مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی اُمّ المؤمنین سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے شادی کا بیان

۔ (۱۰۷۴۸)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ: أَتَانِی أَبُو سَلَمَۃَیَوْمًا مِنْ عِنْدِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: لَقَدْ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَوْلًا فَسُرِرْتُ بِہِ، قَالَ: ((لَا تُصِیبُ أَحَدًا مِنْ الْمُسْلِمِینَ مُصِیبَۃٌ فَیَسْتَرْجِعَ عِنْدَ مُصِیبَتِہِ، ثُمَّ یَقُولُ: اللَّہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا إِلَّا فُعِلَ ذٰلِکَ بِہِ۔)) قَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: فَحَفِظْتُ ذٰلِکَ مِنْہُ، فَلَمَّا تُوُفِّیَ أَبُو سَلَمَۃَ اسْتَرْجَعْتُ وَقُلْتُ: اَللّٰہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْنِی خَیْرًا مِنْہُ۔ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی نَفْسِی قُلْتُ: مِنْ أَیْنَ لِی خَیْرٌ مِنْ أَبِی سَلَمَۃَ؟ فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِی اسْتَأْذَنَ عَلَیَّ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَأَنَا أَدْبُغُ إِہَابًا لِی، فَغَسَلْتُ یَدَیَّ مِنَ الْقَرَظِ وَأَذِنْتُ لَہُ، فَوَضَعْتُ لَہُ وِسَادَۃَ أَدَمٍ حَشْوُہَا لِیفٌ، فَقَعَدَ عَلَیْہَا فَخَطَبَنِی إِلٰی نَفْسِی، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ مَقَالَتِہِ، قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا بِی أَنْ لَا تَکُونَ بِکَ الرَّغْبَۃُ فِیَّ، وَلٰکِنِّی امْرَأَۃٌ فِیَّ غَیْرَۃٌ شَدِیدَۃٌ، فَأَخَافُ أَنْ تَرٰی مِنِّی شَیْئًایُعَذِّبُنِی اللّٰہُ بِہِ، وَأَنَا امْرَأَۃٌ دَخَلْتُ فِی السِّنِّ، وَأَنَا ذَاتُ عِیَالٍ، فَقَالَ: ((أَمَّا مَا ذَکَرْتِ مِنَ الْغَیْرَۃِ فَسَوْفَ یُذْہِبُہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْکِ، وَأَمَّا مَا ذَکَرْتِ مِنَ السِّنِّ، فَقَدْ أَصَابَنِی مِثْلُ الَّذِی أَصَابَکِ، وَأَمَّا مَا ذَکَرْتِ مِنَ الْعِیَالِ فَإِنَّمَا عِیَالُکِ عِیَالِی۔)) قَالَتْ: فَقَدْ سَلَّمْتُ لِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَتَزَوَّجَہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَۃَ: فَقَدْ أَبْدَلَنِی اللّٰہُ بِأَبِی سَلَمَۃَ خَیْرًا مِنْہُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ (مسند احمد: ۱۶۴۵۵)

اُمّ المؤمنین سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: میرے شوہر ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک دن رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے پاس سے تشریف لائے اورکہا: میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو ایک ایسی بات کہتے سنا ہے کہ جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی ہے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: جب کسی مسلمان کو کوئی مصیبت آئے اور وہ اس وقت (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ) کہہ کہ یہ دعا پڑھے اللَّہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا (یا اللہ! مجھے اس مصیبت کا اجر دے اور اس کا نعم البدل عطا فرما) تو اللہ اسے یہ چیزیں عطا فرما دیتا ہے۔ سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: میں نے ان کییہ بات یاد رکھی اور جب سیدنا ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہوا تو میں نے (اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ) کہہ کہ یہ دعا پڑھی اللَّہُمَّ أْجُرْنِی فِی مُصِیبَتِی وَاخْلُفْ لِی خَیْرًا مِنْہَا ۔ لیکن ساتھ ہی میرے دل میں خیال آیا کہ ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بہتر اور اچھا انسان کون ہو سکتا ہے؟ (بہرحال میں نے دعا جاری رکھی)، سو جب میری عدت پوری ہوئی تو اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ہاں داخل ہو نے کی اجازت طلب کی، اس وقت میں چمڑا رنگ رہی تھی، میں نے جلدی سے ہاتھ دھوئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اندر آنے کی اجازت دی، میں نے آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے چمڑے کا ایک تکیہ رکھا، اس میں کھجور کے پتے بھرے ہوئے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اس پر بیٹھ گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے اپنے ساتھ شادی کا پیغام دیا، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اپنی بات سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ایسی تو کوئی بات نہیں کہ مجھے آپ میں رغبت نہ ہو، درحقیقت بات یہ ہے کہ میرے اندر غیرت کا جذبہ بہت زیادہ ہے، مجھے ڈر ہے کہ مبادا آپ میرے اندر ایسی کوئی بات دیکھیں، جس کی وجہ سے اللہ مجھے عذاب سے دو چار کر دے، نیز میں اب کافی عمر رسیّدہ بھی ہو چکی ہوں اور میں اولاد والی بھی ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم نے جو غیرت کا ذکر کیا ہے، اللہ تعالیٰ اسے عنقریب ختم کر دے گا، تم نے عمر رسیدہ ہونے کی جو بات کی ہے تو میرا حال بھی ایسا ہی ہے اور جو تم نے اولاد کی بات کی ہے تو وہ میری اپنی اولاد ہو گی۔ چنانچہ میں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی بات تسلیم کر لی اور اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھ سے نکاح کر لیا، سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کے بدلے میں اس سے بہتر شوہر یعنی اللہ کے رسول عطا کر دئیے۔

۔ (۱۰۷۴۹)۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَۃَ قَالَتْ قَالَ أَبُو سَلَمَۃَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِذَا أَصَابَ أَحَدَکُمْ مُصِیبَۃٌ فَلْیَقُلْ: إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، عِنْدَکَ احْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی وَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا۔))، فَلَمَّا احْتُضِرَ أَبُو سَلَمَۃَ، قَالَ: اللَّہُمَّ اخْلُفْنِی فِی أَہْلِی بِخَیْرٍ، فَلَمَّا قُبِضَ قُلْتُ: إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، اَللّٰہُمَّ عِنْدَکَ أَحْتَسِبُ مُصِیبَتِی فَأْجُرْنِی فِیہَا، قَالَتْ: وَأَرَدْتُ أَنْ أَقُولَ وَأَبْدِلْنِی خَیْرًا مِنْہَا، فَقُلْتُ: وَمَنْ خَیْرٌ مِنْ أَبِی سَلَمَۃَ؟ فَمَا زِلْتُ حَتّٰی قُلْتُہَا، فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتُہَا، خَطَبَہَا أَبُو بَکْرٍ فَرَدَّتْہُ، ثُمَّ خَطَبَہَا عُمَرُ فَرَدَّتْہُ، فَبَعَثَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَتْ: مَرْحَبًا بِرَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبِرَسُولِہِ، أَخْبِرْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنِّی امْرَأَۃٌ غَیْرٰیوَأَنِّی مُصْبِیَۃٌ وَأَنَّہُ لَیْسَ أَحَدٌ مِنْ أَوْلِیَائِی شَاہِدًا، فَبَعَثَ إِلَیْہَا رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمَّا قَوْلُکِ إِنِّی مُصْبِیَۃٌ فَإِنَّ اللّٰہَ سَیَکْفِیکِ صِبْیَانَکِ، وَأَمَّا قَوْلُکِ إِنِّی غَیْرٰی فَسَأَدْعُو اللّٰہَ أَنْ یُذْہِبَ غَیْرَتَکِ، وَأَمَّا الْأَوْلِیَائُ فَلَیْسَ أَحَدٌ مِنْہُمْ شَاہِدٌ وَلَا غَائِبٌ إِلَّا سَیَرْضَانِی۔)) قُلْتُ: یَا عُمَرُ! قُمْ فَزَوِّجْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((أَمَا إِنِّی لَا أَنْقُصُکِ شَیْئًا مِمَّا أَعْطَیْتُ أُخْتَکِ فُلَانَۃَ، رَحَیَیْنِ وَجَرَّتَیْنِ وَوِسَادَۃً مِنْ أَدَمٍ حَشْوُہَا لِیفٌ۔)) قَالَ: وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَأْتِیہَا، فَإِذَا جَائَ أَخَذَتْ زَیْنَبَ فَوَضَعَتْہَا فِی حِجْرِہَا لِتُرْضِعَہَا، وَکَانَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم حَیِیًّا کَرِیمًایَسْتَحْیِی، فَرَجَعَ فَفَعَلَ ذٰلِکَ مِرَارًا فَفَطِنَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ لِمَا تَصْنَعُ، فَأَقْبَلَ ذَاتَ یَوْمٍ وَجَائَ عَمَّارٌ وَکَانَ أَخَاہَا لِأُمِّہَا، فَدَخَلَ عَلَیْہَا فَانْتَشَطَہَا مِنْ حِجْرِہَا وَقَالَ: دَعِی ہٰذِہِ الْمَقْبُوحَۃَ الْمَشْقُوحَۃَ الَّتِی آذَیْتِ بِہَا رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: وَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَدَخَلَ فَجَعَلَ یُقَلِّبُ بَصَرَہُ فِی الْبَیْتِ، وَیَقُولُ: ((أَیْنَ زَنَابُ؟ مَا فَعَلَتْ زَنَابُ؟)) قَالَتْ: جَائَ عَمَّارٌ فَذَہَبَ بِہَا، قَالَ: فَبَنٰی بِأَہْلِہِ ثُمَّ قَالَ: ((إِنْ شِئْتِ أَنْ أُسَبِّعَ لَکِ سَبَّعْتُ لِلنِّسَائِ۔)) (مسند احمد: ۲۷۲۰۴)

سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے یہ بھی مروی ہے کہ سیدنا ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ارشاد ہے کہ جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت آئے تو اسے چاہیے کہ وہ کہے: إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، عِنْدَکَ اِحْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی وَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا (بیشک ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور بیشک ہم نے اسی کی طرف لوٹنا ہے، اے اللہ میں اپنی اس مصیبت کا تجھ سے اجر چاہتا ہوں، تو مجھے اس کا اجر اور اس کا نعم البدل عطا فرما)۔ جب میرے شوہر ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کا انتقال ہونے لگا تو انہوں نے کہا: یا اللہ! میرے بعد میرے اہل میں اچھا نائب بنانا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو میں نے کہا:إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ، عِنْدَکَ اِحْتَسَبْتُ مُصِیبَتِی وَأْجُرْنِی فِیہَا وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا۔سیّدہ فرماتی ہیں: میں نے یوں کہنا چاہا کہ وَأَبْدِلْنِی مَا ہُوَ خَیْرٌ مِنْہَا ( اور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا فرما)، لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خیال آیا کہ ابو سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے بہتر کون ہو سکتا ہے؟ میں یہ سوچتی رہی، آخر کا میں نے یہ لفظ بھی کہہ ہی دئیے، جب ان کی عدت پوری ہوئی تو سیّدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا، انہوں نے ان کو رد کر دیا، پھر سیدنا عمر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے نکاح کا پیغام بھیجا، انہوں نے ان کو بھی رد کر دیا، پھر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نکاح کا پیغام بھیجا تو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کے قاصد کو خوش آمدید، لیکن تم جا کر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے ذکر کرو کہ میں تو بہت زیادہ غیرت والی ہوں اور میں صاحبِ اولاد بھی ہوں اور میرے سر پر ستوں میں سے یہاں کوئی بھی موجود نہیں، رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے واپسی جواب بھیجا کہ تمہارا یہ کہنا کہ تم صاحبِ اولاد ہو اس بارے میں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، بچوں کے بارے میں اللہ تمہاری مدد فرمائے گا اور تمہارا یہ کہنا کہ تم انتہائی غیرت مند ہو تو میں اللہ سے دعا کر وں گا کہ وہ تمہاری غیر ت کی اس شدت کو ختم کر دے اور تمہارا یہ کہنا کہ تمہارے سر پرستوں میں سے کوئی بھییہاں موجود نہیں، تو یاد رہے کہ تمہارا کوئی بھی سر پرست، وہ موجود ہو یا غائب، وہ میرے متعلق رضا مندی کا ہی اظہار کرے گا۔ یہ سن کر میں نے اپنے بیٹے عمر سے کہا کہ اٹھو اور رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے میرا نکاح کر دو۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں نے تمہاری فلاں بہن کوجو کچھ دیا ہے، تمہیں اس سے کم نہ دوں گا، اسے دو چکیاں، دو مٹکے، اور چمڑے کا ایک تکیہ، جس میں کھجور کی چھال بھری تھی، دئیے تھے۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں آتے اور وہ اپنی دختر زینب کو گود میں اٹھائے دودھ پلا رہی ہوتی تو چوں کہ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بھی انتہائی حیا دار اور مہربان تھے، ان کو اس کیفیت میں دیکھتے تو واپس چلے جاتے، اس قسم کی صورت حال کئی مرتبہ پیش آئی، سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس کا پتہ چل گیا وہ ان کا مادری بھائی تھا، تو ایک دن سیدنا عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آکر زینب کو ان کی گود سے اٹھالے گئے اور کہا کہ تم اس بچی کو چھوڑو، جس کی وجہ سے تم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو پریشان کرتی ہو۔ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم گھر تشریف لائے تو ادھر ادھر دیکھنے لگے اور فرمایا: زناب کہاں ہے؟ زناب کدھر گئی؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی مراد زینب تھی، سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے بتلایا کہ عمار ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے تھے اور وہ اسے لے گئے ہیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارا اور فرمایا: اگر تم چاہو تو تمہارے پاس سات دن قیام کروں گا، لیکنیاد رکھو پھر میں اپنی تمام ازواج کے ہاں سات سات دن قیام کرنے بعد میں تمہارے پاس آؤں گا۔

۔ (۱۰۷۵۰)۔ عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ بِنْتِ امِّ سَلَمَۃَ عَنْ اّمِّ سَلَمَۃَ بِنَحْوِہٖوَفِیْہِ: قَالَ: فَتَزَوَّجَہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: فَاَتَاھَا فَوَجَدَھَا تُرْضِعُ فَانْصَرَفَ، ثُمَّ اَتَاھَا فَوَجَدَھَا تُرْضِعُ فَانْصَرَفَ، قَالَ: فبَلَغَ ذٰلِکَ عَمَّارَ بْنَ یَاسرٍ اَتَاھَا، فَقَالَ: حَلَّتْ بَیْنَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَبَیْنَ حَاجَتِہِ ھَلُمَّ الصَّبِیَّۃَ، قَالَ: فَاخَذَھَا فَاسْتَرْضَعَ لَھَا، فَاتَاھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((اَیْنَ زَنَابُ؟)) یَعْنِی زَیْنَبَ، قَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اَخَذَھَا عَمَّارٌ، فَدَخَلَ بِہَا وَقَالَ: ((اِنَّ بِکِ عَلٰی اَھْلِکِ کَرَامَۃً۔)) قَالَ: فَاقَامَ عِنْدَھَا اِلَی الْعَشِیِّ ثُمَّ قَالَ: ((اِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَکِ وَاِنْ سَبَّعْتُ لَکِ سَبَّعْتُ لِسَائِرِ نِسَائِیْ؟ وَاِنْ شِئْتِ قَسَمْتُ لَکِ؟)) قَالَتْ: لَا، بَلِ اقْسَمْ لِیْ۔ (مسند احمد: ۲۷۲۵۷)

سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے گذشتہ حدیث کی مانند ہی مروی ہے، البتہ اس میں ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے نکاح کر لیا،جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ان کے ہاں آئے تو دیکھا کہ وہ اپنی بیٹی کو دودھ پلا رہی ہیں، آپ واپس لوٹ گئے، اس کے بعد پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اورانہیں دیکھا کہ وہ اپنی بیٹی کو دودھ پلا رہی ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم پھر واپس چلے گئے۔ جب سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو اس بات کا پتہ چلا تو وہ ان کے ہاں آئے اور کہا: تم اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کی حاجت کے درمیان حائل ہو، تم یہ بچی مجھے دے دو، پس وہ اسے لے گئے اور اسے دودھ پلانے والی عورت کا بندوبست کر دیا، اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف لے گئے تو دریافت فرمایا کہ زناب یعنی زینب کہاں ہے؟ سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اسے عمار لے گئے ہیں، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں تشریف رکھی اور فرمایا: تم اپنے اہل خانہ کے ہاں معزز اور مکرم ہو۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان کے ہاں پچھلے پہر تک قیام کیا اورپھر فرمایا: اگر تم چاہو تو میں تمہارے ہاں سات دن قیام کر سکتا ہوں، لیکن اگر میں تمہارے ہاں سات دن قیام کروں تو اپنی تمام ازواج کے ہاں سات سات دن گزاروں گا اور اگر چاہو تو تمہارے لیے باری مقرر کردوں؟ سیّدہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے عرض کیا کہ آپ میرے لیے باری ہی مقرر کر دیں۔

۔ (۱۰۷۵۱)۔ عَنْ أَبِیْ بَکْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ یُخْبِرُ: أَنَّ أُمَّ سَلَمَۃَ زَوْجَ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَخْبَرَتْہُ، أَنَّہا لَمَّا قَدِمَتِ الْمَدِینَۃَ أَخْبَرَتْہُمْ، أَنَّہَا ابْنَۃُ أَبِی أُمَیَّۃَ بْنِ الْمُغِیرَۃِ فَکَذَّبُوہَا، وَیَقُولُونَ: مَا أَکْذَبَ الْغَرَائِبَ حَتّٰی أَنْشَأَ نَاسٌ مِنْہُمْ إِلَی الْحَجِّ، فَقَالُوا: مَا تَکْتُبِینَ إِلٰی أَہْلِکِ، فَکَتَبَتْ مَعَہُمْ فَرَجَعُوا إِلَی الْمَدِینَۃِیُصَدِّقُونَہَا فَازْدَادَتْ عَلَیْہِمْ کَرَامَۃً، قَالَتْ: فَلَمَّا وَضَعْتُ زَیْنَبَ جَائَ نِی النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَخَطَبَنِی، فَقُلْتُ: مَا مِثْلِی نُکِحَ أَمَّا أَنَا فَلَا وَلَدَ فِیَّ وَأَنَا غَیُورٌ وَذَاتُ عِیَالٍ، فَقَالَ: ((أَنَا أَکْبَرُ مِنْکِ، وَأَمَّا الْغَیْرَۃُ فَیُذْہِبُہَا اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَمَّا الْعِیَالُ فَإِلَی اللّٰہِ وَرَسُولِہِ۔)) فَتَزَوَّجَہَا فَجَعَلَ یَأْتِیہَا فَیَقُولُ: ((أَیْنَ زُنَابُ؟)) حَتّٰی جَائَ عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍیَوْمًا فَاخْتَلَجَہَا، وَقَالَ: ہٰذِہِ تَمْنَعُ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَکَانَتْ تُرْضِعُہَا فَجَائَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: ((أَیْنَ زُنَابُ؟)) فَقَالَتْ قُرَیْبَۃُ ابْنَۃُ أَبِی أُمَیَّۃَ، وَوَافَقَہَا عِنْدَہَا أَخَذَہَا عَمَّارُ بْنُ یَاسِرٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((إِنِّی آتِیکُمُ اللَّیْلَۃَ۔)) قَالَتْ: فَقُمْتُ فَأَخْرَجْتُ حَبَّاتٍ مِنْ شَعِیرٍ کَانَتْ فِی جَرٍّ، وَأَخْرَجْتُ شَحْمًا فَعَصَدْتُہُ لَہُ، قَالَتْ: فَبَاتَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ثُمَّ أَصْبَحَ، فَقَالَ حِینَ أَصْبَحَ: ((إِنَّ لَکِ عَلٰی أَہْلِکِ کَرَامَۃً، فَإِنْ شِئْتِ سَبَّعْتُ لَکِ، فَإِنْ أُسَبِّعْ لَکِ أُسَبِّعْ لِنِسَائِی۔)) (مسند احمد: ۲۷۱۵۴)

