مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

غزوۂ خندق( احزاب) کے موقع پر اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی کی دعا کو قبول کرنے، کفار کی جماعتوں کو شکست دینے، ان کے تتر بتر ہو جانے اور ان کے ناکام ونامراد واپس لوٹ جانے کا بیان

۔ (۱۰۷۷۰)۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ کَعْبٍ الْقُرَظِیِّ قَالَ: قَالَ فَتًی مِنَّا مِنْ أَہْلِ الْکُوفَۃِ لِحُذَیْفَۃَ بْنِ الْیَمَانِ: یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ! رَأَیْتُمْ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَصَحِبْتُمُوہُ؟ قَالَ: نَعَمْ، یَا ابْنَ أَخِی، قَالَ: فَکَیْفَ کُنْتُمْ تَصْنَعُونَ؟ قَالَ: وَاللّٰہِ! لَقَدْ کُنَّا نَجْہَدُ، قَالَ: وَاللّٰہِ! لَوْ أَدْرَکْنَاہُ مَا تَرَکْنَاہُ یَمْشِی عَلَی الْأَرْضِ وَلَجَعَلْنَاہُ عَلَی أَعْنَاقِنَا، قَالَ: فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: یَا ابْنَ أَخِی! وَاللّٰہِ، لَقَدْ رَأَیْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بِالْخَنْدَقِ، وَصَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ اللَّیْلِ ہَوِیًّا، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیْنَا، فَقَالَ: ((مَنْ رَجُلٌ یَقُومُ فَیَنْظُرَ لَنَا مَا فَعَلَ الْقَوْمُ، یَشْتَرِطُ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَنَّہُ یَرْجِعُ أَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ۔)) فَمَا قَامَ رَجُلٌ، ثُمَّ صَلّٰی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہَوِیًّا مِنَ اللَّیْلِ، ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَیْنَا، فَقَالَ: ((مَنْ رَجُلٌ یَقُومُ، فَیَنْظُرَ لَنَا مَا فَعَلَ الْقَوْمُ، ثُمَّ یَرْجِعُیَشْرِطُ لَہُ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم الرَّجْعَۃَ، أَسْأَلُ اللّٰہَ أَنْ یَکُونَ رَفِیقِی فِی الْجَنَّۃِ۔)) فَمَا قَامَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ مَعَ شِدَّۃِ الْخَوْفِ وَشِدَّۃِالْجُوعِ وَشِدَّۃِ الْبَرْدِ، فَلَمَّا لَمْ یَقُمْ أَحَدٌ دَعَانِی رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمْ یَکُنْ لِی بُدٌّ مِنَ الْقِیَامِ حِینَ دَعَانِی، فَقَالَ: ((یَا حُذَیْفَۃُ! فَاذْہَبْ فَادْخُلْ فِیْ الْقَوْمِ فَانْظُرْ مَا یَفْعَلُونَ، وَلَا تُحْدِثَنَّ شَیْئًاحَتّٰی تَأْتِیَنَا۔)) قَالَ: فَذَہَبْتُ فَدَخَلْتُ فِی الْقَوْمِ، وَالرِّیحُ وَجُنُودُ اللّٰہِ تَفْعَلُ مَا تَفْعَلُ، لَا تَقِرُّ لَہُمْ قِدْرٌ وَلَا نَارٌ وَلَا بِنَائٌ، فَقَامَ أَبُو سُفْیَانَ بْنُ حَرْبٍ فَقَالَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! لِیَنْظُرْ امْرُؤٌ مَنْ جَلِیسُہُ، فَقَالَ حُذَیْفَۃُ: فَأَخَذْتُ بِیَدِ الرَّجُلِ الَّذِی إِلٰی جَنْبِی، فَقُلْتُ: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا فُلَانُ بْنُ فُلَانٍ، ثُمَّ قَالَ أَبُو سُفْیَانَ: یَا مَعْشَرَ قُرَیْشٍ! إِنَّکُمْ وَاللّٰہِ! مَا أَصْبَحْتُمْ بِدَارِ مُقَامٍ، لَقَدْ ہَلَکَ الْکُرَاعُ وَأَخْلَفَتْنَا بَنُو قُرَیْظَۃَ، بَلَغَنَا مِنْہُمْ الَّذِی نَکْرَہُ، وَلَقِینَا مِنْ ہٰذِہِ الرِّیحِ مَا تَرَوْنَ، وَاللّٰہِ! مَا تَطْمَئِنُّ لَنَا قِدْرٌ وَلَا تَقُومُ لَنَا نَارٌ وَلَا یَسْتَمْسِکُ لَنَا بِنَائٌ، فَارْتَحِلُوا فَإِنِّی مُرْتَحِلٌ، ثُمَّ قَامَ إِلٰی جَمَلِہِ وَہُوَ مَعْقُولٌ فَجَلَسَ عَلَیْہِ، ثُمَّ ضَرَبَہُ فَوَثَبَ عَلٰی ثَلَاثٍ فَمَا أَطْلَقَ عِقَالَہُ إِلَّا وَہُوَ قَائِمٌ، وَلَوْلَا عَہْدُ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم لَا تُحْدِثْ شَیْئًا حَتّٰی تَأْتِیَنِی وَلَوْ شِئْتُ لَقَتَلْتُہُ بِسَہْمٍ، قَالَ حُذَیْفَۃُ: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَہُوَ قَائِمٌ یُصَلِّی فِی مِرْطٍ لِبَعْضِ نِسَائِہِ مُرَحَّلٍ، فَلَمَّا رَآنِی أَدْخَلَنِی إِلٰی رَحْلِہِ وَطَرَحَ عَلَیَّ طَرَفَ الْمِرْطِ، ثُمَّ رَکَعَ وَسَجَدَ وَإِنَّہُ لَفِیہِ، فَلَمَّا سَلَّمَ أَخْبَرْتُہُ الْخَبَرَ، وَسَمِعَتْ غَطَفَانُ بِمَا فَعَلَتْ قُرَیْشٌ، وَانْشَمَرُوا إِلٰی بِلَادِہِمْ۔ (مسند احمد: ۲۳۷۲۳)

