مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

سریہ عاصم بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کا بیان

۔ (۱۰۷۴۳)۔ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَشَرَۃَ رَہْطٍ عَیْنًا، وَأَمَّرَ عَلَیْہِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتِ بْنِ أَبِی الْأَقْلَحِ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَانْطَلَقُوا حَتّٰی إِذَا کَانُوا بِالْہَدَّۃِ بَیْنَ عُسْفَانَ وَمَکَّۃَ ذُکِرُوا لِحَیٍّ مِنْ ہُذَیْلٍ،یُقَالُ لَہُمْ: بَنُو لِحْیَانَ، فَنَفَرُوا لَہُمْ بِقَرِیبٍ مِنْ مِائَۃِ رَجُلٍ رَامٍ، فَاقْتَصُّوا آثَارَہُمْ حَتَّی وَجَدُوا مَأْکَلَہُمْ التَّمْرَ فِی مَنْزِلٍ نَزَلُوہُ، قَالُوا: نَوَی تَمْرِ یَثْرِبَ فَاتَّبَعُوا آثَارَہُمْ، فَلَمَّا أُخْبِرَ بِہِمْ عَاصِمٌ وَأَصْحَابُہُ لَجَئُوا إِلٰی فَدْفَدٍ فَأَحَاطَ بِہِمُ الْقَوْمُ، فَقَالُوا: لَہُمْ انْزِلُوا وَأَعْطُونَا بِأَیْدِیکُمْ وَلَکُمُ الْعَہْدُ وَالْمِیثَاقُ أَنْ لَا نَقْتُلَ مِنْکُمْ أَحَدًا، فَقَالَ عَاصِمُ بْنُ ثَابِتٍ أَمِیرُ الْقَوْمِ: أَمَّا أَنَا وَاللّٰہِ! لَا أَنْزِلُ فِی ذِمَّۃِ کَافِرٍ، اللَّہُمَّ أَخْبِرْ عَنَّا نَبِیَّکَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَمَوْہُمْ بِالنَّبْلِ فَقَتَلُوا عَاصِمًا فِی سَبْعَۃٍ، وَنَزَلَ إِلَیْہِمْ ثَلَاثَۃُ نَفَرٍ عَلَی الْعَہْدِ وَالْمِیثَاقِ، مِنْہُمْ خُبَیْبٌ الْأَنْصَارِیُّ وَزَیْدُ بْنُ الدَّثِنَۃِ وَرَجُلٌ آخَرُ، فَلَمَّا تَمَکَّنُوا مِنْہُمْ أَطْلَقُوا أَوْتَارَ قِسِیِّہِمْ فَرَبَطُوہُمْ بِہَا، فَقَالَ الرَّجُلُ الثَّالِثُ: ہٰذَا أَوَّلُ الْغَدْرِ، وَاللّٰہِ! لَا أَصْحَبُکُمْ إِنَّ لِی بِہٰؤُلَائِ لَأُسْوَۃًیُرِیدُ الْقَتْلَ، فَجَرَّرُوہُ وَعَالَجُوہُ فَأَبٰی أَنْ یَصْحَبَہُمْ فَقَتَلُوہُ، فَانْطَلَقُوا بِخُبَیْبٍ وَزَیْدِ بْنِ الدَّثِنَۃِ حَتّٰی بَاعُوہُمَا بِمَکَّۃَ بَعْدَ وَقْعَۃِ بَدْرٍ، فَابْتَاعَ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ خُبَیْبًا، وَکَانَ خُبَیْبٌ ہُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ یَوْمَ بَدْرٍ فَلَبِثَ خُبَیْبٌ عِنْدَہُمْ أَسِیرًا حَتّٰی أَجْمَعُوا قَتْلَہُ، فَاسْتَعَارَ مِنْ بَعْضِ بَنَاتِ الْحَارِثِ مُوسٰییَسْتَحِدُّ بِہَا لِلْقَتْلِ فَأَعَارَتْہُ إِیَّاہَا، فَدَرَجَ بُنَیٌّ لَہَا، قَالَتْ: وَأَنَا غَافِلَۃٌ حَتّٰی أَتَاہُ فَوَجَدْتُہُ یُجْلِسُہُ عَلٰی فَخِذِہِ وَالْمُوسٰی بِیَدِہِ، قَالَتْ: فَفَزِعْتُ فَزْعَۃً عَرَفَہَا خُبَیْبٌ، قَالَ: أَتَخْشَیْنَ أَنِّی أَقْتُلُہُ؟ مَا کُنْتُ لِأَفْعَلَ، فَقَالَتْ: وَاللّٰہِ! مَا رَأَیْتُ أَسِیرًا قَطُّ خَیْرًا مِنْ خُبَیْبٍ، قَالَتْ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ وَجَدْتُہُ یَوْمًایَأْکُلُ قِطْفًا مِنْ عِنَبٍ فِییَدِہِ، وَإِنَّہُ لَمُوثَقٌ فِی الْحَدِیدِ وَمَا بِمَکَّۃَ مِنْ ثَمَرَۃٍ، وَکَانَتْ تَقُولُ: إِنَّہُ لَرِزْقٌ رَزَقَہُ اللّٰہُ خُبَیْبًا،فَلَمَّا خَرَجُوا بِہِ مِنَ الْحَرَمِ لِیَقْتُلُوہُ فِی الْحِلِّ، قَالَ لَہُمْ خُبَیْبٌ: دَعُونِی أَرْکَعْ رَکْعَتَیْنِ، فَتَرَکُوہُ فَرَکَعَ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ قَالَ: وَاللّٰہِ! لَوْلَا أَنْ تَحْسِبُوا أَنَّ مَا بِی جَزَعًا مِنَ الْقَتْلِ لَزِدْتُ، اللَّہُمَّ أَحْصِہِمْ عَدَدًا وَاقْتُلْہُمْ بَدَدًا وَلَا تُبْقِ مِنْہُمْ أَحَدًا، فَلَسْتُ أُبَالِی حِینَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا، عَلٰی أَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلَّہِ مَصْرَعِی، وَذٰلِکَ فِی ذَاتِ الْإِلٰہِ وَإِنْ یَشَأْیُبَارِکْ عَلٰی أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ، ثُمَّ قَامَ إِلَیْہِ أَبُو سِرْوَعَۃَ عُقْبَۃُ بْنُ الْحَارِثِ فَقَتَلَہُ، وَکَانَ خُبَیْبٌ ہُوَ سَنَّ لِکُلِّ مُسْلِمٍ قُتِلَ صَبْرًا الصَّلَاۃَ، وَاسْتَجَابَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ لِعَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ یَوْمَ أُصِیبَ، فَأَخْبَرَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَصْحَابَہُ یَوْمَ أُصِیبُواخَبَرَہُمْ، وَبَعَثَ نَاسٌ مِنْ قُرَیْشٍ إِلٰی عَاصِمِ بْنِ ثَابِتٍ حِینَ حُدِّثُوا أَنَّہُ قُتِلَ لِیُؤْتٰی بِشَیْئٍ مِنْہُ یُعْرَفُ، وَکَانَ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ عُظَمَائِہِمْ یَوْمَ بَدْرٍ، فَبَعَثَ اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ عَلٰی عَاصِمٍ مِثْلَ الظُّلَّۃِ مِنَ الدَّبْرِ، فَحَمَتْہُ مِنْ رُسُلِہِمْ فَلَمْ یَقْدِرُوا عَلٰی أَنْ یَقْطَعُوا مِنْہُ شَیْئًا۔ (مسند احمد: ۸۰۸۲)

سیدنا ابوہریرہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دس آدمیوں کی ایک جماعت کو روانہ فرمایا تاکہ وہ قریش کے حالات کو معلوم کریں کہ وہ آج کل کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے عاصم بن عمر بن خطاب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے نانا عاصم بن ثابت بن ابی اقلح کو ان پر امیر مقرر فرمایا،یہلوگ اپنے مشن پر روانہ ہوئے جب عسفان اور مکہ مکرمہ کے درمیان ایک مقام الھدۃ پر پہنچے تو بنو ہذیل کے ایک قبیلے بنولحیان کے لیے ان کا ذکر کیا گیا۔ اس قبیلے کے ایک سو کے لگ بھگ تیر اندازوں نے ان کا پیچھا کیا،یہ مسلمان ایک مقام پر ٹھہرے تھے، بنو لحیان کے لوگوں نے وہاں ان کے طعام میں دیکھا کہ انہوں نے وہاں کھجوریں کھائی ہیں، کہنے لگے یہ تو یثرب کی کھجوروں کی گٹھلیاں ہیں، وہ ان کے قدموں کے آثار پر ان کا پیچھا کرتے کرتے، ان تک جا پہنچے۔ جب عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اوران کے ساتھیوں کو ان کے بارے میں خبر دی گئی تو یہ ایک بلند ٹیلے پر چڑھ گئے۔ دشمن نے ان کا محاصرہ کر لیا اور کہا تم نیچے اتر آؤ تمہارے پاس جو کچھ ہے، ہمیں دے دو، ہم تمہارے ساتھ پختہ عہد کرتے ہیں کہ ہم تم میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کریں گے، تو عاصم بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ امیر قافلہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں تو کسی کافر کی امان میں نہیں جاتا، یا اللہ! ہمارے متعلق اپنے نبی کو مطلع کر دے، پھر کافروں نے ان مسلمانوں پر تیر برسانا شروع کر دیئے اور سات مسلمانوں کو شہید کر دیا، ان میں سے ایک سیدنا عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے۔ باقی تین آدمی سیدنا خبیب انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، سیدنا زید بن دثنہ اور ایک تیسرا آدمییہ ان کے عہدو پیمان کے نتیجے میں نیچے آگئے۔ کافروں نے جب ان تینوں کو قابو کر لیا تو ان کی کمانوں کی رسیاں کھول کر انہیں انہی سے باندھ دیا۔ ان تین میں سے تیسرے صحابی نے کافروں سے کہا: یہ تمہارا دھوکا ہے، اللہ کی قسم! میں تو تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گا، میرے لیے ان شہیدوں میں بہترین نمونہ ہے۔ کافروں نے اسے گھسیٹا اور ساتھ لے جانے کی پوری کوشش کی، مگر اس نے ساتھ جانے سے صاف صاف انکار کر دیا، بالآخر انھوں نے اسے بھی قتل کر ڈالا اور سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور سیدنا زید بن دثنہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ساتھ لے گئے او رجا کر مکہ میں فروخت کر دیا،یہ بدر کے بعد کا واقعہ ہے، سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بدر کے دن حارث بن عامر بن نوفل کو قتل کیا تھا، اس کی اولاد نے سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خرید لیا، سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے ہاں قیدی کی حیثیت سے رہے حتی کہ انہوں نے ان کے قتل کا منصوبہ بنایا۔ اپنے قتل سے قبل سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے حارث کی کسی بیٹی سے استرا طلب کیا، اس نے انہیں استرا لا دیا، اس دوران اس عورت کا چھوٹا سا بیٹا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس چلا گیا، وہ کہتی ہے کہ میں بچے کی طرف سے غافل تھی، مجھے اس کا پتہ نہ چل سکا اور وہ خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پاس جا پہنچا، جب میں نے خبیب کو دیکھا کہ انہوں نے بچے کو اپنی ران پر بٹھایا ہوا تھا اور استرا ان کے ہاتھ میں تھا۔ وہ کہتی ہے: میں یہ منظر دیکھ کر خوف زدہ ہو گئی، خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ میری گھبراہٹ کو جان گئے۔ کہنے لگے: کیا تمہیں اس بات کا خدشہ لاحق ہوا کہ میں اسے قتل کردوں گا؟ میں یہ کام نہیں کر سکتا، وہ کہتی ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ان کا بیان ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے ان کو ایک دن انگور کھاتے دیکھا، جو ان کے ہاتھ میں تھے۔ حالانکہ وہ تو زنجیروں میںبندھے ہوئے تھے اور ان دنوں مکہ میں پھل تھے ہی نہیں۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو خصوصی رزق عطا فرمایا تھا، وہ لوگ قتل کرنے کے لیے سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو ساتھ لے کر حرم کی حدود سے باہر گئے تاکہ ان کو وہاں جا کر قتل کریں، سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے ان سے کہا: مجھے اجازت دو، تاکہ میں دو رکعت نماز ادا کروں۔ چنانچہ انہوں نے دو رکعت نماز ادا کی۔ پھر کہا اللہ کی قسم! اگر یہ اندیشہ نہ ہو کہ تم سمجھو گے کہ میں قتل سے گھبرا رہا ہوں تو میں مزید نماز پڑھتا، یا اللہ ان میں سے ایک ایک کو شمار کر اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہلاک کر، اور ان میں سے کسی کو بھی باقی نہ چھوڑ، پھر انھوں نے یہ اشعار پڑھے: فَلَسْتُ أُبَالِی حِینَ أُقْتَلُ مُسْلِمًا، عَلَی أَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِی، وَذٰلِکَ فِی ذَاتِ الْإِلٰہِ وَإِنْ یَشَأْیُبَارِکْ عَلٰی أَوْصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعِ۔ (میں جب اسلام کی حالت میں قتل ہوںکر مر رہا ہوں تو مجھے اس بات کی قطعاً کوئی پروا نہیں کہ اللہ کی خاطر میں کس پہلو پر گرتا ہوں، میرے ساتھ یہ سلوک اللہ تعالیٰ کی ذات کی وجہ سے ہو رہا ہے کہ میں اس پر اور اس کے رسول پر ایمان لایا ہوں، اگر وہ چاہے گا تو میرے جسم کے کٹے ہوئے اعضاء کو برکتوں سے نواز دے گا۔) اس کے بعد ابو سروعہ عقبہ بن حارث نے آگے بڑھ کر ان کو شہید کر دیا۔ سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے باندھ کر قتل کئے جانے والے ہر مسلمان کے لیے قتل سے قبل نماز کا طریقہ جاری کیا اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا عاصم بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت کے دن کی دعا کو قبول کیا اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اسی دن صحابہ کرام کو ان کے واقعہ کی خبر دی۔ قریش کو پتہ چلا کر عاصم بن ثابت ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ قتل ہو گئے ہیں تو انہوں نے کچھ قریشی لوگوںکو بھیجا تاکہ وہ جا کر عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے جسم کے کچھ اعضاء کاٹ لائیں تاکہ انہیں مزیدیقین ہو جائے کہ وہ واقعی قتل ہو چکے ہیں۔ دراصل عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بدر کے دن قریش کے ایک سردار کو قتل کیا تھا، تو اللہ تعالیٰ نے بھڑ جیسے زہریلے جانوروں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دئیے، جنہوں نے عاصم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے اوپر چھتری کی مانند سایہ کر دیا اور قریش کے بھیجے ہوئے لوگوں کے برے ارادے سے ان کو بچا لیا، وہ ان کے جسم کے کسی بھی حصہ کو کاٹنے کی جرأت نہ کر سکے۔