سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوۂ خیبر میں فتح سے ہم کنار ہوئے تو سیدنا حجاج بن علاط رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے اہل وعیال مکہ مکرمہ میں ہیں اور وہاں میرا کافی سارا مال بھی ہے، میں اسے حاصل کرنے کے لیے وہاں جانا چاہتا ہوں، تو کیا مجھے اجازت ہے کہ وہاں جا کر محض کفار کو خوش کرنے کے لیے کچھ باتیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف کر لوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ایسا کرنے کی اجازت دے دی کہ وہ جو کہنا چاہیں کہہ لیں، وہ مکہ مکرمہ جا کر اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس سے کہا: تمہارے پاس جس قدر بھی دولت ہے، سب ایک جگہ جمع کرو، میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اصحاب سے لوٹے ہوئے اموالِ غنیمت خریدنا چاہتا ہوں، وہ لوگ شکست کھا گئے اور ان کے اموال لوٹ لئے گئے ہیں، اس کییہ خبر مکہ مکرمہ میں پھیل گئی، اس خبر سے وہاں کے مسلمان شرمندہ ہو گئے اور مشرکین خوشی اور شادمانی کا اظہار کرنے لگے، جب یہ خبر عباس تک بھی پہنچ گئی تو وہ یہ سن کر گر ہی گئے اور ان میں اُٹھنے کی سکت ہی نہ رہی، مقسم نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے اپنے ایک بیٹے قثم کو پکڑا، خود لیٹ گئے اور اسے اپنے سینے پر بیٹھا لیا اور یوں کہتے جاتے: اے قثم، تو میری طرف آ، اے قثم تو میری طرف آ، تو محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے مشابہ ہے، ان کی طرح تیری ناک بھی ذرا بلند ہے، وہ اس اللہ کے نبی ہیں جس نے مخلوقات پر بے حدو حساب انعامات کئے ہیں، جسے اللہ خاک آلود اور رسوا کرے وہی ذلیل ورسوا ہو کر رہے گا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر انہوں نے ایک غلام، حجاج بن علاط رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور پوچھا کہ تم کیا خبر لائے ہو اور کیا باتیں کر رہے ہو؟ تم جو کچھ بیان کر رہے ہو، اللہ تعالیٰ نے تو ان کے ساتھ اس سے بہت بہتر بات کا وعدہ کیا تھا، سیدنا حجاج بن علاط رضی اللہ عنہ نے ان کے قاصد غلام سے کہا: تم ابو الفضل رضی اللہ عنہ کو میرا سلام پہنچا دو اور ان سے کہو کہ وہ اپنے کسی گھر میں مجھ سے علیحدگی میں مل لیں،میرے پاس ان کے لیے خوشخبری ہے، ان کا غلام واپس آیا، وہ گھر کے دروازے پر پہنچا تو اس نے کہا: اے ابو الفضل! تمہیں خوشخبری مبارک ہو، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ یہ سنتے ہی خوشی سے اچھل کر اُٹھے اور اس کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا، اس غلام نے ان کو حجاج بن علاط کی بات سے مطلع کیا، عباس نے اسے آزاد کر دیا۔ پھر سیدنا حجاج رضی اللہ عنہ آئے اور ان کو بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خیبر کو فتح کر چکے ہیں اور یہود کے اموال کو بطور غنیمت حاصل کر چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وہاں سے حاصل شدہ مالِ غنیمت ہر حصہ دار میں تقسیم کیاجا چکا ہے اور اللہ کے رسول نے حیی کی دختر صفیہ کو اپنے لئے منتخب کر لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اختیار دیا تھا کہ اگر وہ چاہتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو آزاد کر دیتے ہیں اور اس سے شادی کر لیتے ہیں،یا اگر وہ چاہتی ہے تو اپنے اہلِ خانہ کے ہاں چلی جائے۔ اس نے اس بات کو اختیار کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے آزاد کر کے اپنی زوجیت میں لے لیں، میں تو یہاں پر چھوڑا ہوا اپنا مال لینے آیا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ اسے جمع کر کے لے جاؤںاور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس بات کی اجازت لے لی تھی اور آپ نے مجھے اجازت مرحمت فرما دی تھی کہ میں محض کفار کو خوش کرنے کے لیے اس سلسلہ میں جو چاہوں کہہ سکتا ہوں۔ تم میری ان باتوں کو تین دن تک پوشیدہ رکھنا، اس کے بعد جیسے مناسب ہو ان کا ذکر لوگوں سے کر دینا۔ چنانچہ سیدنا حجاج رضی اللہ عنہ کی بیوی کے پاس جس قدر زیورات اور سامان تھا، اس نے وہ سب جمع کر دیا اور اسے اس کے سپرد کر دیا، پھر وہ یہ سامان لے کر وہاں سے چل پڑے، تین دن بعد عباس، حجاج کی اہلیہ کے پاس آئے اور پوچھا تمہارا شوہر کیا کر گیا؟ اس نے بتلایا کہ وہ تو فلاں دن چلا گیا تھا اور بولی کہ ابو الفضل! اللہ آپ کو رسوا نہ کرے، آپ تک جو باتیں پہنچی ہیں وہ ہم پر انتہائی شاق گزری ہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں، اللہ مجھے کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا اور اللہ کا شکر ہے کہ وہی ہوا ہے جو ہمیں پسند ہے۔ اللہ نے اپنے رسول کے ہاتھوں خیبر فتح کرادیا ہے، وہاں سے حاصل ہونے والے مالِ غنیمت کو اللہ کے حکم کے مطابق حصوں میں تقسیم کر کے بانٹ دیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صفیہ بنت حیی کو اپنے لئے منتخب کیا ہے اور پھر اس سے فرمایا: تم اگر اپنے شوہر کے پاس جانا چاہو تو جا سکتی ہو۔ وہ کہنے لگی: اللہ کی قسم! میرا خیال ہے کہ تمہاری ساری باتیں درست ہیں۔ عباس نے مزید کہا: میں سچ کہہ رہا ہوں، بات وہی ہے جو میں تمہیں بتلا رہا ہوں۔ اس کے بعد عباس رضی اللہ عنہ قریش کی مجالس میں گئے، یہ جب بھی ان کے پاس سے گزرتے تو وہ کہتے: اے ابو الفضل! آپ کو بھلائی ملے، وہ کہتے اللہ کا شکر ہے مجھے بھلائی ہی بھلائی ملتی ہے۔ مجھے حجاج بن علاط رضی اللہ عنہ نے بتلایا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کے ہاتھوں خیبر فتح کرا دیا ہے اور وہاں سے حاصل شدہ مالِ غنیمت کو اللہ کے مقرر کردہ حصوں میں تقسیم کر کے بانٹ دیا گیا ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے صفیہ بنت حیی کو اپنے لیے رکھ لیا ہے۔ حجاج رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا تھا کہ میں ان باتوں کو تین دن تک پوشیدہ رکھوں، وہ تو یہاں اپنا مال اور سامان لینے آئے تھے، وہ لے کر چلے گئے ہیں، حجاج رضی اللہ عنہ کی باتوں سے مسلمانوں میں جو افسردگی پھیلی ہوئی تھی، وہ مشرکین کی طرف لوٹ گئی اور وہ افسردہ خاطر ہوئے، مسلمان اور دوسرے لوگ جو ان کے گھر میں غمگین اور افسردہ گئے تھے، وہ وہاں سے نکل کر عباس کے پاس گئے، پھر انہوں نے ان کو اصل احوال سے آگاہ کیا،یہ تفصیل سن کر تمام مسلمان دلی طور پر مسرور ہو ئے اور سارا رنج وغم اور افسردگی مشرکین کی طرف لوٹ گئی۔