ السَّنَامِ؟ قَالَ: جَبَّ أَسْنِمَتَہُمَا، فَذَہَبَ بِہَا، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلٰی مَنْظَرٍ أَفْظَعَنِی، فَأَتَیْتُ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَعِنْدَہُ زَیْدُ بْنُ حَارِثَۃَ فَأَخْبَرْتُہُ الْخَبَرَ، فَخَرَجَ وَمَعَہُ زَیْدٌ فَانْطَلَقَ مَعَہُ فَدَخَلَ عَلٰی حَمْزَۃَ فَتَغَیَّظَ عَلَیْہِ، فَرَفَعَ حَمْزَۃُ بَصَرَہُ فَقَالَ: ہَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِیدٌ لِأَبِی، فَرَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یُقَہْقِرُ حَتّٰی خَرَجَ عَنْہُمْ وَذٰلِکَ قَبْلَ تَحْرِیمِ الْخَمْرِ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۱)

سیّدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ بدر کے دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معیت میںمجھے مالِ غنیمت میں سے ایک اونٹ ملا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے ایک اور اونٹ عطا فرمایا تھا، میں نے ایک دن دونوں اونٹوں کو ایک انصاری کے دروازے کے پاس بٹھایا۔ میں اذخرگھاس کاٹ کر ان پر لاد کر لے جا کر بیچنا چاہتا تھا۔ میرے ہمراہ بنو قینقاع کا ایک صراف شخص بھی تھا، میں اس سے حاصل ہونے والی رقم کو سیّدہ فاطمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ولیمہ پرخرچ کرنا چاہتا تھا۔ انصاری کے اس گھر میں سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیٹھے شراب نوشی کر رہے تھے کہ اچانک وہ تلوار لے کر اُٹھے اور اونٹوں کی طرف لپک کر ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور ان کی کوکھیں چاک کر دیں اور ان کے جگر نکال کر چلتے بنے۔ ابن جریج راوی کہتے ہیں: میں نے اپنے شیخ زہری سے دریافت کیا کہ کوہانوں کا کیا بنا؟ انہوں نے کہا: انہیں بھی وہ کاٹ کر ساتھ لے گئے۔ سیدنا علی ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں یہ منظر دیکھ کر خوف زدہ ہو گیا اور گھبرا گیا، میں اسی وقت نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں پہنچا، اس وقت سیدنا زید بن حارثہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی وہاں موجود تھے۔ میں نے سارا واقعہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گوش گزار کیا، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور سیدنا زید ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ وہاں سے روانہ ہو کر سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی طرف گئے اور ناراضگی کا اظہار فرمایا، سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنی نظروں کو گھمایا اور کہنے لگے: تم لوگ تو میرے باپ کے غلام ہو۔ سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کییہ بات سن کر رسول اللہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ الٹے پاؤں واپس ہو کر واپس لوٹ آئے۔ یہ واقعہ شراب کی حرمت سے پہلے کاہے۔