سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مرحب یہودی نے خیبر کے دن میرے چچا ( سیدنا عامر ) کو قابلہ کا چیلنج دیتے ہوئے کہا: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّيْ مَرْحَبٗ شَاکِيْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ اِذَا الْحُرُوْبُ اَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار بند، سورما اور منجھا ہوا ہوں۔ جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں اس کے مقابلے کے لیے میرے چچا عامر رضی اللہ عنہ نکلے اور کہا: قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ اَنِّيْ عَامِرٗ شَاکِيْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرٗ خیبر اچھی طرح جانتا ہے کہ میں عامر ہوں۔ مکمل طور پر تیار ہوں، دلیر ہوں، جان کی بازی لگانے والا ہوں دونوں نے ایک دوسرے پر ایک ایک وار کیا، مرحب کی تلوار عامر کی ڈھال پر جا لگی اور عامر رضی اللہ عنہ نیچے جھک کر اس پر حملہ آور ہوا، لیکن ان کی اپنی ڈھال اپنی پنڈلی کی بڑی رگ پر جا لگی، جس سے رگ کٹ گئی اور اسی کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا۔ سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میری بعض لوگوں سے ملاقات ہوئی تو وہ کہنے لگے کہ عامر رضی اللہ عنہ کے اعمال ضائع ہو گئے، اس نے خود کشی کی ہے، یہ سن کر میں روتا ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! عامر کے اعمال تو ضائع ہو گئے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کس نے کہا؟ میں نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض صحابہ نے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے بھییہ کہا غلط کہا، بلکہ اس کے لیے تو دو گنا اجر ہے۔ ( سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ) عامر رضی اللہ عنہ جب خیبر کی طرف روانہ ہوئے تو وہ اصحابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مل کر رجز پڑھتے جاتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ساتھ تھے اور عامر رضی اللہ عنہ حدی خوانی کرتے ہوئے یوں کہہ رہے تھے۔ تَالَلَّہِ! لَوْلَا اللّٰہُ مَا اہْتَدَیْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّیْنَا إِنَّ الَّذِینَ قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَۃً أَبَیْنَا وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِکَ مَا اسْتَغْنَیْنَا فَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَیْنَا وَأَنْزِلَنْ سَکِینَۃً عَلَیْنَا اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم نہ صدقے کرتے اور نہ نمازیں پڑھتے، بے شک جن لوگوں نے ہم پر زیادتی کی جب انہوں نے سرکشی کا ارادہ کیا تو ہم نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور ہم تیرے فضل سے مستغنی نہیں۔ اگر ہماری دشمن سے مڈ بھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھنا، اور ہم پر سکون نازل فرمانا۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ اس نے کہ: اللہ کے رسول! میں عامر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارا رب تمہاری مغفرت فرمائے۔ سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایسے مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس کسی کو مخصوص طور پر دعائے مغفرت دی، وہ ضرور ہی شہید ہوا۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات سنی تو عرض کیا: اللہ کے رسول ! کاش آپ ہمیں عامر سے مزید متمتع ہونے دیتے،یہ آگے بڑھے اور شہادت سے ہم کنار ہو گئے، سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، پھر اللہ کی نبی نے مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا اور فرمایا: آج میں یہ جھنڈا ایک ایسے شخص کو دوں گا، جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، میں انہیں ساتھ لے کر آیا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھ میں لعاب مبارک لگایا تو وہ اسی وقت ٹھیک ہو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو جھنڈا تھمایا،مرحبیہودی تلوار لہراتا ہوا اور یہ رجز پڑھتا ہوا سامنے آیا۔ فَقَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّیْ مَرْحَبٗ شَاکِیْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں ہتھیار بندہوں، سورماہوں اور منجھا ہوا ہوں جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں اس کے جواب میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: أَنَا الَّذِیْ سَمَّتْنِیْ أُمِّیْ حَیْدَرَہ کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ الْمَنْظَرَہ أُوْفِیْھِمْ بِالصَّاعِ کَیْلَ السَّنْدَرَہ میں وہ ہوں جس کا نام میری ماں نے حیدر رکھا جنگلوں کا شیر ہوں، ہولناک منظر والا ہوں میں انہیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کر دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے تلوار سے مرحب کا سر پھوڑ ڈالا اور انہی کے ہاتھوں خیبر فتح ہوا۔