ابوبکر بن عبدالرحمن ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی زوجہ سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کو بتلایا کہ وہ جب مدینہ منورہ آئیں تو انہوں نے لوگوں کو بتلایا: میں ابو امیہ بن مغیرہ کی دختر ہوں، لوگوں نے ان کو جھوٹا سمجھا اور انھوں نے کہا: یہ کیسی عجیب وغریب جھوٹی بات ہے، یہاں تک کہ وہاں سے کچھ لو گ حج کے لیے روانہ ہوئے، انہوں نے کہا: کیا آپ اپنے اہلِ خانہ کے نام خط نہیں لکھ دیتیں؟ سو انہوں نے انہیں خط لکھ دیا، پھر انہوں نے مدینہ واپس آکر ان کی باتوں کی تصدیق کی (کہ واقعی وہ ابو امیہ کی بیٹی ہیں)، پس لوگوں میں ان کا مقام مزید بڑھ گیا، سیدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کہتی ہیں: جب میں نے اپنی بیٹی زینب کو جنم دیا تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے میرے ہاں آکر مجھے نکاح کا پیغام دیا، میں نے عرض کیا: مجھ جیسی عورت سے نکاح نہیں کیا جاتا، اب مجھ سے اولاد ہونے کی امید نہیں اور پھر میں بہت زیادہ غیرت کھانے والی ہوں اور صاحبِ اولاد بھی ہوں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تم سے زیادہ عمر رسیّدہ ہوں، باقی رہی غیرت کی بات تو اللہ اسے ختم کر دے گا اور اولاد تو اللہ اور اس کے رسول کے سپرد ہے۔ چنانچہ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ان سے نکاح کر لیا، پھر آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ہاں آنے لگے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فرماتے کہ زناب کہاں ہے؟ یہاں تک کہ ایک دن سیدنا عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آئے اور اس بچی کو لے گئے اور انہوں نے کہا:یہ بچی رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے اور اُمّ المؤمنین سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے درمیان حائل ہے، کیونکہ سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا اسے دودھ پلا رہی ہوتی تھیں، اس کے بعد اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ زناب یعنی زینب کہاں ہے؟ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ایسے وقت آئے تھے کہ قُریبہ بنت ابی امیہ بھی اپنی بہن کے ہاں آئی ہوئی تھیں، انہوں نے کہا:بچی کو عمار بن یاسر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ لے گئے ہیں۔ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: میں تمہارے ہاں رات کو آؤں گا۔ سیّدہ ام سلمہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کا بیان ہے میں اٹھی اور ایک مٹکے میں کچھ جو تھے، میں نے انہیں نکال کر ان کا مغز نکالا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے کھانا تیار کیا۔ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات بسر کی، جب صبح ہوئی تو آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم اپنے اہل خانہ کے ہاں معزز اور مکرم ہو، اگر چاہو تو میں تمہارے ہاں سات دن راتیں گزاروں گا، اور اگر تمہارے ہاں سات راتیں گزاریں تو اپنی تمام ازواج کے ہاں سات سات راتیں گزاروں گا۔