غزوۂ بنی نضیر اور بنو نضیر کو مدینہ منورہ سے جلا وطن کرنے کا بیان
۔ (۱۰۷۴۷)۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَرَّقَ نَخْلَ بَنِی النَّضِیرِ وَقَطَّعَ وَہِیَ الْبُوَیْرَۃُ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَائِمَۃً عَلٰی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ}۔ (مسند احمد: ۶۰۵۴)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنو نضیر کے بویرہ نخلستان کی کھجوروں کو جلایا اور کاٹ ڈالا، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں: {مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِینَۃٍ أَوْ تَرَکْتُمُوہَا قَائِمَۃً عَلٰی أُصُولِہَا فَبِإِذْنِ اللّٰہِ وَلِیُخْزِیَ الْفَاسِقِینَ} … تم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے جو درخت کاٹ ڈالے یا جن کو تم نے ان کی جڑوں پر کھڑا چھوڑ دیا تو یہ سب اللہ کے حکم سے تھا، یہ اس لیے ہوا کہ اللہ فاسقین کو رسوا کرنا چاہتا تھا۔ (سورۂ حشر: ۵)
(۱۰۷۴۷) تخریج: أخرجہ البخاری۴۰۳۱، ۴۸۸۴، ومسلم: ۱۷۴۶ (انظر: ۶۰۵۴)
فوائد:… مختصر قصہ یہ ہے کہ مدینہ میں آ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان یہودیوں سے صلح کر لی تھی کہ نہ آپ ان سے لڑیں نہ یہ آپ سے لڑیں، لیکن ان لوگوں نے اس عہد کو توڑ دیا تھا، جن کی وجہ سے اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان پر غالب کیا اور آپ نے انہیںیہاں سے نکال دیا، مسلمانوں کو کبھی اس کا خیال تک نہ تھا، خود یہیہود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان مضبوط قلعوں کے ہوتے ہوئے کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، لیکن جب اللہ کی پکڑ آئییہ سب چیزیںیونہی رکھی کی رکھی رہ گئیں اور اچانک اس طرح گرفت میں آ گئے کہ حیران رہ گئے اور آپ نے انہیں مدینہ سے نکلوا دیا، بعض تو شام کی زراعتی زمینوں میں چلے گئے، جو حشر و نشر کی جگہ ہے اور بعض خیبر کی طرف جا نکلے، ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ اپنے اونٹوں پر لاد کر جو سامان لے جا سکو اپنے ساتھ لے جاؤ، اس لئے انہوں نے اپنے گھروں کو توڑ پھوڑ کر جو چیزیں لے جا سکتے تھے، اپنے ساتھ اٹھالیں، جو رہ گئیں وہ مسلمانوں کے ہاتھ لگیں۔ اس آیت میںبنونضیر کا ذکر ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا تو ان کے کھجور کے درختوں کو آگ لگا دی اور کچھ کاٹ ڈالے اور کچھ چھوڑ دیئے، جس سے مقصود دشمن کی آڑ کو ختم کرنا تھا اور یہ واضح کرنا تھا کہ اب مسلمان تم پر غالب آ گئے ہیں۔
یہ ربیع الاول ۴ سن ہجری کا واقعہ ہے۔