سیدنا بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب خیبر کے قلعہ کے قریب نزول فرما ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں جھنڈا دیا، کچھ مسلمان بھی ان کے ہمراہ گئے، ان کی خیبر والوں کے ساتھ لڑائی ہوئی، لیکن کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں کل یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ جب دوسرا دن ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بلوایا، ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھ میں لعاب مبارک لگایا اور انہیں جھنڈا تھما دیا، لوگ بھی ان کے ساتھ بھی گئے اور اہل خیبر سے ان کی لڑائی ہوئی، مرحب یہودی ان کے آگے آگے یہ رجز پڑھ رہا تھا: فَقَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّیْ مَرْحَبٗ شَاکِیْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ أَطْعَنُ أَحْیَانًا وَحِینًا أَضْرِبُ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں ہتھیار بندہوں، سورماہوں اور منجھا ہوا ہوں میں کبھی نیزہ مارتا ہوں تو کبھی ضرب لگاتا ہوں جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور اس نے ایک دوسرے پر ایک ایک وار کیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کی کھوپڑی پر تلوار چلائییہاں تک کہ تلوار اس کے سر کو چیر کر اس کی داڑھوں تک چلی گئی اور سارے اہل ِ لشکر نے اس ضرب کی شدت کی آواز سنی، ابھی سارے لوگ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ تک پہنچے ہی نہیں تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فتح عطا کر دی تھی۔
مولائے رسول سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں:جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنا جھنڈا دے کر روانہ فرمایا تو ہم بھی ان کے ہمراہ گئے، جب وہ قلعہ کے قریب پہنچے تو قلعہ کے لوگ مقابلہ کے لیے باہر آئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا، ایکیہودی نے بھی ان پر حملہ کیا اور ہوا یہ کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے ڈھال گر گئی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے قلعہ کے پاس پڑے ہوئے ایک دروازہ کو پکڑ کر اسی کو اپنے لیے ڈھال بنا لیا، فتح ہونے تک آپ یہود سے مقابلہ کرتے رہے اور لڑائی سے فارغ ہونے کے بعد اسے اپنے ہاتھ سے پھینکا، وہ اس قدر ثقیل تھا کہ ہم آٹھ آدمیوں نے اسے الٹنا پلٹنا چاہا تو اسے الٹ بھی نہ سکے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: جب میں نے مرحب کو قتل کیا تو میں اس کا سر لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آیا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مرحب یہودی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر یہ رجز پڑھتا ہوا قلعہ سے باہر آیا: فَقَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّیْ مَرْحَبٗ شَاکِیْ السَّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبٗ أَطْعَنُ أَحْیَانًا وَحِینًا أَضْرِبُ إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَھَّبٗ کَانَ حِمَایَ لَحِمًی لَا یُقْرَبُ خیبر بخوبی جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار بندہوں، سورماہوں اور منجھا ہوا ہوں۔ میں کبھی نیزہ مارتا ہوں تو کبھی ضرب لگاتا ہوں۔ جب لڑائیاں بھڑک اٹھتی ہیں تو میں متوجہ ہوتا ہوں۔ میرا دفاع ایسے لوگوں کے لیے ہے جو میرے قریب بھی نہیں پھٹکتے اور وہ چیلنج دیتا آرہا تھا کہ ہے کوئی میرا مدمقابل جو سامنے آئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کے مقابلے میں کون جائے گا؟ سیدنا محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں اس کے مقابلہ میں جا نے کے لیے تیار ہوں۔ اللہ کی قسم! میں ان سے بدلہ لینے کا خواہش مند ہوں، کیوں کہ انہوں نے کل میرے بھائی کو قتل کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو پھر تم ہی اُٹھو، یا اللہ ! اُس کے مقابلے میں اس کی مدد فرما۔ جب وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوئے تو گونددار ایک بہت پرانا اور بڑا درخت ان کے درمیان حائل ہو گیا، ان میں سے ہر ایک دوسرے کے وارسے بچنے کے لیے درخت کی اوٹ میں ہو جاتا، جب ان میں سے ایک درخت کی اوٹ میں ہوتا تو دوسرا اپنی تلوار چلا کر اس درخت (کی شاخوں کو) کاٹ دیتا،یہاں تک کہ وہ ایک دوسرے کے سامنے آگئے اور وہ درخت ان دونوں کے درمیانیوں ہو گیا جیسے کوئی آدمی کھڑا ہو اور اس درخت پر کوئی شاخ نہ تھی۔ پھر مرحب، محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ پر حملہ آور ہوا اور اس نے تلوار چلائی، سیدنا محمد رضی اللہ عنہ نے ڈھال سے وار کو روکا اور مرحب کی تلوار ان کی ڈھال پر جا لگی اور اس میں دھنس کر رہ گئی پھر محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے اس پر وار کر کے اسے قتل کر دیا۔
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم خیبر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے کہ ایک آدمی نے چربی سے بھرا مشکیزہ ہماری طرف پھینکا، میں اسے اُٹھانے لگا، لیکن جب میری نگاہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑی تو میں شرما گیا۔