ایاس سے مروی ہے، وہ کہتے ہیںمیرے والد سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے مجھے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں حدیبیہ کے مقام پر پہنچے، ہم چودہ سو کی تعداد میں تھے، وہاں پچاس بکریاں تھیں اور وہاں کا پانی ان کے لیے بھی نا کافی تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کنوئیں کے کنارے بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یا تو دعا کییا اس میں اپنا لعاب مبارک ڈالا، پس کنواں تو جوش مارنے لگا۔ ہم نے پانی خود پیا اور جانوروں کو بھی پلایا، بعدازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کے نیچے سب لوگوں کو بیعت کے لیے پکارا، سب سے پہلے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیعت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں سے بیعت لیتے رہے، یہاں تک کہ جب آدھے لوگ بیعت کر چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سلمہ! تم بیعت کرو۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں تو سب سے پہلے بیعت کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دوبارہ بیعت کرو۔ چنانچہ انہوں نے دوبارہ بیعت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بغیر اسلحہ کے یعنی خالی ہاتھ دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ڈھال عطا فرمائی اور پھر لوگوں سے بیعت لیتے رہے۔ یہاں تک کہ جب آخری لوگ بیعت کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: ابن اکوع! کیا تم میری بیعت نہیں کر و گے؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تو سب سے پہلے بھی اور لوگوں کے وسط میں بھی بیعت کر چکا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پھر بیعت کرو۔ چنانچہ میں نے سہ بارہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں جو ڈھال دی ہے، وہ کہاں ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے میرا چچا عامر بغیر اسلحہ کے یعنی خالی ہاتھ ملے تو میں نے وہ ڈھال ان کو دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم تو اس آدمی کی مانند ہو، جس نے کہا تھا یا اللہ مجھے ایسے دوست مہیا کر جو مجھے اپنے آپ سے بھی زیادہ محبوب ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرما کر مسکرا دئیے، اس کے بعد مشرکین ہمارے ساتھ صلح کی کوششیں کرتے رہے، یہاں تک کہ ہم میں سے بعض ایک دوسرے کی طرف بھی گئے۔ میں اس وقت سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ کا خدمت گزار تھا، میں ان کے گھوڑے کو سہلاتا، اسے پانی پلاتا اور میں ان کے کھانے میں سے کھانا کھاتا اور میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کرنے کی وجہ سے اپنے اہل وعیال اور اموال کو چھوڑ کر ان سے لا تعلق ہو چکا تھا۔ جب ہماری اہل مکہ سے صلح ہوئی اور ہم ایک دوسرے سے ملنے جلنے لگے، ایک درخت کے نیچے جا کر میں نے اس کے کانٹے صاف کئے اور اس کے سائے میں لیٹ گیا،مکہ کے باشندوں میں سے چار مشرک میرے پاس آگئے اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں نازیبا الفاظ کہنے لگے،میں ان کو چھوڑ کر ایک اور درخت کے نیچے چلا گیا، انہوں نے اپنے ہتھیار درخت کے ساتھ لٹکائے اور لیٹ گئے، وہ ابھی اسی حال میں تھے کہ وادی کے پست حصے کی جانب سے ایک پکارنے والے نے پکارا: اے مہاجرین! ابن زُنیم رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا گیا ہے۔ میں اپنی تلوار سونت کر ان چاروں کی طرف دوڑا، میں نے ان کے ہتھیار اپنے قبضہ میں لے لئے اور میں نے ان سے کہا: اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزت سے نوازا ہے! اگر تم میں سے کسی نے اپنا سر اوپر کو اُٹھایا تو میں اسے قتل کر دوں گا، میں ان کو ہانک کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے آیا اور میرے چچا عامر نے ابن مکرز کو گرفتار کر لیا، وہ اسے اپنے گھوڑے پر کر رہا تھا، ان کے ساتھ مزید ستر مشرکین تھے، یہاں تک کہ ہم سب آکر رک گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کی طرف دیکھ کر فرمایا: ان کو چھوڑ دو، گناہ کا آغاز انہی کے ذمہ ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے در گزر فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی: {وَہُوَ الَّذِی کَفَّ أَیْدِیَہُمْ عَنْکُمْ وَأَیْدِیَکُمْ عَنْہُمْ}… اور وہ ذات ہے جس نے ان کے ہاتھوں کوتم سے اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روکا۔ (سورۂ فتح: ۲۴) اس کے بعد ہم مدینہ منورہ کی طرف واپس چل دئیے، ہم واپسی پر لحی جمل نامی ایک مقام پر ٹھہرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہاں اس آدمی کے حق میں مغفرت کی دعا کی جو اس رات پہاڑ پر چڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کا پہرہ دے، پس میں اس رات دو یا تین مرتبہ پہاڑ پر چڑھا، پھر ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا اونٹ دوسرے اونٹوں میں پہنچانے کے لیے اپنے غلام رباح رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بھیجا، میں بھی سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر سوار اسے دوڑاتا ہوا، رباح کے ہمراہ تھا، صبح ہوئی تو ہم نے دیکھا کہ عبدالرحمن بن عیینہ فرازی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اونٹوں کو لوٹ کر ان سب کو لے گیا اور اونٹوں کے چرواہے کو قتل کر گیا ہے۔