مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چچا سیّدنا حمزہ بن عبدالمطلب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کا واقعہ اور ان کے قاتل اور قتل کے سبب کا بیان

۔ (۱۰۷۴۲)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِیَعْنِی ابْنَ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ الْفَضْلِ عَنْ سُلَیْمَانَ بْنِ یَسَارٍ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرٍو الضَّمْرِیِّ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ عُبَیْدِ اللّٰہِ بْنِ عَدِیِّ بْنِ الْخِیَارِ إِلَی الشَّامِ، فَلَمَّا قَدِمْنَا حِمْصَ، قَالَ لِی عُبَیْدُ اللّٰہِ: ہَلْ لَکَ فِی وَحْشِیٍّ، نَسْأَلُہُ عَنْ قَتْلِ حَمْزَۃَ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، وَکَانَ وَحْشِیٌّیَسْکُنُ حِمْصَ، قَالَ: فَسَأَلْنَا عَنْہُ، فَقِیلَ لَنَا: ہُوَ ذَاکَ فِی ظِلِّ قَصْرِہِ کَأَنَّہُ حَمِیتٌ، قَالَ: فَجِئْنَا حَتّٰی وَقَفْنَا عَلَیْہِ فَسَلَّمْنَا فَرَدَّ عَلَیْنَا السَّلَامَ، قَالَ: وَعُبَیْدُ اللّٰہِ مُعْتَجِرٌ بِعِمَامَتِہِ مَا یَرٰی وَحْشِیٌّ إِلَّا عَیْنَیْہِ وَرِجْلَیْہِ، فَقَالَ عُبَیْدُ اللّٰہِ: یَا وَحْشِیُّ! أَتَعْرِفُنِی؟ قَالَ: فَنَظَرَ إِلَیْہِ ثُمَّ قَالَ: لَا وَاللّٰہِ! إِلَّا أَنِّی أَعْلَمُ أَنَّ عَدِیَّ بْنَ الْخِیَارِ تَزَوَّجَ امْرَأَۃً،یُقَالُ لَہَا: أُمُّ قِتَالٍ، ابْنَۃُ أَبِی الْعِیصِ، فَوَلَدَتْ لَہُ غُلَامًا بِمَکَّۃَ فَاسْتَرْضَعَہُ، فَحَمَلْتُ ذٰلِکَ الْغُلَامَ مَعَ أُمِّہِ فَنَاوَلْتُہَا إِیَّاہُ، فَلَکَأَنِّی نَظَرْتُ إِلٰی قَدَمَیْکَ، قَالَ: فَکَشَفَ عُبَیْدُ اللّٰہِ وَجْہَہُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا تُخْبِرُنَا بِقَتْلِ حَمْزَۃَ؟ قَالَ: نَعَمْ، إِنَّ حَمْزَۃَ قَتَلَ طُعَیْمَۃَ بْنَ عَدِیٍّ بِبَدْرٍ، فَقَالَ لِی مَوْلَایَ جُبَیْرُ بْنُ مُطْعِمٍ: إِنْ قَتَلْتَ حَمْزَۃَ بِعَمِّی فَأَنْتَ حُرٌّ، فَلَمَّا خَرَجَ النَّاسُ یَوْمَ عَینِینَ، قَالَ: وَعَینِینُ جُبَیْلٌ تَحْتَ أُحُدٍ وَبَیْنَہُ وَادٍ، خَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ إِلَی الْقِتَالِ، فَلَمَّا أَنِ اصْطَفُّوا لِلْقِتَالِ، قَالَ: خَرَجَ سِبَاعٌ: مَنْ مُبَارِزٌ؟ قَالَ: فَخَرَجَ إِلَیْہِ حَمْزَۃُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ: سِبَاعُ بْنُ أُمِّ أَنْمَارٍ؟ یَا ابْنَ مُقَطِّعَۃِ الْبُظُورِ! أَتُحَادُّ اللّٰہَ وَرَسُولَہُ؟ ثُمَّ شَدَّ عَلَیْہِ فَکَانَ کَأَمْسِ الذَّاہِبِ، وَأَکْمَنْتُ لِحَمْزَۃَ تَحْتَ صَخْرَۃٍ حَتّٰی إِذَا مَرَّ عَلَیَّ، فَلَمَّا أَنْ دَنَا مِنِّی رَمَیْتُہُ بِحَرْبَتِی فَأَضَعُہَا فِی ثُنَّتِہِ حَتّٰی خَرَجَتْ مِنْ بَیْنِ وَرِکَیْہِ، قَالَ: فَکَانَ ذٰلِکَ الْعَہْدُ بِہِ، قَالَ: فَلَمَّا رَجَعَ النَّاسُ رَجَعْتُ مَعَہُمْ، قَالَ: فَأَقَمْتُ بِمَکَّۃَ حَتّٰی فَشَا فِیہَا الْإِسْلَامُ، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْتُ إِلَی الطَّائِفِ، قَالَ: فَأَرْسَلَ إِلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَقِیلَ لَہُ: إِنَّہُ لَایَہِیجُ لِلرُّسُلِ، قَالَ: فَخَرَجْتُ مَعَہُمْ حَتّٰی قَدِمْتُ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَلَمَّا رَآنِی، قَالَ: ((أَنْتَ وَحْشِیٌّ؟)) قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: ((أَنْتَ قَتَلْتَ حَمْزَۃَ؟)) قَالَ: قُلْتُ: قَدْ کَانَ مِنَ الْأَمْرِ مَا بَلَغَکَیَا رَسُولَ اللّٰہِ إِذْ قَالَ: ((مَا تَسْتَطِیعُ أَنْ تُغَیِّبَ عَنِّی وَجْہَکَ؟)) قَالَ: فَرَجَعْتُ، فَلَمَّا تُوُفِّیَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَخَرَجَ مُسَیْلِمَۃُ الْکَذَّابُ، قَالَ: قُلْتُ: لَأَخْرُجَنَّ إِلٰی مُسَیْلِمَۃَ لَعَلِّی أَقْتُلُہُ فَأُکَافِئَ بِہِ حَمْزَۃَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ مَعَ النَّاسِ فَکَانَ مِنْ أَمْرِہِمْ مَا کَانَ، قَالَ: فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِی ثَلْمَۃِ جِدَارٍ کَأَنَّہُ جَمَلٌ أَوْرَقُ ثَائِرٌ رَأْسُہُ، قَالَ: فَأَرْمِیہِ بِحَرْبَتِی فَأَضَعُہَا بَیْنَ ثَدْیَیْہِ حَتّٰی خَرَجَتْ مِنْ بَیْنِ کَتِفَیْہِ، قَالَ: وَوَثَبَ إِلَیْہِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَضَرَبَہُ بِالسَّیْفِ عَلٰی ہَامَتِہِ، قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْفَضْلِ: فَأَخْبَرَنِی سُلَیْمَانُ بْنُ یَسَارٍ أَنَّہُ سَمِعَ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ عُمَرَ فَقَالَتْ جَارِیَۃٌ عَلٰی ظَہْرِ بَیْتٍ، وَأَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ قَتَلَہُ الْعَبْدُ الْأَسْوَدُ۔ (مسند احمد: ۱۶۱۷۴)

جعفر بن عمرو ضمری سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں عبید اللہ بن عدی بن خیار کی معیت میں شام کی طرف گیا، جب ہم حمص میں پہنچے تو عبید اللہ نے مجھ سے کہا: کیا تم سیّدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاتل وحشی بن حرب کو دیکھنا چاہتے ہو؟ ہم اس سے سیّد نا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قتل کے متعلق دریافت کریں گے۔ میں نے کہا: جی ہاں ان دنوں وحشی حمص میں مقیم تھا۔ ہم نے اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ وہ سامنے اپنے محل کے سایہ میں ہے، اس کا جسم ایک مشک کی طرح (موٹا) تھا، جعفر کہتے ہیں: ہم اس کے قریب جا کر رک گئے اور ہم نے اسے سلام کہا، اس نے ہمیں سلام کا جواب دیا۔اس وقت عبید اللہ اپنے عمامہ کو اچھی طرح لپیٹا ہوا تھا، وحشی کو ان کی آنکھیں اور پاؤں ہی نظر آئے تھے۔ عبیداللہ نے کہا: وحشی! کیا آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ اس نے اس کی طرف دیکھ کر کہا: اللہ کی قسم! نہیں، البتہ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ عدی بن الخیار نے ابو العیص کی دختر ام قتال سے شادی کی تھی، اس کے بطن سے مکہ میں اس کا ایک بیٹا پیدا ہوا تھا، میں اس بچے کے لیے کسی عورت کی تلاش میں تھا، جو اسے دودھ پلائے، میں نے اس بچے کو اس کی ماں کے ہمراہ اٹھایا تھا اور اسے پکڑ کر اس عورت کو تھمایا تھا، مجھے تمہارے قدم اس بچے کے سے لگتے ہیں، اس کے بعد عبیداللہ نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا: کیا آپ ہمیں سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قتل کا واقعہ سنائیں گے؟ اس نے کہا: ہاں، حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بدر میں طیمہ بن عدی کو قتل کیا تھا، میرے آقا جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا کہ اگر تم میرے چچا کے بدلے میں سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کر دو تو تم آزاد ہو گے۔ جب لوگ عینین کے دن جنگ کے لیے روانہ ہوئے، احد کے قریب ہی ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے، جس کا نام عینین ہے۔ ان دونوں کے درمیان صرف ایک وادی ہے،لوگ قتال کے لیے نکلے اور قتال کے لیے صف آراء ہو گئے تو سباع بن عبدالعزی خزاعی سامنے نکلا اور اس نے للکارا کہ ہے کوئی میرے مدمقابل؟ سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اس کے مقابلے میں نکلے اور کہا کیا تو سباع بن ام انمار ہے؟ اے اس عورت کے بیٹے جو بچیوں کے فرج کے ساتھ بڑھے ہوئے چمڑے کا ٹا کرتی تھی! کیا تو اللہ اور اس کے رسول کے مقابلے میں آیا ہے؟ اور یہ کہتے ہی اس پر حملہ کر دیا۔ میں سیدنا حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کرنے کے ارادے سے ایک چٹان کے پیچھے گھات میں تھا، تاکہ جب وہ میرے پاس سے گزریں تو حملہ کر سکوں۔ جب وہ میرے قریب پہنچے تو میں نے ان کے مثانے پر وار کیا، جوان کے جسم سے پار ہو گیا۔ یہی وار ان کی موت کا سبب بنا، لوگ جب جنگ سے واپس ہوئے تو میں بھی واپس گیا اور میں مکہ میں مقیم رہا تاآ نکہ وہاں بھی اسلام پھیل گیا، میں وہاں سے طائف کو نکل گیا، اہل طائف نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں اپنا ایک قاصد بھیجا، کہا گیا کہ آپ کسی کے قاصد کو کچھ نہیں کہتے، میں بھی لوگوں کے ہمراہ آپ کی خدمت میں جا پہنچا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: تم ہی وحشی ہو؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں۔آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم ہی نے حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو قتل کیا تھا؟ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول! وہی ہوا تھا جس کی اطلاع آپ تک پہنچ چکی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: کیا تم اپنے آپ کو مجھ سے دور نہیں رکھ سکتے؟ چنانچہ میں وہاں سے چلا آیا، جب اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا انتقال ہوا اور مسیلمہ کذاب مدعی نبوت بن کر ظاہر ہوا تو میں نے سوچا کہ میں مسیلمہ کی طرف جا کر دیکھوں شاید میں اسے قتل کرنے میں کامیاب ہو جاؤں اور اس طرح حمزہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قتل کی تلافی کر سکوں، چنانچہ میں لوگوں کے ہمراہ مسیلمہ کے مقابلے کو نکلا، پس جو ہونا تھا وہی ہوا، میں نے دیکھا کہ ایک آدمی ایک دیوار کے شگاف میں کھڑا تھا یوں لگتا تھا، جیسے وہ خاکستری رنگ کا اونٹ ہو، اس کے سر کے بال پراگندہ تھے، میں نے اپنا نیزہ اس پر پھینکا، جو اس کے پستانوں کے درمیان جا کر لگا، اور کندھوں کے درمیان سے پار ہو گیا، پھر ایک انصاری اس کی طرف لپکا اور اس کے سر پر تلوار چلائی۔ عبداللہ بن عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ ایک گھر کی چھت پر سے ایک لڑکی نے کہا کہ ایک سیاہ فام غلام نے امیر المؤمنین مسیلمہ کو قتل کر دیا۔