یزید نے ہمیں بتلایا کہ ہمیں محمد بن عمر و نے اپنے والد سے اور انہوں نے اسے اس کے دادا علقمہ بن وقاص سے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں خندق والے دن لوگوں کے نقوش پا پر چلتی ہوئی روانہ ہوئی۔ مجھے اپنے پیچھے زمین پر کسیکے چلنے کی آہٹ سنائی دی۔ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ تھے اور ان کے ہمراہ ان کے برادر زادے سیدنا حارث بن اوس رضی اللہ عنہ ڈھال اُٹھائے ہوئے تھے۔ اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا کہتی ہیں:انہیں دیکھ کر میں زمین پر بیٹھ گئی۔ سعد رضی اللہ عنہ قریب سے گزرے تو میں نے دیکھا کہ انہوں نے لوہے کی ایک زرہ زیب تن کی ہوئی تھی۔ ان کے بازو اور ٹانگیں زرہ سے باہر تھیں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کے ان اعضاء کے متعلق خدشہ ہوا کہ کہیں دشمن ان پر حملہ نہ کر دے۔ سعد رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے طویل القامت تھے۔ وہ قریب سے گزرے تو یہ رجز پڑھتے جا رہے تھے: لَیتَ قَلیلًایُدْرِکُ الہَیْجَائَ جَمَلٌمَا اَحْسَنَ الموتَ اِذَا حَانَ الْاَجَلْ۔ …1 (کاش کہ اونٹ لڑائی میں اپنی قوت وبہادری کے کچھ جوہر دکھا ئے موت کتنی اچھی ہے جس کا وقت آجائے وہ تو آنی ہی ہے۔)اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ان کے گزر جانے کے بعد میں اُٹھ کر ایک باغ میں چلی گئی۔ وہاں کچھ مسلمان موجود تھے، انہی میں عمربن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ وہاں ایک آدمی تھا جس کے سر پر خود یعنی لوہے کی ٹوپی تھی ! شعر کے الفاظ کی تحقیق اور مفہوم کی وضاحت کے لیے دیکھیں مسند احمد محقق۔ ج: ۴۲، ص: ۲۷۔ ساتھ ہی اس نے لوہے کا حفاظتی سامان باندھا ہوا تھا جس سے گردن اور زرہ کے سامنے والے حصہ کو محفوظ کیا ہوا تھا۔مجھے دیکھ کر عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے آپ کیوں آئی ہیں؟ مجھے اپنی زندگی کی قسم! اللہ کی قسم! آپ بڑی دلیر ہیں۔ کیا آپ اس بات سے نہیں ڈریں کہ کوئی پریشانی آسکتیہےیا شدید لڑائی ہو سکتی ہے یا دشمن گرفتار کر سکتا ہے؟ سیّدہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ برابر مجھے سرزنش کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے تمنا کی کا کاش اسی وقت میرے لیے زمین پھٹ جائے اور میں اس میں چلی جاؤں۔ اس مسلح آدمی نے اپنے چہرے سے اوزار ہٹائے تو دیکھا کہ وہ طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ تھے، وہ بولے عمر! بڑے افسوس کی بات ہے۔ آپ نے آج بہت زیادتی کر ڈالی۔ کہاں ہے لڑائی اور اللہ تعالیٰ کے سوا فرار کس کی طرف ہو سکتا ہے؟ سیّدہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں۔ وہ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ ایک مشرک قریشی نے جس کا نام ابن العرقۃ تھا، نشانہ لے کر ان پر تیرچلا دیا۔ اور ساتھ ہی کہا میں ابن عرقہ ہوں، لے میری طرف سے یہ تیر،وہ تیر ان کے بازو کے اکحل نامی رگ پر آکر لگا۔ اور اسے کاٹ ڈالا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اسی وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور کہا یا اللہ تو مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک تو بنو قریظہ کے بارے میں میری آنکھوں کو ٹھندا نہ کر دے۔ سیّدہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بنو قریظہ جاہلیت کے دور میںیعنی قبل از اسلام ان کے حلیف اور ساتھی تھے، سیدہ اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ان کے زخم سے خون بہنے لگا، اللہ تعالیٰ نے مشرکین پر تیز آندھی بھیج دی اور اس نے لڑائی میں اہل ایمان کیکفایت کی، اللہ تعالیٰ بڑا ہی صاحب قوت اور سب پر غالب ہے۔ ابو سفیان اور اس کے ساتھی تہامہ کی طرف چلے گئے اور عیینہ بن بدر اور اس کے ساتھی نجد کی طرف چلے گئے اور بنو قریظہ واپس آکر اپنے قلعوں میں بند ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کی طرف واپس آئے، ہتھیار اُٹھا کر رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد میں چمڑے کا ایک خیمہ نصب کرنے کا حکم صادر فرمایا، اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اسی دوران جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے ان کے دانتوں پر ابھی غبار کے آثار تھے۔ انہوں نے کہا ( اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہتھیار اتار کر رکھ دئیے؟ اللہ کی قسم! فرشتوں نے تو ابھی تک ہتھیار نہیں اتارے۔ آپ بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوں اور ان سے قتال کریں۔ اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہتھیار سجا لئے اور لوگوں کو (بنو قریظہ کی طرف) روانگی کا حکم دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روانہ ہوئے تو آپ بنو غنم کے پاس سے گزرے، وہ لوگ مسجد کے پڑوسی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: ابھی تمہارے پاس سے کون گزر کر گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس سے دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ گزر کر گئے ہیں، دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی داڑھی، دانت اور چہرہ جبریل علیہ السلام سے مشابہت رکھتا تھا۔ اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنو قریظہ کی طرف تشریف لے گئے اور پچیس(۲۵) راتوں تک ان کا محاصرہ کیا۔ جب ان کا محاصرہ سخت اور ان کی مصیبت بھی فزوں ہوئی تو ان سے کہا گیا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ پر راضی ہو جاؤ۔انہوں نے ابو لبابہ بن عبدالمندر رضی اللہ عنہ سے مشاورت کی تو انہوں نے اشارے سے ان کو بتلا دیا کہ وہ تو تمہیں ذبح، قتل، کریں گے بنو قریظہ نے کہا کہ ہم سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ پر راضی ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم انہی کے فیصلہ کو تسلیم کر لو۔ انہوں نے بھی اس پر رضا مندی کا اظہار کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو پیغامبھیج کر بلوایا۔ ان کو لایا گیا تو وہ گدھے پر سوار تھے جس پر کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی کاٹھی تھی۔ انہیں گدھے پر سوار کیا گیا تھا اور ان کی قوم کے لوگ ان کے اردگرد تھے انہوں نے کہا اے بو عمرو ! وہ آپ کے حلیف اور دوست ہیں اور وہ بدعہدی بھی کر چکے ہیں ان کا مطلبیہ تھا کہ ذرا سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں۔ ان کے سارے احوال سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ وہ ان کی باتیں خاموشی سے سنتے آئے اور ان کی کسی بات کا انہیں جواب نہ دیا۔ اور نہ ہی ان کی طرف انہوں نے دیکھا۔ جب وہ بنو قریظہ کے گھروں کے قریب پہنچے تو اپنی قوم کی طرف رخ کر کے کہا اب مجھ پر ایسا موقعہ آیا ہے کہ میں اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروانہ کروں۔ابو سعید ( راوی) کہتے ہیں کہ سعد رضی اللہ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے سیّدیعنی سردار کی طرف اُٹھ کر جاؤ اور پکڑ کر انہیں گدھے سے اتار و،یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہمارا سیّد ( مالک، آقا) تو اللہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: انہیں اتارو، انہیں اتارو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا تم ان کی بابت فیصلہ کرو۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا میں ان کے متعلق یہ فیصلہ دیتا ہوں کہ ان میں سے جن لوگوں نے مسلمانوں سے قتال کیا انہیں قتل کر دیا جائے۔ اور ان کی اولادوں اور عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے اموال بطور مالِ غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کر دئیے جائیں۔ ان کا فیصلہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم نے ان کے متعلق ایسا فیصلہ دیا ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے فیصلہ اور منشا کے عین مطابق ہے۔ اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں پھر سعد رضی اللہ عنہ نے دعا کییا اللہ ! اگر تیرے نبی اور قریش کے درمیان کوئی لڑائی ہونی باقی ہے تو مجھے اس لڑائی میں شرکت کے لیے زندہ رکھ اور اگر تیرے نبی اور قریش کے درمیان کوئی لڑائی ہونے والی نہیں تو مجھے اپنی طرف اُٹھا لے۔ ان کا زخم پھٹ گیا۔ حالانکہ وہ تقریباً ٹھیک ہو چکا تھا اور اس میں سے صرف ایک بالی، کان کے زیور کے بقدر زخمی باقی تھا۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد سعد رضی اللہ عنہ اپنے اس خیمہ کی طرف لوٹ آئے جو ان کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نصب کرایا تھا۔ اُمّ المؤمنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، سیّدنا ابوبکر اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کے ہاں گئے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اپنے کمرے میں ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ دونوں کے رونے کی آوازوں کو الگ الگ شناخت کر رہی تھی۔ ان صحابہ کی آپس میں محبت ایسی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ {رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ} کہ یہ صحابہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے از حد شفیق ومہربان ہیں۔ علقمہ کہتے ہیں میں نے دریافت کیا اماں جان! ایسے مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس طرح کیا کرتے تھے؟ فرمایا ان کی آنکھیں کسی کی وفات پر آنسو نہیں بہاتی تھیں۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غمگین ہوتے تو اپنی داڑھی مبارک کو ہاتھ میں پکڑ لیتے تھے۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:غزوۂ احزاب کے موقع پر سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ایک تیر لگا اور دشمن نے ان کے بازو کی اکحل رگ کاٹ ڈالی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خون روکنے کے لیے اسے آگ سے داغ دیا، لیکن اس سے ان کا بازو پھول گیا، اسے دوبارہ داغا تو وہ دوبارہ پھول گیا۔ اسے تیسری دفعہ داغا تو تب بھی وہ پھول گیا اور اس سے بہت زیادہ خون بہنے لگا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے یہ کیفیت دیکھی تو دعا کی: یا اللہ مجھے اس وقت تک موت نہ آئے، جب تک کہ بنو قریظہ کے بارے میں میری آنکھیں ٹھنڈی نہ ہو جائیں، چنانچہ ان کی رگ کا خون بہنا بند ہو گیا اور اس سے اس وقت تک کوئی قطرۂ خون نہ نکلا، جب تک کہ وہ لوگ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے فیصلہ پر راضی نہ ہو گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف پیغام بھیج کر انہیں بلوایا تو انہوں نے فیصلہ دیا کہ ان کے مردوں کو قتل کر دیا جائے اور بچوں اور عورتوں کو زندہ رہنے دیا جائے تاکہ ان کے ذریعے مسلمان مدد حاصل کریں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان کے بارے میں تم نے اللہ کی پسند کا فیصلہ کیا ہے۔ بنو قریظہ کی تعداد چار سو تھی، جب ان کے قتل سے فارغ ہوئے تو سعد رضی اللہ عنہ کی رگ پھوٹ پڑی اور اس کے نتیجہ میں ان کی موت واقع ہوئی۔
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: غزوۂ خندق کے موقع پر میں اور سیدنا عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ حسان کے قلعوں میں سے اس قلعہ میں تھے، جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات تھیں، وہ مجھے اور میں انہیں اوپر اُٹھاتا اور ہم باہر کے مناظر دیکھتے، جب اس نے مجھے اٹھایا تو میں نے اپنے والد کو پہچان لیا، وہ بنو قریظہ کی طرف جا رہے تھے اور وہ خندق والے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر لڑ رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کون ہے جو بنی قریظہ کی طرف جا کر ان سے قتال کرے؟ جب وہ واپس آئے تو میں نے عرض کیا: ابا جان اللہ کی قسم! جب آپ بنو قریظہ کی طرف جا رہے تھے تو میں آپ کو پہچان چکا تھا۔ انھوں نے کہا: بیٹا! اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے داد اور دعا دیتے ہوئے یوں فرما رہے تھے کہ میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہو ں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ غزوۂ خندق کے دن معاملہ سنگین ہو گیا اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے: کوئی ایسا آدمی ہے، جو بنو قریظہ کی خبر لے کر آئے؟ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ گئے اور ان کی خبریں لے کر آئے، پھر جب معاملہ سنگین ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اسی طرح فرمایا، چنانچہ تین مرتبہ ایسے ہی ہوا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کا ایک خاص آدمی ہوتا ہے اور زبیر میرا خاص آدمی ہے۔