مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

سریہ بئر معونہ کابیان اور یہ وہی سریہ ہے، جس میں ستر افراد شہید ہو گئے تھے

۔ (۱۰۷۴۴)۔ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَمَّا بَعَثَ حَرَامًا خَالَہُ أَخَا أُمِّ سُلَیْمٍ فِی سَبْعِینَ رَجُلًا، فَقُتِلُوا یَوْمَ بِئْرِ مَعُونَۃَ، وَکَانَ رَئِیسُ الْمُشْرِکِینَیَوْمَئِذٍ عَامِرَ بْنَ الطُّفَیْلِ، وَکَانَ ہُوَ أَتَی النَّبِیَّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: اخْتَرْ مِنِّی ثَلَاثَ خِصَالٍ یَکُونُ لَکَ أَہْلُ السَّہْلِ وَیَکُونُ لِی أَہْلُ الْوَبَرِ، أَوْ أَکُونُ خَلِیفَۃً مِنْ بَعْدِکَ أَوْ أَغْزُوکَ بِغَطَفَانَ أَلْفِ أَشْقَرَ وَأَلْفِ شَقْرَائ، قَالَ: فَطُعِنَ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلَانٍ، فَقَالَ: غُدَّۃٌ کَغُدَّۃِ الْبَعِیرِ فِی بَیْتِ امْرَأَۃٍ مِنْ بَنِی فُلَانٍ ائْتُونِی بِفَرَسِی، فَأُتِیَ بِہِ فَرَکِبَہُ فَمَاتَ وَہُوَ عَلٰی ظَہْرِہِ، فَانْطَلَقَ حَرَامٌ أَخُو أُمِّ سُلَیْمٍ وَرَجُلَانِ مَعَہُ رَجُلٌ مِنْ بَنِی أُمَیَّۃَ، وَرَجُلٌ أَعْرَجُ، فَقَالَ لَہُمْ: کُونُوا قَرِیبًا مِنِّی حَتّٰی آتِیَہُمْ فَإِنْ آمَنُونِی وَإِلَّا کُنْتُمْ قَرِیبًا، فَإِنْ قَتَلُونِی أَعْلَمْتُمْ أَصْحَابَکُمْ، قَالَ: فَأَتَاہُمْ حَرَامٌ، فَقَالَ: أَتُؤْمِنُونِی أُبَلِّغْکُمْ رِسَالَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْکُمْ، قَالُوا: نَعَمْ، فَجَعَلَ یُحَدِّثُہُمْ وَأَوْمَئُوا إِلٰی رَجُلٍ مِنْہُمْ مِنْ خَلْفِہِ فَطَعَنَہُ حَتّٰی أَنْفَذَہُ بِالرُّمْحِ، قَالَ: اللّٰہُ أَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ: ثُمَّ قَتَلُوہُمْ کُلَّہُمْ غَیْرَ الْأَعْرَجِ، کَانَ فِی رَأْسِ جَبَلٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَأُنْزِلَ عَلَیْنَا وَکَانَ مِمَّا یُقْرَأُ فَنُسِخَ أَنْ بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا، قَالَ: فَدَعَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَلَیْہِمْ أَرْبَعِینَ صَبَاحًا عَلٰی رِعْلٍ وَذَکْوَانَ وَبَنِی لِحْیَانَ، وَعُصَیَّۃَ الَّذِینَ عَصَوُا اللّٰہَ وَرَسُولَہُ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۲۷)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے بھائی میرے ماموں حرام کو ستر افراد کے ایک دستہ کے ہمراہ بھیجا تھا اور یہ لوگ بئر معونہ کے دن قتل کر دئیے گئے تھے۔ ان دنوں مشرکین کا لیڈر عامر بن طفیل بن مالک عامری تھا، اس نے نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آکر پیش کش کی تھی کہ آپ میری طرف سے تین میں سے کوئی ایک بات قبول کر لیں: (۱) دیہاتی علاقے آپ کے اور شہری علاقے میرے ہوں، یا (۲) آپ کے بعد خلافت مجھے دی جائے، یا (۳)میں بنو غطفان کو ساتھ ملا کر ایک ہزار اونٹوں اور ایک ہزار اونٹنیوں کے ساتھ آپ سے لڑوں گا۔ ( اس موقعہ پر آپ نے دعا کی کہ یا اللہ عامر کے مقابلے میں میری مدد فرما) چنانچہ وہ بنو سلول کے ایک گھرانے میں تھا کہ اسے طاعون نے آلیا، وہ کہنے لگا: یہ تو بنو فلاں کی عورت کے گھر میں اونٹوں کی گلٹی جیسی گلٹی ہے، میرا گھوڑا میرے پاس لاؤ۔ اس کا گھوڑا اس کے پاس لایا گیا،یہ اس پر سوار ہو ا اور اس کی پشت پر ہی اسے موت آگئی۔ سیدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بھائی سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ اور اس کے ساتھ دو آدمی ان میں سے ایک کا تعلق بنو امیہ سے تھا اور دوسرا اعرج یعنی لنگڑا تھا، کو ساتھ لئے چلا، اور اس نے ان تینوں سے کہا: تم میرے قریب قریب رہنا تاآنکہ میں ان کے پاس جا پہنچوں، انہوں نے اگر مجھے کچھ نہ کہا تو بہتر اور اگر کوئی دوسری صورت پیدا ہوئی تو تم میرے قریب ہی ہو گئے اور اگر انہوں نے مجھے قتل کر ڈالا تو تم پیچھے والے اپنے ساتھیوں کواطلاع تو دے سکو گے۔ چنانچہ حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ان کے قریب پہنچے اور ان سے کہا: کیا تم مجھے اس بات کی اجازت دو گے کہ میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا پیغام تم لوگوں تک پہنچا سکوں۔ انہوں نے کہا: جی ہاں، یہ ان کے سامنے گفتگو کرنے لگے اور ان لوگوں نے حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے پیچھے سے اپنے ایک آدمی کو اشارہ کیا ور اس نے ان پر نیزے کا وار کیا، جوان کے جسم سے پار ہو گیا۔ سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اس وقت کہا: اللہ اکبر، رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔ پھر انہوں نے اعرج کے سوا باقی دو کو قتل کر دیا، وہ پہاڑ کی چوٹی پر تھا اس لئے بچ گیا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں اسی واقعہ کے سلسلہ میں ہم پر یہ آیت نازل ہوئی، اس کی باقاعدہ تلاوت کی جاتی تھی،یہ بعد میں منسوخ کر دی گئی: بَلِّغُوا قَوْمَنَا أَنَّا لَقِینَا رَبَّنَا فَرَضِیَ عَنَّا وَأَرْضَانَا۔ (ہماری قوم تک یہ پیغام پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے ہیں اور وہ ہم سے راضی ہو گیا ہے اور اس نے ہمیں بھی راضی کر دیا ہے۔)نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان رِعل، ذکوان، بنو لحیان اور بنو عصیہ پر چالیس دن تک بددعا کی، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی معصیت کی تھی۔

۔ (۱۰۷۴۵)۔ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ کُنَّا عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ فَکَتَبَ کِتَابًا بَیْنَ أَہْلِہِ فَقَالَ: اشْہَدُوا، یَا مَعْشَرَ الْقُرَّائِ! قَالَ: ثَابِتٌ فَکَأَنِّی کَرِہْتُ ذَلِکَ، فَقُلْتُ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ! لَوْ سَمَّیْتَہُمْ بِأَسْمَائِہِمْ، قَالَ: وَمَا بَأْسُ ذَلِکَ أَنْ أَقُلْ لَکُمْ قُرَّائُ، أَفَلَا أُحَدِّثُکُمْ عَنْ إِخْوَانِکُمْ الَّذِینَ کُنَّا نُسَمِّیہِمْ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الْقُرَّائَ، فَذَکَرَ أَنَّہُمْ کَانُوا سَبْعِینَ فَکَانُوا إِذَا جَنَّہُمْ اللَّیْلُ انْطَلَقُوا إِلٰی مُعَلِّمٍ لَہُمْ بِالْمَدِینَۃِ، فَیَدْرُسُونَ اللَّیْلَ حَتَّییُصْبِحُوا، فَإِذَا أَصْبَحُوا فَمَنْ کَانَتْ لَہُ قُوَّۃٌ اسْتَعْذَبَ مِنَ الْمَائِ وَأَصَابَ مِنَ الْحَطَبِ، وَمَنْ کَانَتْ عِنْدَہُ سَعَۃٌ اجْتَمَعُوا فَاشْتَرَوُا الشَّاۃَ وَأَصْلَحُوہَا، فَیُصْبِحُ ذٰلِکَ مُعَلَّقًا بِحُجَرِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا أُصِیبَ خُبَیْبٌ بَعَثَہُمْ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَأَتَوْا عَلٰی حَیٍّ مِنْ بَنِی سُلَیْمٍ وَفِیہِمْ خَالِی حَرَامٌ، فَقَالَ حَرَامٌ لِأَمِیرِہِمْ: دَعْنِی فَلْأُخْبِرْ ہٰؤُلَائِ أَنَّا لَسْنَا إِیَّاہُمْ نُرِیدُ حَتّٰییُخْلُوا وَجْہَنَا، وَقَالَ عَفَّانُ: فَیُخْلُونَ وَجْہَنَا، فَقَالَ لَہُمْ حَرَامٌ: إِنَّا لَسْنَا إِیَّاکُمْ نُرِیدُ فَخَلُّوا وَجْہَنَا، فَاسْتَقْبَلَہُ رَجُلٌ بِالرُّمْحِ فَأَنْفَذَہُ مِنْہُ، فَلَمَّا وَجَدَ الرُّمْحَ فِی جَوْفِہِ، قَالَ: اللّٰہُ أَکْبَرُ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ، قَالَ: فَانْطَوَوْا عَلَیْہِمْ فَمَا بَقِیَ أَحَدٌ مِنْہُمْ، فَقَالَ أَنَسٌ: فَمَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَجَدَ عَلٰی شَیْئٍ قَطُّ وَجْدَہُ عَلَیْہِمْ، فَلَقَدْ رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی صَلَاۃِالْغَدَاۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ فَدَعَا عَلَیْہِمْ، فَلَمَّا کَانَ بَعْدَ ذٰلِکَ إِذَا أَبُو طَلْحَۃَیَقُولُ لِی: ہَلْ لَکَ فِی قَاتِلِ حَرَامٍ؟ قَالَ: قُلْتُ لَہُ: مَا لَہُ فَعَلَ اللّٰہُ بِہِ وَفَعَلَ، قَالَ: مَہْلًا فَإِنَّہُ قَدْ أَسْلَمَ، وَقَالَ عَفَّانُ: رَفَعَ یَدَیْہِیَدْعُو عَلَیْہِمْ و قَالَ أَبُو النَّضْرِ رَفَعَ یَدَیْہِ۔ (مسند احمد: ۱۲۴۲۹)

