سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خیبر کا علاقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا فرما دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کو وہاں حسب سابق آباد رہنے کی اجازت مرحمت فرمائی، اور وہاں کی زمین کو یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو وہاں بھیجا، انہوں نے وہاں جا کر باغات کے پھلوں کا تخمینہ لگایا اور کہا: اے یہودیو! تم میری نظر میں اللہ کی سب سے زیادہ نا پسندیدہ مخلوق ہو، تم نے اللہ کے نبیوں کو قتل کیا اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بھی باندھے، لیکن اس قدر بُغض کے باوجود میں تم پر ظلم وزیادتی نہیں کروں گا، اب میں نے بیس ہزار وسق کھجور کا تخمینہ لگایا ہے، اگر تم چاہو تو اپنے لیے اس فیصلہ کو قبول کر لو، اگر تمہیںیہ منظور نہ ہو تو میں قبول کر لیتا ہوں، یہودیوں نے کہا: اسی عدل کی بدولت تو زمین وآسمان قائم ہیں، ہم آپ کے تخمینہ کو قبول کرتے ہیں، آپ اس سے الگ رہیں۔
بُشیر بن یسار سے مروی ہے کہ انھوں نے اصحاب ِ رسول میں سے بعض افراد کو اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے پایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کو فتح کر لیا اور خیبر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کی ملکیت ہو گیا، جبکہ مسلمان اس سرزمین کا سارا کام کاج کرنے سے عاجز تھے، تو انھوں نے اس کو یہودیوں کے ہی سپرد کر دیا کہ وہی اس کی ذمہ داری ادا کریں گے اور اس پر خرچ کریں گے، اس کے عوض ان کو نصف پیداوار ملے گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے، اس کو چھتیس حصوں پر تقسیم کیا، ہر حصہ سو حصوں پر مشتمل تھا، خیبر کی زمین سے جو حصہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے نصف کو مسلمانوں میں اس طرح تقسیم کر دیتے تھے کہ اس میں مسلمانوں کے حصے بھی ہوتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ بھی، باقی نصف کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفود، دوسرے امور اور لوگوں کے دوسرے حوادث و مہمات میں خرچ کرتے تھے۔
محمد بن ابی مجالد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: مسجد میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے مجھے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا کہ ان سے پوچھ کر آؤں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے پھلوں کے متعلق کیا فیصلہ فرمایا تھا، میں نے ان کی خدمت میں جا کر یہ بات ان سے دریافت کی اور میں نے یہ بھی پوچھا کہ آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا خمس(پانچواں حصہ) الگ کیا تھا، انہوں نے کہا : جی نہیں، وہ تو اس سے بہت کم تھا، ہم میں سے کوئی بھی آدمی جب چاہتا حسبِ ضرورت اس میں سے لے سکتا تھا۔