مسنداحمد

Musnad Ahmad

سنہ (۱) ہجری کے اہم واقعات

اس امر کا بیان کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خیبر میں کس طرح داخل ہوئے؟ اور یہ کہ خیبر کو حملہ کر کے فتح کیا گیا تھا، نیز بنو قریظہ اور بنو نضیر کے رئیس حیی بن اخطب کی دختر سیدہ صفیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا کے ساتھ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی شادی کا بیان

۔ (۱۰۸۱۱)۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم غَزَا خَیْبَرَ، فَصَلَّیْنَا عِنْدَہَا صَلَاۃَ الْغَدَاۃِ بِغَلَسٍ، فَرَکِبَ رَسُولُ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَرَکِبَ أَبُو طَلْحَۃَ، وَأَنَا رَدِیفُ أَبِی طَلْحَۃَ، فَأَجْرٰی نَبِیُّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فِی زُقَاقِ خَیْبَرَ،وَإِنَّ رُکْبَتَیَّ لَتَمَسُّ فَخِذَیْ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم وَانْحَسَرَ الْإِزَارُ عَنْ فَخِذَیْ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَإِنِّی لَأَرٰی بَیَاضَ فَخِذَیْ نَبِیِّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْیَۃَ، قَالَ: ((اللّٰہُ أَکْبَرُ خَرِبَتْ خَیْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَۃِ قَوْمٍ فَسَائَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِینَ۔)) قَالَہَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: وَقَدْ خَرَجَ الْقَوْمُ إِلٰی أَعْمَالِہِمْ، فَقَالُوا: مُحَمَّدٌ، قَالَ عَبْدُ الْعَزِیزِ: وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: الْخُمُسُ، قَالَ: فَأَصَبْنَاہَا عَنْوَۃً، فَجُمِعَ السَّبْیُ، قَالَ: فَجَائَ دِحْیَۃُ، فَقَالَ: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ أَعْطِنِی جَارِیَۃً مِنَ السَّبْیِ؟ قَالَ: ((اذْہَبْ فَخُذْ جَارِیَۃً۔)) قَالَ: فَأَخَذَ صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ، فَجَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم فَقَالَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! أَعْطَیْتَ دِحْیَۃَ صَفِیَّۃَ بِنْتَ حُیَیٍّ سَیِّدَۃَ قُرَیْظَۃَ وَالنَّضِیرِ وَاللّٰہِ! مَا تَصْلُحُ إِلَّا لَکَ، فَقَالَ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ((ادْعُوہُ بِہَا۔)) فَجَائَ بِہَا فَلَمَّا نَظَرَ إِلَیْہَا النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((خُذْ جَارِیَۃً مِنَ السَّبْیِ غَیْرَہَا۔)) ثُمَّ إِنَّ نَبِیَّ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم أَعْتَقَہَا وَتَزَوَّجَہَا، فَقَالَ لَہُ ثَابِتٌ: یَا أَبَا حَمْزَۃَ مَا أَصْدَقَہَا؟ قَالَ: نَفْسَہَا أَعْتَقَہَا وَتَزَوَّجَہَا، حَتّٰی إِذَا کَانَ بِالطَّرِیقِ جَہَّزَتْہَا أُمُّ سُلَیْمٍ فَأَہْدَتْہَا لَہُ مِنَ اللَّیْلِ، وَأَصْبَحَ النَّبِیُّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم عَرُوسًا، فَقَالَ: ((مَنْ کَانَ عِنْدَہُ شَیْئٌ فَلْیَجِئْ بِہِ۔)) وَبَسَطَ نِطَعًا، فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِالْأَقِطِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِالتَّمْرِ، وَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِیئُ بِالسَّمْنِ، قَالَ: وَأَحْسِبُہُ قَدْ ذَکَرَ السَّوِیقَ، قَالَ: فَحَاسُوا حَیْسًا وَکَانَتْ وَلِیمَۃَ رَسُولِ اللّٰہِ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ۔ (مسند احمد: ۱۲۰۱۵)

سیدنا انس ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم خیبر پر حملہ آور ہوئے تو ہم نے خیبر کے قریب جا کر منہ اندھیرے نمازِ فجر ادا کی، اس کے بعد رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سواری پر سوار ہوئے، میں اور سیدنا ابو طلحہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ایک سواری پر سوار ہو گئے، نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ہمیں ساتھ لے کر خیبر کی گلیوں میں چلنے لگے، چلتے وقت میرا گھٹنا نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی ران کو چھو رہا تھا اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی چادر آپ کی رانوں سے ذرا ہٹی ہوئی تھی اور میں آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی رانوں کی سفیدی کو دیکھ رہا تھا۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم جب خیبر کی بستی میں داخل ہوئے تو فرمایا: اللہ اکبر، خیبر ویران ہو گیا۔ ہم جب کسی قوم کے صحن میں اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح ان کے حق میں بری ہوتی ہے۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ دہرائے، یہودی لوگ اپنے کاموں کے سلسلہ میں باہر نکلے تو یہ منظر دیکھ کر کہنے لگے یہ تو محمد ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اور ان کا لشکر ہے، پس ہم نے خیبر کو حملہ کر کے فتح کر لیا، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے قیدیوں کو ایک جگہ جمع کیا۔ تو سیدنا دحیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ ، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: اللہ کے نبی! مجھے قیدیوں میں سے ایک لونڈی عنایت فرما دیں۔ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: تم جا کر ایک لونڈی لے لو۔ انہوں نے صفیہ بنت حیی کو اپنے قبضے میں لے لیا، لیکن ایک آدمی نے آکر رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا: آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے بنو قریظہ اور بنو نضیر کے رئیس کی دختر دحیہ کو دے دی ہے، اللہ کی قسم! وہ تو صرف آپ ہی کے لائق ہے۔ آپ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: دحیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ کو بلاؤ اور کہو کہ وہ اسے ساتھ لے کر آئے۔ سیدنا دحیہ ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ صفیہ کو ساتھ لیے حاضر ہوئے، جب آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفیہ کو دیکھا تو فرمایا: دحیہ! تم قیدیوں میں سے کوئی اور لے لو۔ پھر نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صفیہ کو آزاد کر کے اس سے نکاح کر لیا، جب راستے ہی میں تھے کہ سیّدہ ام سلیم ‌رضی ‌اللہ ‌عنہا نے ان کو تیار کیا اور رات کو رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے لیے پیش کیا، صبح ہوئی تو نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی شادی ہو چکی تھی، آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے صحابہ سے فرمایا: جس آدمی کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ لے آئے۔ اور آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے چمڑے کا دستر خوان بچھا دیا، کوئی پنیر لے آیا، کوئی کھجور لایا اور کوئی گھی لے آیااور کوئی ستو لے کر حاضر ہو گیا۔ صحابہ نے ان سب چیزوں کو ملا کر کھانا تیار کیا،یہی کھانا رسول اللہ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کا ولیمہ تھا۔