مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

غزوۂ بن قریظہ سے متعلقہ بعض مخصوص روایات کا بیان

۔ (۱۰۷۷۵)۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: لَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم مِنَ الْخَنْدَقِ، وَوَضَعَ السِّلَاحَ وَاغْتَسَلَ، فَأَتَاہُ جِبْرِیلُ عَلَیْہِ السَّلَام وَعَلٰی رَأْسِہِ الْغُبَارُ، قَالَ: قَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ، فَوَاللّٰہِ! مَا وَضَعْتُہَا اخْرُجْ إِلَیْہِمْ، قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((فَأَیْنَ؟)) قَالَ: ہَاہُنَا فَأَشَارَ إِلٰی بَنِی قُرَیْظَۃَ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم إِلَیْہِمْ، قَالَ ہِشَامٌ: فَأَخْبَرَنِی أَبِی: أَنَّہُمْ نَزَلُوا عَلٰی حُکْمِ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَرَدَّ الْحُکْمَ فِیہِمْ إِلٰی سَعْدٍ، قَالَ: فَإِنِّی أَحْکُمُ أَنْ تُقَتَّلَ الْمُقَاتِلَۃُ وَتُسْبَی النِّسَائُ وَالذُّرِّیَّۃُ وَتُقَسَّمَ أَمْوَالُہُمْ، قَالَ ہِشَامٌ: قَالَ أَبِی: فَأُخْبِرْتُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((لَقَدْ حَکَمْتَ فِیہِمْ بِحُکْمِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔))۔ (مسند احمد: ۲۴۷۹۹)

سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب غزوۂ خندق سے واپس آئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہتھیار اتار کر غسل کیا تو جبریل علیہ السلام آپ کے پاس آئے، ان کے سر پر غبار تھا، انہوں نے کہا: کیا آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے ہتھیار اتار دئیے؟ اللہ کی قسم میں نے تو ہتھیار نہیں اتارے ہیں، آپ بنو قریظہکی طرف روانہ ہوں۔ تو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ادھر روانہ ہو گئے۔ عروہ نے بیان کیا کہ بنو قریظہ کے لوگ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے فیصلہ پر راضی ہو گئے اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فیصلے کا اختیار سیدنا سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو دے دیا اور انہوں نے کہا: میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ ان میں سے لڑنے والوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا لیا جائے اور ان کے اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ یہ فیصلہ سن کر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا تھا: ( اے سعد ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ) تو نے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ والا فیصلہ کیا ہے، یعنی ایسا فیصلہ کیا ہے جو اللہ کو بھی پسند اور منظور ہے۔

۔ (۱۰۷۷۶)۔ عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ: کَاَنَّیْ اَنْظُرُ إِلٰی غُبَارِ مَوْکِبِ جِبْرِیْلَ علیہ السلام سَاطِعًا فِیْ سِکَّۃِ بَنِیْ غَنَمٍ حِیْنَ سَارَ إِلٰی قُرَیْظَۃَ۔ (مسند احمد: ۱۳۲۶۲)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ میں گویا کہ اس وقت بھی جبریل علیہ السلام کی سواری کا اُٹھنے والا غبار بنی غنم کی گلی میں آسمان کی طرف اُڑتا دیکھ رہا ہوں، جب وہ بنو قریظہ کی طرف جا رہے تھے۔

۔ (۱۰۷۷۷)۔ عَنْ عَائِشَۃَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ قَالَتْ: لَمْ یَقْتُلْ مِنْ نِسَائِہِمْ إِلَّا امْرَأَۃً وَاحِدَۃً، قَالَتْ: وَاللّٰہِ! إِنَّہَا لَعِنْدِی تَحَدَّثُ مَعِی تَضْحَکُ ظَہْرًا وَبَطْنًا، وَرَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم یَقْتُلُ رِجَالَہُمْ بِالسُّوقِ إِذْ ہَتَفَ ہَاتِفٌ بِاسْمِہَا: أَیْنَ فُلَانَۃُ؟ قَالَتْ: أَنَا وَاللّٰہِ! قَالَتْ: قُلْتُ: وَیْلَکِ وَمَا لَکِ؟ قَالَتْ: أُقْتَلُ، قَالَتْ: قُلْتُ: وَلِمَ؟ قَالَتْ: حَدَثًا أَحْدَثْتُہُ، قَالَتْ: فَانْطُلِقَ بِہَا فَضُرِبَتْ عُنُقُہَا، وَکَانَتْ عَائِشَۃُ تَقُولُ: وَاللّٰہِ! مَا أَنْسٰی عَجَبِی مِنْ طِیبِ نَفْسِہَا وَکَثْرَۃِ ضِحْکِہَا، وَقَدْ عَرَفَتْ أَنَّہَا تُقْتَلُ۔ (مسند احمد: ۲۶۸۹۶)

سیّدہ عائشہ صدیقہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا سے مروی ہے کہ بنو قریظہ کی عورتوں میں سے صرف ایک عورت کو قتل کیا گیا، اللہ کی قسم وہ میرے پاس بیٹھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی، جبکہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بازار میں ان کے مردوں کو قتل کر رہے تھے، اچانک پکارنے والے نے اس کا نام لے کر پکارا تو وہ کہنے لگی: اللہ کی قسم! یہ تو میرے نام کی پکار ہے۔ میں نے کہا: تیرا بھلا ہو، تجھے کیا ہوا؟ وہ بولی: مجھے قتل کیا جائے گا۔ میں نے پوچھا: وہ کیوں؟ اس نے کہا: میں نے ایک جرم کیا تھا۔ اُمّ المؤمنین فرماتی ہیں: پس اسے لے جا کر اس کی گردن اُڑا دی گئی۔ سیّدہ کہا کرتی تھیں کہ اللہ کی قسم! مجھے اس کی خوش طبعی اور کثرت سے ہنسنا نہیں بھولتا، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ اسے قتل کیا جانے والا ہے۔