محمد بن کعب قرظی سے مروی ہے کہ کوفہ کے ہمارے ایک جوان نے سیدنا حذیفہ بن یمان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے کہا: اے ابو عبداللہ! آپ لوگوں نے رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو دیکھا اور ان کی صحبت میں رہے؟ انہوں نے کہا: ہاں بھتیجے، اس نے پوچھا: تمہارا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ کیا رویہ اور برتاؤ ہوتا تھا؟ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم ان دنون سخت مشقت میں تھے، تو اس جوان نے کہا: اللہ کی قسم! اگر ہم آپ کے زمانہ کو پالیتے تو ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو زمین پر نہ چلنے دیتے اور ہم آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو اپنے کندھوں پر اُٹھاتے تو حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے کہا اے بھتیجے میں نے ہم صحابہ کو خندق کے موقعہ پر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ دیکھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے رات کو کافی دیر تک نماز پڑھی، بعدازاں ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کون ہے جو اُٹھ کر جا کر دیکھ کر آئے کہ اب دشمن کیا کر رہا ہے؟ اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بطور شرط (ضمانت) فرمایا کہ وہ واپس آئے تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا، کوئی آدمی بھی کھڑا نہ ہوا۔ پھر اللہ کے رسول ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے کافی دیر تک نماز پڑھی، بعدازاں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کون ہے جو جا کر دشمن کو دیکھ کر آئے کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بطور شرط، ضمانت فرمایا کہ وہ واپس آئے گا۔ میں اللہ سے دعا کروں گا کہ وہ جنت میں میرا ساتھی ہو۔ لیکن دشمن کے خوف کی شدت، بھوک کی شدت اور سردی کی شدت کی وجہ سے کوئی بھی نہ اُٹھا، جب کوئی بھی نہ اُٹھا تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بلایا چوں کہ آپ نے مجھے ہی خاص طور پر بلایا تھا اس لیے میرے لیے اُٹھے بغیر کوئی چارہ نہ تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: حذیفہ! تم جا کر دشمن کے افراد کے اندر گھس جاؤ۔ اور دیکھو کہ وہ کیا کرتے ہیں؟ اور تم ہمارے پاس واپس آنے تک کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنا، حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں میں جا کر ان میں شامل ہو گیا، تیز آندھی اور اللہ کے لشکران کی تباہی مچا رہے تھے، تیز آندھی کی وجہ سے نہ ان کی دیگیں ٹھہرتی تھیں نہ آگ نہ خیمے۔ اسی دوران ابو سفیان بن حرب نے کھڑے ہو کر کہا اے قریش! ہر آدمی دیکھے کہ اس کے ساتھ کون بیٹھا ہوا ہے؟ حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں میں نے جلدی سے اپنے قریب والے آدمی کا ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا تم کون ہو؟ اس نے بتایا کہ میں فلاں بن فلاں ہوں، پھر ابو سفیان نے کہا اے جماعت ِ قریش! اب تم اس مقام پر قرار نہیں کر سکتے۔ سارے گھوڑے ہلاک ہو گئے ہیں۔اور بنو قریظہ نے ہمارے ساتھ وعدہ خلافی کی ہے انہوں نے ہمارے ساتھ جو سلوک کیا وہ ہمیں انتہائی ناگوار گزرا اور تیز آندھی کی صورت حال بھی تم دیکھ رہے ہو۔ اللہ کی قسم! ہماری دیگیں کہیں ٹھہر نہیں رہیں۔ آگ جلتی نہیں اور خیمے بھی نہیں ٹھہر رہے۔ تم کوچ کی تیاری کرو۔ میں تو جا رہا ہوں۔ پھر وہ اپنے اونٹ کی طرف اُٹھ گیا جس کے پاؤں کو رسی سے باندھا ہوا تھا۔ وہ اس پر بیٹھا، اسے مارا اس نے اس کی رسی کو کھولا نہیں تھا، اس لیے اونٹ نے تین بار کود کر اُٹھنے کی کوشس کی، تاہم وہ اُٹھ کھڑا ہوا، اگر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ واپس آنے تک وہاں کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنے کا عہد نہ ہوتا تو میں چاہتا تو اسے ایک ہی تیر سے قتل کر سکتا تھا۔ حذیفہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کہتے ہیں پھر میں رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں واپس آیا، آپ اس وقت اپنی کسی اہلیہ کی منقش اونی چادر اوڑھے نماز پڑھ رہے تھے، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے دیکھا تو مجھے اپنے خیمے میںداخل کر کے چادر کا ایک پہلو میرے اوپر دے دیا۔ آپ چادر ہی میں تھے۔ آپ نے اسی حالت میں رکوع اور سجدہ کیا۔ جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو میں نے ساری بات آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے گوش گزار کی اور جب بنو غطفان نے قریش کی ساری کار گزاری سنی تو انہوں نے اپنے اونٹوں کو اپنے وطن کی طرف موڑ لیا۔