معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حاضر تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب لوگوں سے بیعت لے رہے تھے تو یہ اپنے ہاتھوں سے درخت کی شاخوں میں سے ایک شاخ کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک سے اوپر کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ وہ میدان سے فرار نہیں ہوں گے، اس روز صحابہ کی تعداد ایک ہزار چارسو تھی۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حدیبیہ کے دن ہماری تعداد چودہ سو تھی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ تھاما ہوا تھا، کیکریا ببول کے درخت کے نیچے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ ہم میدان سے فرار نہ ہوں گے، ہم نے موت پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت نہیں کی تھی۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ تھامے ہوئے تھے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم سے بیعت لے رہے تھے، جب ہم بیعت سے فارغ ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تم لوگوں سے بیعت لے چکا اور اللہ کا دین اور اس کے وعدے تمہیں دے چکا۔ ابو زبیر کہتے ہیں: میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ اس دن آپ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قسم کی بیعت کی تھی؟ کیا موت کی بیعت تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں، ہم نے آپ سے اس بات کی بیعت کی تھی کہ ہم فرار نہیں ہوں گے۔ میں نے کہا: درخت والے دن کے متعلق بھی بتلائیں،انہوں نے کہا:اس د ن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا، میں نے دریافت کیا: اس دن آپ لوگوں کی تعداد کتنی تھی؟ انھوں نے کہا: ہم چودہ سو تھے، جد بن قیس کے سوا باقی سب لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی، وہ اونٹ کے پیٹ کے پیچھے چھپ گیا تھا، اس دن ہم نے ستر اونٹ نحر کئے تھے، ہر سات آدمیوں کی طرف سے ایک اونٹ۔
ابو زبیر نے بیان کیا کہ انہوں نے سنا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا تھا کہ آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذوالحلیفہ کے مقام پر بیعت لی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں، البتہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں نماز ادا کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے مقام پر درخت کے قریب بیعت ضرور لی تھی۔ ابو زبیر نے ہمیں خبر دی کہ انہوں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے کنوئیں پر دعا کی تھی۔
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ ، یہ صحابی ان لوگوں میں سے ہیں جن کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی تھی: {وَلَا عَلَی الَّذِینَ إِذَا مَا أَتَوْکَ لِتَحْمِلَہُمْ} … اور نہ ان لوگوں پر کہ جب وہ آپ کے پاس آئے، تاکہ آپ ان کو سوار کریں۔ (سورۂ توبہ: ۹۲)، یہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ ( حدیبیہ کے دن) صحابہ کرام ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کر رہے تھے اور میں درخت کی ایک شاخ پکڑے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ کئے ہوئے تھا، صحابہ نے کہا: ہم موت پر آپ کی بیعت کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم اس بات کی بیعت کرو کہ میدان سے فرار اختیار نہیں کرو گے۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے (حدیبیہ میں دوسرے لوگوں کے ساتھ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی تھی، لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ابن اکوع! کیا تم بیعت نہیں کرو گے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تو آپ کی بیعت کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر کرو۔ میں نے عرض کی: جی میںکس چیز پر بیعت کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: موت پر۔
۔( دوسری سند) یزید بن ابی عبید سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا:آپ لوگوں نے حدیبیہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس بات پر بیعت کی تھی؟ انہوں نے کہا: موت پر۔
سعید بن مسیب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں، ان کے باپ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے درخت کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت ِ رضوان کی تھی۔ انہوں نے کہا: جب ہم اگلے سال حج کے ارادے سے گئے تو اس درخت کی جگہ پہنچاننا ہمارے لیے مشکل ہو گیا۔( یعنییہ معلوم کرنا مشکل ہو گیا کہ ہم نے کس جگہ اور کس درخت کے نیچے بیعت کی تھی؟) اگر وہ جگہ تمہارے لیے واضح ہو گئی تو تم ہی پھر اس کے بارے میں بہتر جانتے ہو گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی کا بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں تو اگلے سال بھی اس درخت اور اس کی جگہ کا یقینی علم نہ ہو سکا۔ اگر کسی بعد والے شخص کو اس کا علم ہوا ہے تو پھر اس کا علم تو ہم سے زیادہ ہوا نا۔ مطلب یہ ہے کہ اس کا یقینی علم کسی کو نہیں۔ (عبداللہ رفیق)
۔(دوسری سند) طارق بن عبدالرحمن سے مروی ہے کہ سعید بن مسیب کے سامنے بیعت والے درخت کا ذکر کیا گیا،انہوں نے کہا: مجھے میرے والد نے بیان کیا کہ اس سال ( یعنی حدیبیہ والے سال) وہ بھی صحابہ کے ساتھ تھے، لیکن جب وہ صحابہ کے ساتھ اگلے سال گئے تو وہ اس درخت کو بھول چکے تھے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حدیبیہ کے دن ہماری تعداد چودہ سو تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا: تم آج روئے زمین کے تمام لوگوں سے افضل ہو۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا تھا، ان کے جانے کے بعد بیعتِ رضوان ہوئی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بیعت کے دوران اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارا اور فرمایا: یہ عثمان کی طرف سے ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حدیبیہ سے واپس ہوئے تو ہم نے سقیا کے مقام پر نزول کیا۔(وہاں پانی کی قلت تھی) سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: کون ہے جو ہمیں پانی پلائے گا؟ پس میں چند انصاری نوجوانوں کو لے کر روانہ ہوا، یہاں تک کہ ہم مقامِ اثایہ کے پانی پر پہنچے، جو وہاں سے تقریباً تئیس( ۲۳) میل دور تھا اور ہم اپنے مشکیزے بھر لائے، رات کا اندھیرا چھا چکا تھا، ہم نے دیکھا کہ ایک آدمی کو اس کا اونٹ پانی کے حوض کی طرف کھینچ رہا تھا، اس نے بھی کہاکہ پی لے۔ ہم نے دیکھا تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے، چنانچہ اس اونٹ نے پانی پیا، پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی کی مہار پکڑ کر اسے بٹھا دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر عشاء کی نماز ادا کی، سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں نماز ادا کی، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیرہ رکعت (رات کا قیام ) کیا تھا۔