ثابت سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:ہم سیدنا انس بن مالک ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی خدمت میں تھے، انہوں نے اپنے اہل کے درمیان بیٹھ کر ایک مکتوب لکھا اور کہا: اے قراء کی جماعت! حاضر ہو جاؤ، ثابت کہتے ہیں:مجھے یہ لفظ کچھ اچھا نہ لگا، سو میں نے عرض کیا: اے ابو حمزہ! کیا ہی بہتر ہوتا کہ آپ ان لوگوں کو ان کے ناموں سے پکارتے، سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا: اس میں تو کوئی حرج نہیں کہ میں تمہیں قراء کہوں، کیا میں تمہیں تمہارے ان بھائیوں کے متعلق نہ بتلاؤں، جنہیں ہم عہدِ رسالت میں قراء کہا کرتے تھے۔ پھر انہو ں نے بیان کیا کہ وہ ستر افراد تھے، ان کی حالت یہ تھی کہ جب رات ہوتی تو وہ مدینہ میں اپنے ایک استاد کی خدمت میں پہنچ جاتے اور وہاں ساری رات صبح تک قرآن کا سبق لیتے اور جب صبح ہوتی تو جس میں استطاعت ہوتی وہ شیریں پانی لاتا۔( اور اسے فروخت کرتا) اور کوئی ایندھن کی لکڑیاں لا کر بیچ لیتا اور جس میں استطاعت ہوتی وہ مل کر بکری خرید لیتے، اسے خوب بنا سنوار کر ذبح کر کے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے حجروں کے پاس لٹکا دیتے، جب سیدنا خبیب ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کی شہادت ہوئی تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان قراء کو ایک مہم پر روانہ فرمایا،یہ بنو سلیم کے ایک قبیلے میں گئے، ان کے ہمراہ میرے ماموں سیدنا حرام بن ملحان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بھی تھے۔ سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے اپنے امیرِ قافلہ سے گزارش کی کہ مجھے اجازت دیں تاکہ میں ان لوگوں کو بتا دوں کہ ہم ان سے لڑائی کرنے کے لیے نہیں آئے، تاکہ وہ ہمارا راستہ نہ روکیں، پس سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے جا کر ان سے کہا: ہم تمہارے ساتھ لڑنے کے لیے نہیں آئے، لہٰذا تم ہمارا راستہ نہ روکو۔ ایک آدمی نیزہ لے کر سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے سامنے آیا اور اس نے ان پر نیزے کا وار کر دیا، نیزہ ان کے جسم سے پار ہو گیا۔ انہوں نے جب اپنے پیٹ پر نیزے کا وار محسوس کیا تو زور سے کہا: اللہ اکبر، ربِّ کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ پھر وہ لوگ باقی قافلہ والوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ان میں سے ایک بھی باقی نہ بچا۔ سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو کسی موقع پر اس قدر غمگین نہیں دیکھا، جس قدر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس واقعہ سے غمگین ہوئے۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نماز فجر میں ہاتھ اُٹھا کر ان ظالموں پر بددعا کرتے تھے، سیدنا ابو طلحہ انصاری ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ مجھ سے کہا کرتے تھے: کیا میں تمہیں تمہارے ماموں سیدنا حرام ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے قاتل کے متعلق بتلاؤں؟ میں نے کہا: اللہ نے اس کے ساتھ جو کرنا تھا کر لیا،اس نے کہا وہ تو اسلام قبول کر چکا ہے۔ عفان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے دونوں ہاتھ اُٹھا کر ان پر بددعائیں کیں۔اور ابو النضر نے یوں کہا کہ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے۔